اعلا عدلیہ (سپریم کورٹ) ریاستِ پاکستان کا ایک خود مختار آئینی ادارہ ہے، لیکن اس ریاستی ادارے کا کردار ہمیشہ سے متنازع رہا ہے۔ ہر بار جب کسی مردِ  آہن نے آئین توڑا، تو عدالتی توثیق کے بدلے عدلیہ کو پی سی اُو ججوں کا شرم ناک اعزاز ملا۔
عدلیہ میں ایجنسیوں اور سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ختم کرنا وہ مشکل گتھی ہے جسے حل کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ یہ وہ معاملات ہیں جو کسی نہ کسی شکل میں تھوڑے عرصے کے بعد سر اُٹھاتے رہتے ہیں۔
فضل منان بازدا کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-manan-bazda/
اسٹیبلشمنٹ اور خفیہ ایجنسیاں اگر عدلیہ میں مداخلت کرتی ہیں، تو دوسری طرف عدلیہ میں بھی اندر سے سہولت کار میسر ہوتے ہیں۔ اِن حالات و واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کارِ خیر یا کھیل میں ایجنسیاں، عدلیہ کے اندر میسر سہولت کار، جج اور سیاسی قایدین آپس میں شریک ہوتے ہیں۔ ایجنسیوں (اسٹیبلشمنٹ)، عدلیہ اور سیاست دانوں کی یہ پارٹنر شپ توڑنا کوئی آسان کام نہیں۔ ان کی مذکورہ پارٹنر شپ وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہوتی گئی۔ عدلیہ کے اعلا ججوں نے آمروں کے کہنے پر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دلوائی۔ بے نظیر بھٹو کو دو بار اور میاں محمد نواز شریف کو تین بار اُن کے عہدوں سے ہٹایا گیا۔ اب عمران خان کو بھی سرعت سے سزاؤں پر سزائیں دلوائی جا رہی ہیں۔
ایجنسیوں اور اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کی شکایات ہر دور میں ریکارڈ پر آئی ہیں۔ آج بھی ایسا ہو رہا ہے۔ 25 مارچ 2024ء کو اسلام آباد ہارئی کورٹ کے 8 میں سے 6 ججوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو خط لکھا، جس میں ججوں کا کہنا ہے کہ اُن کے رشتہ داروں کو اِغوا کرکے اُن کے ذریعے سے اُن پر دباؤ ڈالا گیا۔ اُن کے گھروں میں جاسوسی کرنے والے کیمرے لگا کر اُنھیں بلیک میل کیا جا رہا ہے۔
اس ضمن میں سابق چیف جسٹس کو خط لکھا گیا، لیکن اُن کی شنوائی نہ ہوسکی۔ حکومتی وزرا نے خط کو ایک سیاسی پارٹی کی سہولت کاری سے تعبیر کیا۔ وہ خط کی ٹائمنگ پر اُنگلیاں اُٹھا رہے ہیں۔
ایک ٹی وی ٹاک شو میں مصدق ملک نے تو اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کو ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک دن وہ اسلام آباد ہائی کورٹ راہ داری ضمانت کے لیے آئے، تو ججوں نے اُن کا مذاق اُڑایا۔
سینٹر عرفان صدیقی نے سوال اُٹھایا کہ اِن چھے ججوں نے مبینہ مداخلت پر خود ایکشن کیوں نہیں لیا اور دباو ڈالنے والوں کا نام لینے کی بجائے کیوں کر معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج دیا؟ ایسے موقع پر جب 9 مئی کے مجرموں کو سزائیں دی جانے کی توقع تھی۔ اِن ججوں نے ایک مخصوص پارٹی کی سہولت کاری کا کام کیا اور اِن کو یاد دلایا کہ چند سال پہلے تک وہ کیسے فیصلے کر رہے تھے؟
داؤد نامی ایک وکیل (جو عمران خان پر وزیر آباد میں ہونے والے قاتلانہ حملہ کرنے والے ملزم کے وکیل ہیں) نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے الزام لگایا کہ یہ خط طے شدہ منصوبے کے تحت لکھا گیا ہے، جس نے عدلیہ کو سکینڈلائز کیا۔
دیگر متعلقہ مضامین: 
منصفوں کو انصاف چاہیے، عجب ثم العجب!  
شعبہ انصاف میں خواتین کی مایوس کن تعداد  
جسٹس شوکت عزیز صدیقی سپریم کورٹ فیصلہ کے نمایاں نِکات  
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور آئین کی درستی 
آئین سے روگردانی کی مزید گنجایش نہیں  
اب وجہ کچھ بھی ہو…… چھے ججوں کا چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھنا کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ ججوں کے خط سے ریاستی اداروں سمیت اعلا عدلیہ اور حکومتِ وقت کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھے ججوں کے خط نے پورے نظامِ عدل کے خفیہ ہاتھوں میں یرغمال کیے جانے کی پرانی اور معلوم کہانی طشت از بام کر دی۔
خط کے منظرِ عام پر آنے کے بعد چیف جسٹس نے فُل کورٹ اجلاس طلب کیا۔ دوسرے دن وزیرِ اعظم شہباز شریف نے سپریم کورٹ آکر چیف جسٹس سے ملاقات کی۔ ملاقات کے بعد وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کابینہ کا اجلاس طلب کیا۔ اجلاس میں کیے گئے فیصلے کو مدِ نظر رکھ کر حکومت نے سابق چیف جسٹس تصدق حسین گیلانی کی سربراہی میں انکوائری کمیشن تشکیل دے دی۔ رضا مندی ظاہر کرنے کے بعد سابق جسٹس تصدق حسین گیلانی نے بہ وجوہ کمیشن کی سربراہ بننے سے معذرت ظاہر کر دی اور اس کے ساتھ ہی چیف جسٹس نے از خود نوٹس لیتے ہوئے اپنی سربراہی میں سات رُکنی بنچ تشکیل دے دیا۔
3 اپریل کو ہونے والی پہلی سماعت میں چیف جسٹس اور دیگر جسٹسوں نے ریمارکس دیے کہ عدلیہ کی آزادی پر زیرو ٹالرنس ہے۔ آئین میں ہمارے پاس کمیشن بنانے کا کوئی اختیار نہیں۔ دھمکی یا مداخلت برداشت نہیں کریں گے۔ ہائی کورٹ نے توہینِ عدالت کا اختیار کیوں استعمال نہیں کیا؟ یہ ایک سال سے زیادہ عرصہ پہلے کا معاملہ ہے، جس کا میں ذمے دار نہیں۔ شُتر مرغ کی طرح ریت میں سر دے کر معاملے کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ جواب دینا ہوگا۔ معاملے کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ سیاسی انجینئرنگ ہو رہی ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا معاملہ مداخلت نہیں تھا؟ اُس وقت کے وزیرِ اعظم سے پوچھیں۔ پاکستان میں ایسے واقعات پیش آنے کے بعد حکومت اور عدلیہ حرکت میں آجاتی ہے، مگر وہی ’’ڈھاک کے تین پات‘‘ کے مصداق مسئلہ وہی کا وہی رہتا ہے اور اب بھی ایسا ہی ہوگا۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ خط لکھنے والے چھے جج اسی ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے ساتھ اُس وقت کھڑے ہوتے، جب اُس نے یہ انکشاف کیا کہ ڈی جی، آئی ایس آئی جنرل فیض حمید اُن پر دباؤ ڈال کر اپنی مرضی کے فیصلے کرانا چاپتے ہیں، تو اس جراتِ رِندانہ پر اُن کے برادر ججوں نے اُن کا سوشل بائیکاٹ کر دیا۔ موصوف جج کو اُن کی گستاخی کی سزا دینے کے لیے اُن کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجا اور اعلا مرتبت کے کونسل نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ملازمت سے بر طرف کر دیا۔ حالاں کہ وہ چند دنوں چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہونے والے تھے۔
جسٹس شوکت صدیقی نے فیصلے کے اپیل دائر کی اور سپریم کورٹ نے اُس کی اپیل منظور کی۔ چلو، یہ بھی اچھی بات ہے کہ اُن کا ضمیر اَب جاگ گیا ہے۔ خط کا معاملہ ہے، تو اس سلسلے میں دوسرے خطوط کا بھی ذکر ہوجائے۔
چھے ججوں کے خط کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے تمام آٹھ ججوں، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس امین الدین، سپریم کورٹ لاہور برانچ رجسٹری کے جسٹس شاہد وحید اور جمعہ کو سپریم کورٹ کے مزید پانچ ججوں کو بھی دھمکی آمیز اور پاؤڈر ملے خطوط موصول ہوئے۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شجاعت خان، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس عابد شیخ، جسٹس عالیہ نیلم اور جسٹس باقر نجفی کو دھمکی آمیز اور انتھراکس پاؤڈر ملے خطوط موصول ہوئے ہیں۔
خطوط کو تحقیقات کے لیے ’’کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ پولیس‘‘ (CTD) کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ فرانزک رپورٹ کے مطابق خطوط میں آرسینک زہر پایا گیا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔