پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کے لیے سنی اتحاد کونسل سے اتحاد کے فیصلے پر پارٹی کے اندر سے بھی آوازیں آنے لگیں۔ پارٹی رہنما بیرسٹر علی ظفر بھی سنی اتحاد کونسل کے فیصلے سے خوش نہیں اور اُنھوں نے اس اتحاد کو ’’غلط فیصلہ‘‘ قرار دیا۔
اُنھوں نے رکن قومی اسمبلی شیر افضل خان مروت کے اس بیان کی حمایت بھی کی کہ سنی اتحاد کونسل سے اتحاد بڑی غلطی تھی، جس کی بھاری قیمت چکا نی پڑ رہی ہے۔
ایڈوکیٹ محمد ریاض کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/adv/
دوسری جانب سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحب زادہ حامد رضا نے تحریکِ انصاف کے رہنما شیر افضل مروت کے بیان کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے دوست اپنے معاملات گھر میں ہی حل کریں تو بہتر ہے۔ اپنے بیان میں کہا کہ سنی اتحاد کونسل سے اتحاد کا فیصلہ عمران خان نے کیا تھا، میری طرف سے کوئی درخواست نہیں کی گئی تھی۔
اُنھوں مزید کہا کہ انتخابی نشان سے لے کر مخصوص نشستوں تک میرے پاس بتانے کو بہت کچھ ہے۔ اگر مَیں نے بھی ٹاک شوز میں بیٹھ کر کچھ بول دیا، تو کئی لوگ شکل دکھانے کے قابل بھی نہیں رہیں گے۔
پشاور ہائیکورٹ کے لارجر بنچ کے متفقہ فیصلہ کے بعد پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کے درمیان ہونے والی گرما گرم بیان بازی کے بعد سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے ٹی وی پروگرام میں انکشاف کیا کہ پی ٹی آئی نے سنی اتحاد کونسل کے اراکین کو واپس پی ٹی آئی میں ضم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اگر الیکشن کمیشن سے ہمیں بلے کا نشان واپس مل جاتا ہے، تو دونوں جماعتوں کو آپس میں ضم کردیں گے اور ایوان میں صرف تحریکِ انصاف ہی رہے گی۔
دیگر متعلقہ مضامین:
مخصوص نشستوں سے محرومی کا ذمے دار کون؟
کانٹوں بھرا تاج
کیا عمران خان دوسرے بھٹو بننے جا رہے ہیں؟
خاموش انقلاب
اچھائیوں میں مقابلہ و موازنہ کیجیے
یاد رہے کہ 19 فروری کو پاکستان تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ نومنتخب آزاد ارکان نے آئین کے آرٹیکل 51 اور 106 کے تحت اسمبلیوں میں مخصوص نشستیں حاصل کرنے کے لیے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کا اعلان کردیا تھا، جس سے ان اراکین کی آزاد حیثیت ختم قرار پائی۔ بعد ازاں 4 مارچ کو الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی درخواستیں مسترد کردی تھیں اور 5 مارچ کو نشستیں دوسری جماعتوں میں تقسیم کر دی تھیں۔ 6 مارچ کو سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشست کے حوالے سے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا، مگر پشاور ہائی کورٹ کے 5 رکنی لارجر بنچ نے متفقہ طور پر سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سنی اتحاد کونسل کے ممبران اسمبلی کی پی ٹی آئی میں واپسی ممکن ہوگی؟ آئیے دیکھتے ہیں کہ آئین و قانون اس سلسلہ میں کیا رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔
پہلی بات کہ پی ٹی آئی حمایت یافتہ آزاد اراکین اسمبلی اس وقت آئینی و قانونی طور پر سنی اتحاد کونسل کا حصہ بن چکے ہیں اور آئین پاکستان کے آرٹیکل 63-A کے مطابق اگر اسمبلی میں کسی پارلیمانی پارٹی کا کوئی رکن اپنی سیاسی جماعت کی رکنیت سے استعفا دیتا ہے، یا کسی دوسری پارلیمانی پارٹی میں شامل ہوتا ہے، تو وہ اس انحراف کی بنیاد پر نااہل قرار پائے گا۔ اسی طرح اگر کوئی ممبر اسمبلی اپنی پارلیمانی جماعت کی طرف سے جاری کردہ کسی بھی ہدایت کے برعکس اسمبلی ووٹنگ میں حصہ لیتا ہے، جیسا کہ وزیر اعظم یا وزیرِ اعلا کا انتخاب ہو یا اعتماد کا ووٹ یا عدم اعتماد کا ووٹ یا بجٹ بل یا آئین (ترمیمی) بل۔ درج بالا انحراف کی صورت میں پارٹی کے سربراہ کی طرف سے اسے تحریری طور پر سیاسی جماعت سے منحرف ہونے کا اعلان کیا جاسکتا ہے، اور پارٹی سربراہ اس اعلامیے کی ایک کاپی پریزائیڈنگ آفیسر جیسا کہ اسمبلی اسپیکر یا سینٹ چیئرمین اور چیف الیکشن کمشنر کو بھیج سکتا ہے اور اسی طرح اس کی ایک کاپی متعلقہ ممبر کو بھیجے گا۔
ضابطے کی مزید کارروائی کے بعد ممبر اسمبلی کی سیٹ کو خالی تصور کی جائے گا…… یعنی موجودہ صورتِ حال میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ جو سنی اتحاد کونسل کے باقاعدہ ممبر بن چکے ہیں، اُن کی قسمت کا فیصلہ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحب زادہ حامد رضا کے ہاتھوں میں ہے…… یعنی اگر بالفرض مستقبل قریب میں حامد رضا سنی اتحاد کونسل کے ممبران کو پی ٹی آئی کی مخالف سیاسی جماعتوں یعنی پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد یا ان جماعتوں کے حق میں ووٹنگ کا حکم دیں، تو سنی اتحاد کونسل کے ممبران کو یہ حکم ماننا پڑے گا۔ بہ صورتِ دیگر آرٹیکل 6 3A کی کارروائی کے لیے تیار رہنا پڑے گا۔
اسی طرح الیکشن ایکٹ 2017ء کی بات کی جائے، تو اس کی دفعہ 20 3(3) کے مطابق ایک شخص ایک وقت میں ایک سے زیادہ سیاسی جماعتوں کا ممبر نہیں ہوسکتا۔
یاد رہے آئین و قانون میں درج انھی پابندیوں کی بنا پر بیرسٹر گوہر اور عمرایوب سمیت کئی اراکینِ اسمبلی نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار نہیں کی تھی اور پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کی بہ دولت پارٹی عہدوں پر منتخب ہوئے۔
بہ طورِ قانون کے طالب علم مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ یقینی طور پر پی ٹی آئی بحیثیتِ جماعت اور بالخصوص اس کے حمایت یافتہ آزا د ا راکینِ اسمبلی، سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کرکے بند گلی میں پہنچ چکے ہیں۔ آئینی طور پر ان کے لیے سنی اتحاد کونسل کو چھوڑنا نا ممکنات میں سے ہوگا۔ کوئی صاحبِ علم ان اراکینِ اسمبلی کی دوبارہ پی ٹی آئی میں شمولیت کی بابت کوئی آئینی و قانونی جواز پیش کرنا چاہے، تو قارئین سمیت راقم کی معلومات میں یقینی طو رپر اضافہ ہوگا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔