’’تصویر میں نظر آنے والا شخص20 ویں صدی کا طاقت ور ترین حکم ران تھا۔‘‘
یہ روسی خبر رساں ایجنسی ’’تاس‘‘ کا تبصرہ ہے، جو اُس نے 28 جولائی 1969ء کو ریاست کے ادغام پر کیا تھا۔
ایک ایسا حکم ران (میاں گل عبدالحق جہانزیب) جس سے کوئی بھی شخص دفتری اوقات میں مل سکتا تھا۔ بس ملاقاتیوں کی فہرست میں نام لکھوا دو اور چند منٹ بعد لائن میں کھڑے ہوکر اُن سے ملو۔ اپنی مدعا عرض کرو۔
فضل رازق شہاب کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-raziq-shahaab/
میری اُن سے دو بہ دو ملاقات 28 جون 1961ء کو تصویر میں نظر آنے والے کمرے میں ہوئی۔ مَیں تھرڈ ایئر کا سٹوڈنٹ تھا اور ایوبی رجیم کی تعلیمی اصلاحات سے متاثر تھا۔ مجھے حاضریاں کم ہونے پر امتحان میں شرکت سے روک دیا گیا تھا۔ مَیں نے شہزادہ عالم زیب المعروف بہ حافظ بہادر باچا کی وساطت سے ملاقات کے لیے اور ملازمت کے لیے عرض کیا تھا۔
اُن دنوں ہم سیدو ہسپتال میں سوشل ورک کے 15 روزہ کورس میں مصروف تھے۔ ہم میل وارڈ میں ڈاکٹر نجیب کے اِرد گرد کھڑے ایک مریض کی ہسٹری پر اُن کا لیکچر سن رہے تھے۔ایسے میں والئی سوات کے خصوصی گارڈ کا ایک سپاہی آیا اور میرے بارے میں پوچھنے لگا۔ ڈاکٹر نجیب نے مجھے آگے کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ ہے وہ لڑکا۔‘‘ پھر مجھ سے ہنس کر کہنے لگا: ’’میرزا صاحب کے بیٹے! کیا کردیا ہے؟
قصہ مختصر، چند لمحوں بعد میں اسی میز کے پاس کھڑا اسی حکم ران کی باتوں کا جواب دے رہا تھا…… اور پھر اُنھوں نے میری زبانی درخواست منظور کی۔
دیگر متعلقہ مضامین:
ریاستِ سوات کے خاتمے کا مروڑ  
والئی سوات کے پرائیویٹ سیکریٹری پُردل خان لالا  
والئی سوات کی آپ بیتی (تبصرہ: فضل ربی راہیؔ) 
والئی سوات کی یاد میں  
مولوی بادشاہ گل، سوات کوہستان میں رسمی تعلیم کے بانی  
تصویر ہی میں سامنے دیوار پر جو تصویر نظر آرہی ہے، وہ ان کے والد اور ریاست کے پہلے باقاعدہ حکم ران میاں گل عبدالودود صاحب کی ہے، جو ’’بادشاہ صاحب‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ اسی تصویر کے اوپر ریاست کا نشان یا "Coat of Arms” لگا ہوا تھا، جو اس تصویر میں دکھائی نہیں دیتا۔
اُس وقت میں 18 سال کا لڑکا تھا۔ اُس دن کے بعد کئی دفعہ اس کمرے میں اُن سے محکمانہ اُمور کے سلسلے میں ملنے کا اتفاق ہوا اور کبھی کبھی زیرِ تعمیر منصوبوں کے اچانک معائنے کے وقت بھی ملنا ہوا اور ہمیشہ مجھ سے نہایت مہربان لہجے میں گفت گو کی۔ اللہ اُن کو غریقِ رحمت کرے، آمین!
یہ ایک ایسا توکل بر خدا رکھنے والا شخص تھا کہ نہ کبھی اپنی سیکورٹی بڑھائی، نہ گارڈ کی تعداد میں اضافہ کیا۔ اگرچہ ایک رپورٹ کے مطابق 1954ء میں اُن کے خلاف ایک سازش ہوئی تھی، جو عین وقت پر "Expose” ہوگئی اور جس میں ایک سورس کے مطابق اُن کے باڈی گارڈز کا سربراہ شامل تھا۔
اس کے باوجود وہ کھلے عام منصوبوں کا معائنہ کرتے رہے۔ بغیر پیشگی اطلاع کے اچانک کسی سکول کا، کسی شاہ راہ کا یا کسی پل کا وزٹ کرتے۔ چار پانچ باڈی گارڈ اور ایک دو آفیسرز ہی ساتھ ہوتے ۔
ایک دفعہ چکیسر کے زیرِ تعمیر ہسپتال کا معائنہ کرنے آئے، تو اُن کی جیپ میں ان کے ڈرائیور کے علاوہ وزیرِ مال صاحب شیرمحمد خان اور موسیٰ میانہ کے شہزادہ بحر کرم تھے۔ گارڈز والی جیپ میں ڈرائیور کے علاوہ 4 گارڈز تھے۔
مقامی ہائی سکول میں چائے پینے کے لیے ہال میں آگئے، تو گارڈز سمیت بیٹھ گئے۔ مجھے بھی آواز دے کر اپنے سامنے بٹھایا۔
دوستو! آج کل تو ایک اسٹنٹ کمشنر کے ساتھ کئی پولیس اور ایف سی والے ہوتے ہیں اور آپ بغیر فارملیٹیز کے اُن سے مل نہیں سکتے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔