رمضان شروع ہوا چاہتا ہے۔ رمضان شریف کا برکتوں والا مہینا ہے اور دُکان داروں نے چھریاں تیز کردی ہیں۔ کوئی مال چھپا رہا ہے، کوئی سجا رہا ہے۔غریب کا تو ہمیشہ سے برا حال ہے۔ اس دفعہ متوسط طبقہ بھی پریشان ہے کہ کس طرح رمضان کو "Manage” کرنا ہے۔
مَیں تو ذاتی طور پر اس کشمکش میں مبتلا ہوں کہ روزے رکھ سکوں گا کہ نہیں۔ 81 سال میری عمر ہے۔ منھ میں ایک دو دانت رہ گئے ہیں…… وہ بھی آج گئے کہ کل۔
فضل رازق شہاب کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-raziq-shahaab/
گذشتہ سال مَیں نے سوائے چند روزوں کے باقی رکھ لیے تھے۔ اس سال بیماریاں بھی کچھ زیادہ ہیں اور جسم میں دم خم نہیں رہا۔ خیر، دیکھیں گے۔ابھی تو (جس وقت یہ سطور رقم کی جارہی ہیں) ایک پورا دن باقی ہے۔
دوستو! ہمارے بچپن میں بھی ماہِ رمضان ایک پُرلطف "Festival” کی طرح ہوتا تھا۔ ایک دن پہلے صاحبِ ثروت حضرات مختلف قسم کے مشروبات خریدتے۔ افطاری کے لیے کھجوریں ضروری خیال کی جاتی تھیں۔ اُس وقت کا سب سے مقبول برانڈ ’’ہمدرد‘‘ کا ’’روح افزا‘‘ تصور کیا جاتا تھا۔ زبردست خوش بو اور بہترین ذائقہ۔ بوتل کھولتے تو اِرد گرد خوش بو پھیل جاتی۔
دوسرا نمبر ’’سکواش‘‘ کا تھا۔
اُس وقت کے ریاستِ سوات کے تعمیرات کے انچارج ’’دستخط مستری‘‘ روزوں کے لیے چٹنی کا ایک باریک پسا ہوا سفوف تیار کرتے…… جس کی ایک چٹکی پاو بھر دہی میں ڈالتے، تو نہایت مزیدار چٹنی یا رائتہ بن جاتا۔
دیگر متعلقہ مضامین:
رمضان برکتوں کا مہینا، بخشش کا خزینہ
رمضان المبارک اور ہمارے رویے
ماہِ انوار رمضان کی آمد
رمضان میں صحت کے لیے تباہ کُن عادت جان لیں
ماہِ رمضان میں بڑوں سے زیادہ بچے پُرجوش اور "Excited” ہوتے۔ جمعہ خان اپنی افطاری کے وقت چلانے والے ’’توپ‘‘ اور باردود، باتی وغیرہ کا اہتمام کرتے تھے۔
پہلی سحری اور پہلی افطاری بہت پُرنورق ہوتی۔ اکثر بچے پہلا اور آخری روزہ بڑے شوق سے رکھتے۔ ہم افطار کے لیے دستخط مستری سے لایا ہوا چٹنی پاؤڈر اور دہی کا ضرور بندبست کرتے۔
ہمارا گھر سڑک کے قریب مگر کوئی 60 فٹ اونچی جگہ پر بنا ہوا تھا۔ اُس کے مغرب کی طرف کھلی جگہ تھی جس میں ہم بھائی اور پڑوس میں عبدالحنان کمان افسر کے بیٹے کھیلا کرتے۔ اسی کھلی جگہ میں کھڑے ہوکر شام کو ہم جمعہ خان کی منتیں کرتے:
جمعہ خانہ رورہ ڈز اُوکہ
ڈز پہ مازیگر اُوکہ
غونڈہ روپئ والا گل اندامے لہ پنڑے اُوکہ
گل پی دہ تیلے اُوکہ
افطار کے وقت جب والئی سوات کے بنگلے سے جمعہ خان کو اشارہ ملتا، تو وہ اپنے آلے کو دیا سلائی دکھاتے۔ اتنا تیز شعلہ اُٹھتا کہ آنکھیں خیرہ ہوجاتیں اور ایک مہیب گڑگڑاہٹ وادیوں میں پھیل جاتی۔ جس کی آواز کوئی 10 میل کے احاطے میں سنائی دیتی۔
ہم نے سنا تھا کہ چارباغ اور بانڈئی کے لوگ اسی توپ کی آواز پر روزہ افطار کرتے۔
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا،جو سنا افسانہ تھا
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔