اُنیسویں صدی کی ابتدا (1893ء) میں انگریز سامراج نے افغانستان کو ’’ڈیورنڈ لائن‘‘ کھینچ کر تقسیم کیا۔ اس تقسیم کے تیس سال گذرنے کے بعد برطانوی افواج نے قبائلی علاقوں میں پختونوں پر ایک بار پھر مظالم ڈھانا شروع کیے۔ نتیجتاً درۂ تیراہ کے غیور اور بہادر پشتونوں نے اُن کے مظالم کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ برطانوی افواج کے خلاف برسرِپیکار ان غیور پشتونوں میں ایک عجب خان آفریدی بھی شامل تھے۔
14 اپریل 1923 ء کو قبائل جوانوں کی ایک ٹولی عجب خان آفریدی کی سرپرستی میں کوہاٹ چھاؤنی کے قریب میجر ایلس کے گھر پر رات کو حملہ آ ور ہوئی۔ اس ٹولی میں عجیب خان آفریدی کا بھائی شہزادہ خان بھی شامل تھا۔ اس حملہ میں مذکورہ میجر کی 17 سالہ بیٹی ــ’’مِس مولی ایلس‘‘ ہاتھ آئی جسے عجب خان آفریدی اپنے ساتھ درّۂ تیراہ کی وادیوں میں لے گئے۔
اِس واقعہ کی خبر جنگل کی آگ کی مانند پھیل گئی۔ ہندوستان (دہلی) میں برطانوی وائسرائے کو جب اِس واقعے کی خبر ہوئی، تو اُس نے بغیر وقت ضائع کیے بغیر ایک تحریری حکم نامہ اس وقت کے انگریز چیف کمشنر ’’ سَرجان مافی‘‘ کو ارسال کیا۔ اِس حکم نامے میں مِس ایلس کی بازیابی کے لیے جلد ازجلد عملی کوششیں کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
صوبہ سرحد (اب خیبر پختون خوا) کے کمشنر نے مِس ایلس کا سراغ لگانے کے لیے اپنے تین قابلِ اعتماد افراد زمان خان (خیبر قبائل کا سردار)، خان بہادر قُلی خان (درّۂ کُرم کا اسسٹنٹ پولی ٹیکل ایجنٹ) اور مِس لیلین سٹار (نرسز انچارج پشاور مشن ہاسپٹل) کے ذمے یہ کام سونپ دیا۔
لیلین سٹار نے 19 اپریل 1923 ء کوکمشنر سے ملاقات کی، جس میں باہمی مشاورت سے اُس کو پشاور کے ’’ماموریت قبائل‘‘ میں مس ایلس کا پتا لگانے کا کام سونپ دیا گیا۔ صوبہ سرحد کے قبائل میں ایک انگریز خاتون کو یہ کام سر انجام دینا نہایت مشکل تھا۔ کیوں کہ قبائل کے لوگ انگریزوں سے سخت نفرت کرتے تھے۔ لیلین سٹار اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہچانے کے لیے درّۂ نیرانزئی سے ہوتے ہوئے ہنگو اور اس سے آگے 90 میل کا فاصلہ طے کرتے ہوئے قلعہ شنواری جا پہنچی۔ قلعہ سے آگے وہ پشتونوں کے دیگر پانچ قبائلی علاقوں آخیل، علی خیل، علی شیرزئی، خدوزئی اور منوزئی سے گذری۔

مس ایلس 88 برس کی عمر میں انگلستان سے دوبارہ اپنی مرضی سے کوہاٹ آئی۔ (Photo: barmazid.com)

لیلین سٹار کے اس مشن کو پورا کرنے کے لیے آفریدی قبائل سے مغول باز خان (جس نے انگریز فوج میں خدمات کے عوض ’’خان بہادر‘‘ کا لقب پایا تھا) اور کربوغبی کے مولوی کا بیٹا عبدالحق بھی اُس کے سہولت کار تھے۔ 21 اپریل 1923ء کو یہ تینوں درّۂ خانکی میں مولانا اخون زادہ کے گھر پہنچ گئے۔ مولانا اخون زادہ اپنے علاقہ کے لوگوں کے لیے قابلِ عزت و احترام تھے۔ اُن کو لوگ روحانی پیر کے طور پر مانتے تھے۔ جب انہیں لیلین سٹار کی اپنے گھر آمد کی خبر ہوئی، تو انہوں نے اس کابہت برا مانا۔ اُن کی ناراضی پر لیلین سٹار نے اُن سے کہا کہ وہ عظیم اللہ کے گھر میں رہے گی۔ پولی ٹیکل ایجنٹ قلی خان (درّۂ کُرم) نے مولانا اخون زادہ سے مِس ایلس کے اغوا کے حوالے سے پوچھ پاچھ کی، تو مولانا صاحب نے لاعلمی کا اظہار کیا کہ وہ اس بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ پولی ٹیکل ایجنٹ قُلی خان کی جدوجہد کے بعد اُسے عجب خان کے ٹھکانے کا سراغ ملا کہ وہ اور اس کا بھائی شہزاد ہ خان درّۂ خانکی میں رہتے ہیں اور مس ایلس کو انہوں نے ’’جاوکی‘‘ نامی گاؤں میں رکھا ہے۔ قُلی خان نے عجب خان آفریدی کو 20 اپریل 1923 ء کو مذاکرات کی دعوت دی۔ عجب خان آفریدی نے مِس ایلس کی رہائی کے لیے تین شرائط رکھیں۔ قلی خان نے ملاقات کے بعد برطانوی سرکار کو عجب خان کی شرائط ارسال کیں۔
مس لیلین سٹار بھی 21 اپریل کو درّۂ خانکی کے بازار میں جاپہنچی۔ وہاں اس کی ملاقات قُلی خان سے ہوئی۔ اسے بتایا گیا کہ مِس ایلس ’’جاوکی‘‘ گاؤں میں قیدہے۔
جس وقت مِس ایلس، عجب خان آفریدی کے ہاتھ آئی تھی، تو وہ اُس سمے لباسِ شب خوابی میں ملبوس تھی۔ راستے میں اُسے مردانہ کپڑے اور جوتے (پشاوری چپل )دیے گئے۔ اپنے علاقہ پہنچ کر عجب خان نے مِس ایلس کو اپنے گھر میں رکھا۔ پختون ثقافت و روایات کے مطابق اُسے بہن کا درجہ دیا، اور اُن کے گھر کی خواتین مس ایلس کی خدمت گذار بن گئیں۔
شرائط پورے ہونے کے بعد 23 اپریل 1923 ء کو مس ایلس کی رہائی ممکن ہوئی۔ رہائی کے وقت مِس ایلس کو پختونوں کا ثقافتی لباس تحفتاً دیا گیا اور دیگر سوغات کے ساتھ بڑی عزت و احترام سے والدین کے حوالہ کی گئی۔
مس ایلس 88 برس کی عمر میں انگلستان سے دوبارہ اپنی مرضی سے کوہاٹ آئی، تو اسے وہاں کے لوگوں نے بہت عزت سے نوازا۔
عجب خان آفریدی کی جرأت اور دلیری پر ایک فلم بھی بنائی گئی ہے، جس میں اُن کے کارناموں کو ہائی لائٹ کیا گیا ہے۔
( پشتو ماہنامہ ’’لیکوال‘‘ ماہِ جون؍ جولائی 2019 ء، صفحہ نمبر 59 اور 60 سے ڈاکٹر لطیف یاد کے تحقیقی مقالہ کا ترجمہ، راقم)

………………………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔