جن مسائل کا ہمیں سامنا ہے، کیا اُن کا حل عام انسانوں کی بس کی بات ہے؟
کیا ہماری منزل متعین اور راستہ درست ہے؟
کہیں ہم راستہ تو نہیں بھول گئے ہیں؟
بہ حیثیت مجموعی ہمیں نفسیاتی بیماری لاحق تو نہیں؟
اکرام اللہ عارف کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ikram-ullah-arif/
کیوں کہ جو کچھ نظر آرہا ہے، وہ درست نہیں لگ رہا۔ کچھ اُلٹ پلٹ ہورہا ہے۔ گویا کہ قومی مقصد کا سفر جس جانب رواں دواں ہے، وہ حقیقت نہیں بلکہ سراب ہے…… مگر شاید ہم تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔
کیا یہ نفسیاتی مسئلہ ہے؟ کیوں کہ ارادے کچھ، اعمال کچھ، خواہشات کچھ اور افعال کچھ ہیں۔ مثلاً: مشہورِ عام ہے کہ گلستان میں گلاب اور پھول دار پودوں کو لگایا جاتا ہے۔ آپ نے کہیں نہیں دیکھا ہوگا کہ کسی نے گلاب، چنبیلی اور دیگر پھولوں کے بجائے گلستان کو کریلا، کدو، بھنڈی اور پالک کے پودوں سے بھر دیا ہو…… مگر شاید ایسا ہورہا ہے۔
دستور یہ بھی ہے کہ انسان کپڑے پہنے رکھے۔ کہیں بازار میں اگر کوئی شلوار یا قمیص پہنے بغیر نظر آئے، تو پوچھے بغیر لوگ یقین کرلیتے ہیں کہ یہ دماغی مریض ہے۔ کیوں کہ یہ طریقہ عام ذی ہوش انسانوں کا نہیں۔
شہر کا ایک مشہور ماہرِ نفسیات کسی دن اپنے ایک اور ماہرِ نفسیات دوست کے پاس تشریف لے گیا۔ دوست نے آنے کا مدعا پوچھا، تو مہمان نے بتایا: ’’ آپ جانتے ہیں کہ سال ہا سال سے نفسیاتی مریضوں کا علاج کر رہا ہوں۔ رات کو کچھ اَن بن ہوئی، تو بیوی نے کہا، آپ کا بھی دماغ خراب ہوگیا ہے۔ اس لیے مَیں آپ کے پاس آیا ہوں، تاکہ مدتوں بعد ملاقات بھی ہوجائے اور اسی بہانے میرا معاینہ بھی۔‘‘
میزبان نے ہنستے ہوئے کہا، اچھا کیا! مجھے بھی آپ بہت یاد آرہے تھے، مگر کیا کریں، مریض ہیں کہ ختم ہی نہیں ہورہے۔ روزانہ دو سو تک مریض دیکھتے دیکھتے میں بھول ہی جاتا ہوں کہ میں انسان ہوں یا مشین……! بہ ہرحال آپ آئے ہیں، تو کچھ لمحے تو اچھے گزر ہی جائیں گے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
ماہرینِ نفسیات کی والدین سے چند گزارشات
اپنائی گئی مغلوبیت کے نفسیاتی، سماجی اور ثقافتی اثرات
احساسِ شرمندگی اور نفسیات
سوات میں دہشت گردی کی تازہ لہر اور عمومی نفسیات
بے چینی (اینزائٹی) کا نفسیاتی جایزہ
یہ کہتے ہوئے میزبان نے ساتھ میں نوکر کو چائے وغیرہ لانے کا بھی کہا۔ اَب یہ دوست بیٹھے گپ شپ لگا رہے تھے کہ اتنے میں نوکر چائے اور فروٹ لے کر حاضر ہوا۔ میزبان نے ایک کپ میں اپنے لیے اور دوسرے میں دوست کے لیے چائے ڈالی اور ساتھ میں لطیفے بھی سناتا رہا۔ اَب کچھ لمحے گزرے ہی تھے کہ میزبان نے قریب پڑے کیلے کو اُٹھایا۔ چھلکا اُتارا اور کھانے کی بجائے چائے کی کپ میں ڈبونے لگا۔ یہ منظر دیکھتے ہی مہمان کے ذہن میں آیا کہ میرا دوست مجھ سے بھی زیادہ نفسیاتی مریض بن چکا ہے۔ لہٰذا دوستی رہی ایک طرف، مریض کو مریض کا ہی سامنا تھا۔ دونوں نفسیات کے ڈاکٹر، دونوں دوست اور دونوں بہ یک وقت نفسیاتی مریض۔
قارئین! کیا یہ صرف دو دوستوں کی کہانی ہے……. اور کیا ہم نفسیاتی طور پر صحت مند ہیں؟ اگر نہیں، تو کیا ہم مانتے ہیں کہ ہمیں نفسیاتی طور پر علاج، پرہیز اور احتیاط کی ضرورت ہے؟
اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ انسان نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہیں۔ خاص کر ترقی یافتہ ممالک میں نفسیاتی بیماروں کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے۔ نتیجتاً ماہرینِ نفسیات سے معاینہ کرانے کے لیے کبھی مہینوں تو کبھی سال تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ باوجود اس کے اُن عوارض سے لڑتے لڑتے بہت سارے لوگ، خاص کر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں خود کُشی کا راستہ اپناتے ہیں۔
جاپان اور جنوبی کوریا میں نوجوان نسل میں خود کُشی کا تناسب کافی زیادہ ہے۔ برخلاف اس کے کہ غریب ممالک جیسا کہ پاکستان یا ہمسایہ ممالک ہیں، اُن میں نفسیاتی بیماریوں کو تسلیم کرنے کی بجائے اور ماہرینِ نفسیات کی خدمات حاصل کرنے کی بجائے اس معاملے کو جنات، جادو، ٹونے اور دیگر معاملات و خُرافات سے جوڑا جاتا ہے۔ نتیجے میں جوگیوں، مولویوں اور عاملوں کی چاندی ہے۔ اس وقت ملک میں سب سے کار آمد کاروبار یہی ہے جس پر خرچہ صفر، ٹیکس صفر، محنت صفر مگر آمدن لاکھوں، کروڑوں میں ہے۔
گلی گلی قریہ قریہ عاملین بیٹھے ہیں، جن کے پاس ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔ جیسا کہ ہمارے حکم رانوں کے پاس تمام مسائل کا حل موجود ہے۔ اگرچہ 70، 75 سالوں میں مسئلہ کوئی حل نہ ہوسکا۔ البتہ عاملوں کی طرح ہمارے حکم رانوں کی تجوریاں بھرگئی ہیں۔
سوچنا یہ ہے کہ کیا واقعی ہم سب نفسیاتی مریض ہیں؟ اگر ہاں، تو کسی ماہرِ نفسیات سے رجوع کرنا چاہیے، یا انھی عاملوں کے ہاتھوں لٹتے رہیں گے؟ ویسے کسی کو نفسیاتی مریض آپ اپنی ذمے داری پر ہی کَہ سکتے ہیں۔ کیوں کہ اگر کسی نے جواباً آپ کو فاتر العقل، فارغ الدماغ و خالی الذہن سمیت دیگر القابات سے نوازا تو پھر کیا ہوگا؟
تو کیا ہر خلافِ عادت کام کرنے والا نفسیاتی مریض کہلائے گا؟
ہمارے مسائل کا حل کسی نفسیاتی مریض کے پاس ہوگا۔ کیوں کہ بہ ظاہر عام صحت مند انسانوں نے تو اب تک جو کیا ہے، اُن سے مسائل حل کیا ہوئے…… الٹا آنتیں گلے پڑگئیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔