اگر آپ راولپنڈی سے لاہور کی طرف جائیں، تو پہلا قصبہ روات نامی ہے۔ روات سے قریب تین کلومیٹر آگے جائیں، تو دائیں طرف ایک سڑک مڑتی ہے، جو چک بیلی خان روڈ کہلاتی ہے۔ کیوں کہ یہ سڑک ’’چک بیلی خان‘‘ نامی قصبے کو جاتی ہے۔ اس چک بیلی روڈ پر بھم بھلی کے مقام کے قریب لوسر نامی گاؤں ہے…… جب کہ اس کے ارد گرد محض چند میٹر کے فاصلے پر بیشمار گاؤں اور آبادیاں ہیں۔ کچھ پولٹری انڈسٹری سمیت دوسرے صنعتی یونٹ بھی ہیں۔
اس علاقہ میں مزید بہت سی رہایشی کالونیاں بھی بن رہی ہیں۔ گویا اگر آپ اس علاقہ کا مطالعاتی سفر کریں، تو آپ کو واضح طور پر معلوم ہوگا کہ یہ علاقہ آبادی کے لحاظ سے کافی گنجان ہے…… مگر سنہ 2004-05ء میں کچھ اعلا سطح کے سیاسی سرمایہ داروں نے کچھ مقامی پراپرٹی ڈیلرز کے ساتھ مل کر زمینوں کو خریدا اور ایک معاہدہ کے تحت پھر اس زمین کو راولپنڈی کی انتظامیہ کے حوالے کردیا۔ سب کچھ جان بوجھ کر اور سوچ سمجھ کر راولپنڈی کی انتظامیہ نے یہاں کچرا کنڈی بنا دی۔ اب دنیا جہاں کا کچرا یہاں پھینکا جا رہا ہے۔ دنیا بھر میں جہاں کئی بھی کچرا ڈمپ کیا جاتا ہے (مَیں یہ بات کسی مغربی یا شرق الوسط کے امیر اور ترقی یافتہ ممالک کی نہیں کرتا، بلکہ تیسری دنیا کے غریب ممالک بھی دیکھ لیں) وہاں پر کم از کم احتیاطی اقدامات ضرور کیے جاتے ہیں، تاکہ اس گندگی سے دوسرے مسائل پیدا نہ ہوں…… بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں اس کچرا کا نہایت ہی مفید استعمال کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے کچرا اٹھانے والی کمپنیوں کو کروڑوں ڈالر کا ٹھیکا دیا جاتا ہے۔ مطلب جو کمپنی کسی بڑے میٹرو پولیٹن سے کچرا اٹھانے کی خواہش کرتی ہے، وہ کروڑوں ڈالر متعلقہ شہر کی انتظامیہ کو ادا کرتی ہے۔ کیوں کہ اس کچرے سے اربوں روپے کا خام مال حاصل ہوتا ہے کہ جس کو ری سائیکل کیا جاتا ہے۔ پھر اس سے بجلی اور گیس کی پیداوار کی جاتی ہے۔
مزید اس سے مختلف قسم کے جانوروں کی خوراک اور کھاد بنائی جاتی ہے…… لیکن اگر آپ ’’لوسر کچرا کنڈی‘‘ کا دورہ کریں، تو آپ کو حیرت ہوگی کہ یہاں کوئی احتیاطی تدابیر بالکل نہیں۔ راولپنڈی بھر کا کچرا اُٹھا کر کھلے آسمان کے نیچے پھینک دیا جاتا ہے۔ اس کے ارد گرد کوئی دیوار ہے نہ بھاڑ…… اور اس کی وجہ سے انتہائی گندی بدبو قریبی آبادیوں پر مشتمل لاکھوں انسانوں کے نتھنوں کے ذریعے پھیپھڑوں میں شامل ہوتی ہے۔ دنیا بھرمیں موجود ہر قسم کے خطرناک جراثیم ہر شخص کے خون میں دن رات شامل ہو رہے ہیں۔
باقی رِہ جانے والی کسر یہاں آنے والے غلیظ پرندے جیسے کرگس، گرج، کوے وغیرہ پورا کرتے ہیں۔ مچھروں اور مکھیوں کی فراوانی ہے…… اور پھر چوں کہ یہاں کوئی حفاظتی دیوار موجود ہی نہیں۔ سو علاقہ کے جانور آزادی سے یہاں گلی سڑی سبزیوں اور پھلوں کی لالچ میں آتے ہیں اور اپنے گوشت اور دودھ میں جراثیم کا ایک سمندر داخل کرلیتے ہیں۔ زیرِ زمین کنوؤں اور مقامی تالابوں کا پانی سخت آلودہ ہے۔
یہاں معاہدہ صرف راولپنڈی کا تھا، یعنی راولپنڈی میٹرو پولیٹن کے تمام علاقے کا کچرا لیاقت باغ میں ڈمپ کیا جاتا ہے۔ وہاں سے اس کو لوسر کچرا کنڈی میں بڑی گاڑیوں کی مدد سے شفٹ کیا جاتا ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ غیر قانونی و غیر اخلاقی طور پر راولپنڈی شہر کے گرد و نواح دوسری تحصیلوں مثلاً کلر سیداں، گوجرخان، مری، ٹیکسلا، فتح جھنگ، بہارا کہو، مندرہ، روات، اڈیالہ وغیرہ سے بھی تمام کوڑا غیر قانونی طریقے سے رشوت لے کر لوسر میں ہی پھینکا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ راولپنڈی ویسٹ مینجمنٹ کے افسران اور راولپنڈی کی انتظامیہ کھلم کھلا رشوت لے کر بے شمار نجی صنعتی اور تجارتی یونٹوں کو بھی یہاں اپنا فضلہ ڈمپ کرنے کی اجازت دے رہی ہے۔ اگر کبھی اس پر بھی رنگ روڈ کی طرز پر کوئی کمیشن بنایا گیا، تو یہ بات معلوم ہوگی کہ یہاں اربوں روپیا بنایا جا رہا ہے۔ اس موضوع پر جب ہم نے تحقیق کی، تو بہت عجیب و غریب حقائق سامنے آئے۔ اول تو کچرا اُٹھانے کا ٹھیکا کسی ملک میں کوئی حکومت دیتی نہیں، بلکہ لیتی ہے…… جیسا کہ اُوپر تحریر کیا جاچکا ہے کہ حکومت کچرا اُٹھانے والی کمپنیوں سے نہ صرف کروڑوں روپیا لیتی ہے، بلکہ اس ٹینڈر میں شرکت کرنے والی کمپنیوں سے تمام شرائط منواتی ہے، یعنی ان سے اول یہ طے کیا جاتا ہے کہ حکومت صرف ڈمپنگ سائٹ کی زمین مہیا کرے گی، لیکن اس کے علاوہ متعلقہ کمپنی تمام مشینیں پہلے وہاں لگائے گی اور دیگر تمام احتیاطی اُمور مکمل کرے گی کہ جس سے جراثیم اور گندگی عام عوام کی پہنچ سے دور رہے۔ اس کے لیے کچرا کنڈی کے چاروں طرف مضبوط دیوار غیر ضروری جانوروں اور پرندوں کو اندر آنے سے روکنے کے لیے بنائی جاتی ہے۔ اس کے بعدمتعلقہ کمپنی کی یہ قانونی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ بند گاڑیوں میں کچرا شفٹ کرے۔ وقتاً فوقتاً مکھیوں، مچھروں اور دوسرے مضرِ صحت اور مضرِ حیات حشراتِ ارض کے خاتمے واسطے کیمیکل کا چھڑکاو کرے۔
اس کے علاوہ اس علاقہ میں موجود پانی کے تمام ذخائر خواہ کنوئیں ہوں، ندی نہریں یا تالاب…… ان کے پانی کو آلودہ ہونے سے بچانے کے لیے تمام اقدامات کرے۔
کچرا کنڈی کے اِرد گرد شجر کاری کا بندوبست بھی کیا جاسکتا ہے، تاکہ کاربن کے بے شمار ذخائر سے نبرد آزما ہوا جائے۔ ایسا کچرا کہ جس کا کوئی مثبت استعمال ممکن نہیں ہوسکتا، اس پر فوراً مٹی کی تہہ ڈال کر اس کو خاک برد کر دیا جاتا ہے، لیکن لوسر کچرا کنڈی میں ایسا کچھ بھی نہیں۔
لوسر کچرا کنڈی کی مقامی آبادی کے بقول راولپنڈی انتظامیہ کا معاہدہ 2016ء کو ختم ہوچکا ہے۔ ان کے حق میں پنجاب ہائی کورٹ فیصلہ بھی دے چکی ہے۔
دوم، جب 2017ء سے 2019ء تک مقامی لوگوں نے اس پر احتجاج کیا، تو انتظامیہ نے کچھ یقین دہانیاں تحریری طور پر کروائی تھیں، لیکن ان پر بھی عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
سو اس تمام صورتِ حال میں ہم حکومت سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ جلد از جلد ایک اعلا سطحی کمیشن بنائے کہ جس کے مقاصد اور اہداف درجِ ذیل ہوں۔ ان امور بارے تحقیق کر کے کمیشن اپنی سفارشات کے ساتھ حکومت کو مکمل رپورٹ دے۔
٭ یہاں کہ جہاں بے شمار آبادی صدیوں سے مقیم ہے، میں کچرا کنڈی بنانے کا فیصلہ کس نے اور کیوں کیا؟
٭ اگر یہ فیصلہ کر ہی لیا گیا تھا، تو پھر بین الاقوامی معیار کو ایک طرف رکھیں۔ کم از کم احتیاطی اقدامات کیوں نہ کیے گئے۔
٭ جب یہاں کچرا ڈمپ کرنے کا قانونی اور فطری وقت ختم ہوچکا ہے، تو پھر اس کا متبادل ابھی تک کیوں نہ بنایا گیا؟
٭ راولپنڈی شہر کے علاوہ دوسرے علاقوں اور خاص کر نجی اور ذاتی صنعتوں کا فضلہ یہاں کس قانون اور اختیار سے پھینکنے کی اجازت دی جا رہی ہے؟
٭ راولپنڈی ویسٹ مینجمنٹ کے اربابِ اختیار کے مطابق تحصیل گوجرخان کے علاقہ جاتلی کے قریب اس مقصد کے لیے زمین ایکوائر کی جاچکی ہے، تو وہاں کچرا ڈمپ کرنے میں کون سا امر مانع ہے؟ اور اگر وہاں پر ابھی تک کچرا ڈمپ نہیں کیا جا رہا، تو اس زمین کا استعمال کون اور کیوں کر رہا ہے؟
ہم پورے یقین سے یہ سمجھتے ہیں کہ اگر درجِ بالا امور پر تحقیق کی جاتی ہے، تو اس سے نہ صرف انتظامیہ کی نااہلی واضح آشکار ہوگی، بلکہ اس کے اندر سے ملین ڈالرز کے سکینڈل برآمد ہوں گے۔ پھر اس کے بعد کم از کم عوام کو اس حد تک تو ریلیف ملے گا کہ کچھ نہ کچھ احتیاطی اقدامات کر دیے جائیں گے…… جس سے عوام ہیپاٹائٹس اور دیگر جلدی موزی امراض سے شاید کسی حد تک محفوظ ہوسکیں۔
یہاں پر بحیثیت ایک عام پاکستانی کے میرا سوال اعلا انتظامی افسران، سیاسی قیادت اور پالیسی میکرز سے یہ بھی کہنا ہے کہ اگر آپ وقت نکال کر اس علاقہ میں خود تشریف لے کر آجائیں اور دیکھیں کہ لوسر اور اس سے معلقہ علاقوں اور گاؤں مثلاً ہرکہ بھرتھہ، میرا، بھم بھلی، تھوبہ، موڑہ کوٹیاں وغیرہ بلکہ بگا شیخاں سے بسالی موڑ اور گوہڑہ راجگان سے کرپال تک کی حالت کیا ہے!
خاص کر شام کو جب ہوا چلتی ہے، تو بدبو کا زور اور مکھی اور مچھروں کی انتہا کس طرح عام آدمی کے لیے ماحول کو جہنم بناتی ہے۔ یہ واحد بدقسمت علاقہ ہے کہ جہاں لوگ نماز پڑھ کر ہوا نہ چلنے کی دعا کرتے ہیں۔ کیوں کہ ان کو معلوم ہے کہ جیسے ہی ہوا چلی، تو پھر کوئی کھانا کھا سکتا ہے اور نہ پانی پینے کا دل کرتا ہے۔ یہ عذاب مقامی آبادی سالوں سے بھگت رہی ہے۔
دوسرا اس سے پیدا ہونے والی بیماریوں پر کروڑوں کا خرچہ ہو رہا ہے۔ وجہ محض نا اہلی اور بے احتیاطی ہے۔
آخر میں ہم انتظامیہ کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ اب مقامی آبادی بالکل مایوس اور بد دِل ہو چکی ہے اور اب وہ لوگ مزید ظلم برداشت کرنے کی سکت سے مرحوم ہوچکے ہیں۔ اس وجہ سے مجھے مقامی لوگوں نے یہ بتایا ہے کہ وہ اب راست اقدام کرنے کا سوچ رہے ہیں…… یعنی اب وہ مزید کسی عدالتی یا انتظامی ادارے سے رجوع کرنے کی بجائے براہِ راست ’’راست‘‘ اقدام کریں گے۔ مثلاًکچرا کنڈی کے دروازوں کو تالہ لگا کر بلدیہ راولپنڈی کی تمام سرکاری گاڑیاں کہ جو کچرا پھینکنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں، کو کچرا کنڈی میں ہی بند کر دیں گے۔ اگر مقامی آبادی یہ انتہائی اقدام کرتی ہے، تو پھر انتظامیہ کے لیے مزید مسائل بن سکتے ہیں۔ آخر آپ کتنوں کو گرفتار کرسکتے ہیں؟
اس وجہ سے اعلا حکومتی اربابِ اختیار اس پر انسانی ہم دردی کے تحت غور کریں اور جلد از جلد اس کا کوئی ایسا قابلِ عمل حل نکالیں کہ جس سے نہ صرف کچرا ٹھکانے لگانے کا کام مستقل بنیادوں پر حل ہوجائے، بلکہ مقامی آبادی کی جان بھی اس گندگی بھرے عذاب سے ہمیشہ کے لیے چھوٹ جائے۔
مَیں نہیں جانتا کہ کوئی اعلا سرکاری ذمے دار ہماری ان گزارشات پر غور کرے گا، اور عوام کی بھلائی پر غور کرے گا یا پھر معاملات جوں کے توں چلتے رہیں گے…… اور عوام پر ظلم وستم کے پہاڑ حسب سابق توڑے جانے کا عمل جاری و ساری رہے گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔