اے چہرۂ زیبائے تو رشک بتانِ آزری
ہر چند وصفت می کنم درحسن ِزاں زیبا تری
(ترجمہ): اے کہ تیرا چہرہ بتانِ آزری (آزر کے بنائے ہوئے پتھر کے حسین مجسمے، مراد، حسین ترین صورت) کے لیے ناقابلِ رشک ہے۔ تیری جتنی بھی تعریف کروں، تو اُس سے بڑھ کر حسین ہے۔
آفاقہا گردیدہ ام مہر بتاں ورزیدہ ام
بسیار خوباں دیدہ ام، لیکن تو چیزے دیگری
(ترجمہ): مَیں نے آفاق کی ( دنیا جہان کی) سیر کی ہے۔ ڈھیر سارے حسینوں کو دیکھا ہے، لیکن تو دوسری چیز ہے۔
تو از پری چابک تری و زبرگ گل نازک تری
از ہر چہ گویم بہتری حقا عجائب دلبری
(ترجمہ): تو پری سے زیادہ سُبک (کم وزن)، برگِ گل یعنی پھول کی پنکھڑی سے زیادہ نازک ہے، جو کچھ بھی کہوں، تو یقینا اُس سے بہتر اور عجیب دل بر ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
دو شعرا کا تخلیق کردہ فارسی شعر
قومی ترانہ، فارسی یا اُردو
من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی
تاکس نگوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری
(ترجمہ): مَیں تُو ہوگیا (تیری ذات بن گیا) تُو مَیں ہوگیا (میری ذات بن گیا) مَیں تن ہوا، تو جاں ہوا (یعنی محبوب محب، ایک دوسرے کا آئینہ بن گئے) اب کوئی یہ نہ کہے کہ مَیں الگ ہوں، تُو الگ ہے…… یعنی اب ہم یک جان دو قالب ہیں۔
خسروؔ غریب است و گدا افتادہ در شہر شما
باشد کہ از بہر خدا سوئے غریباں بنگری
(ترجمہ): خسروؔ تمھارے شہر میں اجنبی اور گدا بن کر پڑا ہے۔ خدا کے واسطے اجنبیوں پر بھی ایک نظرِ کرم کر۔
مأخذ :
٭ کتاب ’’نغماتِ سماع‘‘، صفحہ نمبر 383، مطبع ’’نور الحسن مودودی صابری‘‘ 1935 عیسوی۔
٭ کتاب ’’نغمات الانس فی مجالس القدس‘‘، صفحہ نمبر 297، مطبع ’’دار الاشاعت خانقاہ مجیبیہ‘‘ ، سنِ اشاعت 2016 عیسوی۔