امریکہ کے اندر سے فلسطین کی حمایت میں اُٹھتی آواز

Blogger Ikram Ullah Arif

ظلم یا تشدد ایک مکمل عمل کا نام ہے، جس کا ابتدا اچانک ہوتا ہے، مگر اختتام آسانی سے ممکن نہیں۔
کتابوں میں تشدد یا ظلم کے مختلف مراحل کا ذکر آیا ہے۔ مثلاً: ظلم کسی بھی شکل میں ہو، اس کا ابتدا ایک جھٹکے (Shock) سے ہوتا ہے۔ یعنی کوئی بہت جانی اور قریبی دوست کسی کو دھوکا دے، تو کوئی بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ لہٰذا اسے ’’جھٹکا‘‘ لگتا ہے۔
اکرام اللہ عارف کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ikram-ullah-arif/
جھٹکا لگنے کے بعد ’’خوف‘‘ کا مرحلہ آتا ہے، جس میں انسان محسوس تو کرتا ہے، مگر تسلیم نہیں کرتا۔ گویا کہ دوست سے دھوکا کھانے والا دعا کرتا ہے کہ کاش ایسا نہ ہو۔ کیوں کہ انسان یہ مانتا ہی نہیں کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے…… لیکن جب اسے یقین ہوجاتا ہے کہ ایسا ہی ہوا ہے کہ دوست ہی نے دھوکا دیا ہے، تو ایسی صورتِ حال میں خوف پھر ’’غم‘‘ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
پھر جب غم کا مدوا نہ کیا جائے اور غم کو مرہم میسر نہ آئے، تو ’’غصہ‘‘ پیدا ہوجاتا ہے۔ غصہ ظلم و تشدد کے دائرے کا وہ مرحلہ ہے، جو ’’تلخی‘‘ کو جنم دیتا ہے۔ اب تلخی انسانی مزاج کا وہ عنصر ہے جو ’’بدلہ‘‘ لینے پر اُکساتا ہے۔ بدلہ لینے کے یہی احساسات جب حد سے بڑھ جائیں، تو پھر جواباً حملہ کیا جاتا ہے۔
مثلاً: اگر دوست نے آپ کو دھوکا دیا ہے، تو جواباً آپ بھی دھوکا دیتے ہیں۔ اب جب ایسا ہوتا ہے، تو ظلم یا تشدد کا دائرہ مکمل ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد گالی کا جواب گالی اور ظلم کا مقابلہ ظلم سے شروع ہوجاتا ہے، جس کا نتیجہ آسانی سے نکلتا نہیں۔
ظلم کے دائرے کو اگر آسانی سے سمجھنے کے لیے مختصر لفظوں میں لکھا جائے، تو ترتیب کچھ یوں بن جائے گی: ظلم، جھٹکا، خوف، غم، غصہ، تلخی، بدلہ، جوابی حملہ اور پھر ظلم۔
آپ کسی بھی انفرادی یا اجتماعی تشدد یا ظلم کی کہانی کا جائزہ لیجیے۔ آپ کو یہ سارے عوامل اس میں نظر آئیں گے۔
تشدد افراد کے مابین ہو، جیسا کہ دو افراد میں لڑائی یا ریاستوں کے مابین جنگ ہو، مثلاً: روس یوکرائین یا فلسطین میں اسرائیلی ظلم و بربریت۔
یہ بھی یاد رہے کہ تشدد میں ہمیشہ ایک ظالم اور دوسرا مظلوم ہوتا ہے۔ عموماً ظالم طاقت ور اور مظلوم غریب ہوتاہے۔ ریاستوں میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ آپ نے نہیں دیکھا ہوگا کہ طاقت اور صلاحیت میں دو ٹکر کی ریاستوں میں کبھی لڑائی ہوئی ہو…… بلکہ اس کا اُلٹ کئی بار ہوچکا ہے۔ امریکہ اور ویت نام جنگ، روس افغانستان جنگ، روس کریمیا اور حالیہ روس یوکرائن جنگ، امریکہ عراق جنگ، امریکہ اور لیبیا جنگ، امریکہ افغانستان جنگ کے علاوہ اسرائیل اور فلسطین جنگ…… ہر جنگ میں ایک طاقت ور جب کہ دوسرا کم زور ہوتا ہے۔ تقریباً ہر جگہ طاقت ور ظالم جب کہ کم زور مظلوم رہا ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین: 
فلسطین اسرائیل جنگ اور میڈیا کا کردار  
اسرائیل اور فلسطین  
ایران اسرائیل تنازع، اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ 
اسرائیل میں یہودی بنیاد پرستی 
پشتون بنی اسرائیل کی اولاد نہیں (جینیاتی مطالعہ) 
امن کے لیے کام کرنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ تشدد کے اس دائرے کو اگر بروقت ختم کیا جائے، تو ظلم کو روکا جاسکتا ہے اور تشدد کا خاتمہ ممکن ہے۔ تشدد کے دائرے کا جب بہ غور جائزہ لیا گیا، تو یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ اس دائرے کو اگر ’’غصہ‘‘ والے مرحلے پر توڑا جائے، تو قوی امکان ہے کہ تشدد کا ظہور نہ ہو۔ کیوں کہ غصہ جو تشدد کے دائرے کے مطابق تلخی کو جنم دیتا ہے، تو تلخی بدلہ لینے پر اُکساتا ہے اور نتیجتاً جوابی حملہ کیا جاتا ہے، جس کا نتیجہ پھر ظلم و تشدد ہی پر منطبق ہوجاتا ہے۔
اب اس دائرے کو توڑنے کے لیے کچھ عوامل درکار ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ فریقین کو الگ الگ کیا جائے، تاکہ ایک دوسرے سے جدا رہیں اور یوں مظلوم، ظالم کے ظلم کا نشانہ نہ بنے۔
اس ضمن میں یہ بھی لازم ہے کہ متحارب گروہوں سے اسلحہ اکٹھا کیا جائے، تاکہ کوئی انارکی پھیلانے کی کوشش بھی کرے، تو اس کے لیے وسائل محدود ہوں۔
علاوہ ازیں مظلوم کو ظالم کے برخلاف حفاظت بھی دی جاسکتی ہے، تاکہ وہ تشدد سے محفوظ رہے۔ دیگر عوامل میں یہ ہے کہ سیاسی استحکام لایا جائے جس کے لیے صاف و شفاف انتخابات لازمی ہیں۔ ساتھ میں اقتصادی استحکام ناگزیر ہے، تاکہ سماج میں امن اور ٹھہراو رہے۔
اس کے علاوہ متاثرہ لوگوں کی داد رسی اور امداد بھی ہونی چاہیے۔ ساتھ میں صلح کے لیے تیسری قوت کا سہارا بھی لینا چاہیے، تاکہ تشدد کا خاتمہ ہو اور امن کا قیام ہو۔
کیا بعید کہ فلسطین میں جاری حالیہ اسرائیلی ظلم کا دائرہ وہ امریکی طالب علم توڑ ڈالیں، جو باجود حکومتی اور ریاستی دباو کے فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے سراپا احتجاج ہیں۔ امتِ مسلمہ، امتِ مرحومہ ہی سہی مگر امریکی طالب علموں کی امن سے محبت اور جنگ سے نفرت سے ممکن ہے کہ تشدد کا یہ دائرہ ٹوٹ جائے اور فلسطینیوں کو سکون مل جائے۔
اس حوالے سے اقبالؔ نے کیا خوب کہا تھا کہ
ہے عیاں یورشِ تارتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے