چینی مسلمانوں کی حالتِ زار

مَیں نے ارومچی قیام کے دوران میں بچشمِ خود اویغور مسلمانوں کی بے بسی، لاچاری اور مظلومیت کے عکاس چہرے دیکھے۔ مَیں نے دورانِ قیام نماز کے لیے مسجد کے بارے میں کئی بار پوچھا لیکن چینی میزبان میری بات ٹالتے رہے۔ مجھے کمرے میں نماز پڑھتے دیکھ کر کچھ چینی ششدہ رہ گئے۔ مَیں ان کے پکائے ہوئے گوشت کے حلال ہونے کے بارے میں شک میں ہونے کی وجہ سے صرف سبزیوں پر گزارا کرتا رہا، تا وقت یہ کہ ایک دن خاتون چائینز میزبان نے متعلقہ قصائی اور کُک کو میرے سامنے پیش کیا جنہوں نے یقین دلایا کہ گوشت حلال ہے اوراسلامی طریقے سے جانور ذبح کیا گیا تھا۔
شام کو ڈنر پر ’’مشروبات‘‘ پیش کی گئیں اور اصرار کیاگیا کہ ہم ان کے ساتھ پی لیں، مگر ہم پیپسی سے چمٹے رہے۔ وہ بھی نامعقول حد تک اپنی بات پر اڑے رہے اور ہم بھی مسلسل انکار کرتے رہے۔ یوں میزبانوں ا ور مہمانوں کے درمیان ایک نامناسب صورتِ حال بن گئی۔ ضیافت کے بعد اویغور خواتین آرٹسٹوں نے ہلکی پھلکی رقص اور موسیقی کا مظاہرہ کیا۔ مجھ سے ایک چائینز میزبان نے پوچھا: ’’آپ کیوں باربار مسجد کا پوچھ رہے ہیں؟‘‘ مَیں نے کہا: ’’وہاں ہمیں وہ سکون ملتا ہے جواس مادی دنیا کی تگ ودو اور ان رقص وسرود کی محفلوں میں کسی کو نہیں مل سکتا۔‘‘ اس نے مجھے یوں دیکھا جیسے میری بات اس کو بالکل سمجھ ہی نہ آئی ہو۔
ارومچی سے چند کلومیٹر دور ’’ہیونلی لیک‘‘ (Heavenly Lake) نامی ایک جھیل لے جایاگیا، تو وہاں اویغور اور باقی ترکی النسل مسلمانوں کی معاشی حالتِ زار اور بے بسی کا مشاہدہ کیا۔ ہمارے مقامی لوگوں سے ملنے جلنے کو پسند نہیں کیا جاتا تھا، لیکن پھر بھی ایک موقعہ پر ایک اویغور شخص نے میری شکل و صورت کو دوسروں سے مختلف پاکر مجھے سے پوچھا: ’’عربی؟‘‘ مَیں نے جواباً کہا: ’’نہیں، پاکستانی!‘‘ وہ بے اختیار مجھے سے بغل گیر ہوا اوراس کے آنسو جاری ہوگئے۔ اُخوت اور پیار کے جذبات لیے کچھ دیر تک وہ ہمیں دیکھتا رہا اور ہمدردی اور خیرخواہی کے جذبات لیے ہم اسے دیکھتے رہے۔ میرے سینئر نے مجھے ہلکی سے تنبیہ کی کہ آئندہ محتاط رہنا۔
باوجود اس کے کہ ہم سرکاری دورے پر تھے اور چینی حکومت کے مہمان تھے، ہمیں کئی دفعہ وہاں عجیب طرح کے سخت اور نامناسب سلوک کا تجربہ بھی ہوا۔ یہاں تک کہ ائیر پورٹ میں ناروا سختی پر ہم نے کسی قدر احتجاج بھی کیا لیکن چینی حکام نے پروا بھی نہ کی۔ واحد جگہ جہاں مسلمانوں کو ان کے دین کے اساسی عقائد اور عبادات پر بھی عمل کرنے کی مکمل آزادی نہیں اور انہیں اپنے عقیدے اور نسلی شناخت کی وجہ سے بدترین امتیازی سلوک اور بسااوقات تشدد اور جبرواستبداد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ وہ صرف اور صرف سنکیانگ کا علاقہ ہے۔ یہاں جب تک آپ کمیونسٹ پارٹی کے ممبر نہیں ہوتے، آپ پر سرکاری نوکری کے دروازے بند رہتے ہیں۔ یہاں آپ نماز، روزہ اور حج کی ادائیگی پر بھی طرح طرح کی پابندیوں اور سخت نگرانی کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ آپ کے گھر کوئی مہمان رات کو آکر ٹھہر نہیں سکتا، صرف ہوٹل میں قیام کرسکتا ہے۔ اس کے لیے بھی آپ کو حکومت سے پیشگی اجازت لینی پڑتی ہے۔ اگر آپ کہیں ملازم ہیں، تو رمضان کے روزے نہیں رکھ سکتے۔ آپ پر داڑھی رکھنے کی وجہ سے مصیبت آن پڑسکتی ہے۔ کئی مسلمان گھروں کے اندر حکومت نے کیمرے لگائے ہیں، تاکہ ان کی نجی زندگی پر بھی حکام کی نظر رہے۔ اگر آپ مسلمان چینی ڈرائیور ہیں، تو آپ آزادی کے ساتھ مال برادر گاڑی بھی پاکستان نہیں ڈرائیو کرسکتے۔ آپ کو کسی بھی وقت، کسی بھی بہانے اٹھایا جاسکتا ہے، غائب کیا جاسکتا ہے۔ آپ کو احتجاج کا حق ہے، نہ سیاسی جماعت بنانے کا۔ مسجدوں کو کم سے کم رکھا گیا ہے۔ نئے مساجد کی تعمیر تقریباً ناممکن ہے۔ مساجد کو محضوص اوقات کے لیے محدود لمحوں کے لیے کھولاجاتا ہے اور پھر بند کردیا جاتا ہے، وعلی ہذالقیاس……!
جبر اتنا کہ کئی دفعہ خود پاکستانی تاجر اور سیاح بھی جب خنجراب پاس سے پاکستان کے حدود میں داخل ہوتے ہیں، تو بے اختیار زمین پر سجدے میں چلے جاتے ہیں۔ پاکستان کی مٹی چھومتے ہیں اور سنکیانگ میں قیام کے دوران میں پیش آنے والی مشکلات سے نجات پانے پر خدا کا شکر ادا کرتے ہیں۔
قارئین، درجِ بالا سطور ایک دوست کی ’’چین یاترا‘‘ کی روداد کا حصہ ہے۔ یہ دوست ایک اعلا سرکاری عہدیدار ہے۔ اگر سالوں سے نہ جانتا، تو اس کی بیان پر یقین نہ کرتا۔ دوست سے ملتے جلتے تاثرات ان پاکستانی طلبہ کے بھی ہیں جو بغرضِ تعلیم چین میں موجود ہیں۔ مغربی میڈیانے تو ان کیمپس کے ویڈیوز تک دکھائے ہیں جہاں ایغور کو رکھا جاتا ہے۔
چین اور پاکستان کی دوستی ہمالیہ سے بلند، سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی ہے۔ باقی اسلامی دنیا میں بھی چین کا تاثر برا نہیں۔ ایسے میں لازم ہے کہ چین ایغور مسلمانوں کے بنیادی حقوق اور مذہبی آزادی کو یقینی بنائے، تاکہ امتِ مسلمہ میں بے چینی نہ پھیلے اور چین بھی چین سے رہے۔
……………………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔