رات کی تاریکی میں عمران خان کو وزیرِ اعظم ہاؤس سے نکالا، تو اُنھوں نے ڈائری پکڑی اور اپنے گھر کو روانہ ہوگئے۔ گذشتہ روز اڈیالہ جیل میں رات گئے عدالت نے اُنھیں 10 سال قید سنائی، تو قیدی نمبر804 مسکرا کر قید خانۂ عدالت سے اُٹھا اور اپنے قید خانہ کی طرف چل پڑا۔
روحیل اکبر کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/akbar/
توشہ خانہ ریفرنس میں بشریٰ بی بی اور عمران خان کو 14 سال قیدہو گئی اور جس وقت آپ یہ سب پڑھ رہے ہوں گے۔ اُمید ہے اُس وقت تک اُنھیں عدت میں نکاح کرنے پر بھی سزا ہوچکی ہوگی۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ واحد مجرم ہے، جس کی سزا پر ڈانس نہیں ہوا، بھنگڑے نہیں ڈالے گئے۔ اور تو اور مٹھائی بھی تقسیم نہیں ہوئی، بلکہ مخالفین مزید پریشان ہیں کہ ان سزاؤں کے باوجود عمران خان کی مقبولیت روز بہ روز بڑھتی ہی جارہی ہے۔ آج پی ٹی آئی ختم، بلے کا نشان ختم، اُمیدوار جیلوں میں اور باہر والے قتل ہورہے ہیں۔ ملک بھر میں کہیں بھی عمران خان کے نام پر ووٹ مانگنے والوں کی فلیکس لگنے نہیں دی جارہی۔ اُن کی ریلیوں میں شامل ہونے والوں پر مقدمے درج کیے جارہے ہیں، لیکن اس کے باوجود ہر باشعور شہری عمران خان کے امیدواروں کو ڈھونڈ رہا ہے، لیکن عمران خان کے مقابلے میں توشہ خان خالی کرنے والوں کو جب سزائیں ہوتی تھیں، تو ملک بھر میں مٹھائیاں تقسیم کی جاتی تھیں۔
برسبیلِ تذکرہ، جب جنرل ضیا ء الحق کی عدالت نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی، تو اُس وقت بھی مخالفین نے خوشیاں منائیں اور مٹھائیاں بانٹیں، لیکن آج اُس سزا پر عدالت بھی شرمندہ ہے، اور اس کی معافی تلافی کا بھی سوچا جا رہا ہے۔
عمران خان کو دی جانے والی پہلی سزاسائفر کیس کی ہے، جس میں اُنھوں نے بیرونی غلامی سے نجات کا اعلان کیا تھا، لیکن کیا کریں کہ ہم ایک غلام قوم ہیں اور اس غلامی کو ہم نے اپنے گلے کا ہار بنایا ہوا ہے۔
خیر، یہ سزائیں بھی ختم ہوجائیں گی۔ کیوں کہ یہ ملک خدا کا معجزہ ہے اور معجزوں کا یہ سلسلہ رُکا نہیں۔ یقین نہیں، تو دیکھ لیں کہ طیارہ ہائی جیک کیس میں شریف برادران کو عمر قید ہوئی۔ چار ماہ بعد دونوں بھائی جدہ پہنچ گئے شاہی مہمان رہے اور 10 سال بعد چھوٹا بھائی پھر سے نہ صرف پنجاب کا وزیرِ اعلا بنا، بلکہ فردِ جرم عاید ہونے سے چند گھنٹے پہلے بطورِ وزیر اعظم اسلامی جمہوریۂ پاکستان کا حلف بھی اُٹھا لیا۔حنیف عباسی کو پھانسی کی سزا ہوئی، دو سال کے اندر معطل ہوگئی۔ پانامہ کیس میں یوں تو 360 افراد کے نام تھے، مگر پھر میاں نواز شریف کو رگڑا لگانا مقصود تھا۔ اس لیے تاحیات نااہلی ہوئی…… لیکن 4 سال بعد میاں صاحب پھر سے میدان میں ہیں اور وہ بھی ایسے کہ اُن کے مقابل سارا میدان صاف کیا جا رہا ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
اندھی طاقت  
بول زُباں اب تک تیری ہے 
پی ٹی آئی بارے سپریم کورٹ فیصلے کے 20 نِکات  
این اے 134 کا سیاسی منظر نامہ  
اصلی، نسلی اور فصلی  
عمران خان مکافاتِ عمل کا شکار  
دوسری طرف زرداری صاحب کو سرے محل، بینک سکینڈل اور دیگر کیسوں میں 11 سال قید ہوئی۔ زرداری صاحب نے 3 سال کاٹی۔ اُس کے بعد صدرِ پاکستان بنے اور اَب وہ پارٹی کے شریک چیئرمین ہیں۔ یہ معجزہ نہیں، تو پھر کیا ہے کہ ایک بندہ جیل میں سزا یافتہ قیدی بن جائے اور پھر کچھ ہی عرصہ بعد اُسے ایوانِ اقتدار بھیج دیا جائے۔ یہاں کب قانون کی پٹاری سے کوبرا نکل آئے اور کب آزادی کا کبوتر…… اس بارے صرف وہی جانتے ہیں جو غائب بھی ہیں اور حاضر بھی کہ کس لمحے کس سبب ڈیل ہو جائے، کب منظر بدل جائے، کب حسینیت زندہ ہو اور کب یزیدیت چھانے لگے، سچ کس گھڑی جھوٹ کا لبادہ اُوڑھ کر پتلی گلی سے نکل لے اور کب جھوٹ کورا سچ بن کر سامنے آن کھڑا ہو؟ کسی کو کچھ معلوم نہیں…… لیکن جو جانتے ہیں، وہ خوب جانتے ہیں کہ قانون و آئین تو وہ کتاب ہے جو مخالف کو فکس کرنے کے کام آتی ہے، ملکی نظام چلانے کے نہیں…… اور آج کل تو ہمارا سارے کا سار نظام ایک فون کال اور واٹس ایپ پر چل رہا ہے، جو کَہ دیا وہی قاعدہ اور وہی قانون، جسے بدلنے میں رویوں کے بدلنے کا انتظار ہوتا ہے۔ بس ذرا صبر، تھوڑا وقت اور موسم بدلنے کا انتظار ہی تو کرنا ہوتا ہے۔ پھر اُس کے بعدکل کا ولن ہیرو بن جاتا ہے اور آج کا ہیرو کل کا ولن ہوسکتا ہے۔
ہماری سیاست مداری کا کھیل اورپتلی تماشا ہے، جہاں کردار کسی بھی لمحے یک لخت بدلے جاتے ہیں اور ہمارا نظام کسی بھی وقت کوئی بھی روپ بدل سکتا ہے۔ اِدھر سقراط کو تخت بھی مل سکتا ہے اور یونانیوں کو زہر کا پیالہ، یہاں گلیلیو زمین کو سورج کے گرد گھما سکتا ہے اور چرچ سورج کو زمین کے گرد، لیکن اس کے لیے نعرۂ مستانہ بلند کرنا ہوگا کہ ’’میرا چیف میری حکومت، تیرا چیف تیری حکومت‘‘، ’’میرا جج حق سچ کا فیصلہ، تیرا جج جابرانہ فیصلہ‘‘، کسی کی تصویر تک پر پابندی اور کسی کو ہر لمحہ ٹیلی وِژن پر مملکتِ خداداد میں کسی بھی وقت کچھ بھی ممکن ہے، بلکہ سب کچھ ممکن ہے۔
یہ قطعۂ اراضی ممکنات کا دوسرا نام ہے۔ یہاں کسی کے لیے کوئی در بند نہیں، سب در کھلے ہیں اور کسی کے اُوپر سب در بند ہیں اور کوئی کھلا نہیں۔ پاکستان بابِ طلسم ہے یا مجبور و بے کس لوگوں کی دھرتی…… اب یہ فیصلہ گونگی مخلوق کو کرنا ہے، جس نے 8 فروری کو چھٹی کرنی ہے۔ کیوں کہ اس دن ہمارا قومی تہوار الیکشن ہے۔ اس دن لوگ صبح نماز ادا کریں۔ پاکستان اور قوم کی ترقی کے لیے دعا کریں۔ گھر آکر سویوں سے ناشتہ کریں۔ تمام اہلِ خانہ بشمول بچوں کے پولنگ سٹیشن کی راہ لیں اورراستے میں بچوں سے پاکستان زندہ باد کے نعرے، قومی اور ملی ترانوں کا ورد کراتے ہوئے پولنگ سٹیشن پہنچیں۔ کوشش کریں کہ گھر میں کوئی رہ نہ جائے۔ پولنگ سٹیشن کی حدود میں داخل ہو کر ن لیگ کے پولنگ کیمپ سے جا کر ووٹ کی پرچی لیں اوربریانی یا قیمے والے نان سے ناشتہ کریں۔ پھر پیپلز پارٹی کے کیمپ میں جائیں وہاں سے کوک یا پیپسی کی بوتل پئیں اور اس کے بعد وہاں سے جمیت العلمائے اسلام کے کیمپ سے حلوے کی پلیٹ کھاتے ہوئے آگے بڑھیں۔ کیونکہ عمران خان کی تصویر والا تو کوئی کیمپ سرے سے لگنے ہی نہیں دیا جائے گا۔ اس لیے آپ سیدھے پولنگ سٹیشن پہنچیں۔ جہاں دروازے پر شیر جوان کھڑے ہوں گے، وہاں اُن کے ایس پی کے حق میں مع فیملی ایک زوردار نعرہ لگائیں۔ بچوں کو دروازے پہ کھڑا کرکے اندر جاکرجس امیدوار کو دِل مانے، اُسے ووٹ دیں۔ کیوں کہ اِس دفعہ ووٹ آپ نے اپنے آپ کو، اپنے ضمیر کو دینا ہے…… اُس قیدی کو دینا ہے جو آپ نے اپنے اندر قید کررکھا ہے۔ اُس کے بعد وہاں سے باہر آکے اپنے بچوں کے ساتھ اپنے حق میں ایک نعرہ لگائیں کہ آج آپ نے 76 سالوں میں پہلی بار اپنے آپ کو ووٹ دیا ہے۔
یہی ہمارے بہت بڑے لیجنڈ جناب انور مقصود کا پیغام بھی ہے کہ اس بار آپ نے ہر حال میں 8 فروری کو ضرور ووٹ کا حق استعمال کرنا ہے۔ چاہے کچھ بھی ہو، آپ نے ووٹ ضرور دینا ہے۔ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے، روشن مستقبل کے لیے اور اُن سنہرے خوابوں کے لیے جنھوں نے قیامِ پاکستان کے وقت اپنی بیٹیوں کی عزت اپنے سامنے پامال ہوتی دیکھی۔ اُن ماؤں کے لیے جنھوں نے اپنے بیٹوں کو نیزے کی اَنیوں پر اُچھلتے دیکھے، اُن بزرگوں کے لیے جنھوں نے اپنی جوان اولاد کو تڑپتے دیکھا اور اُس خواب کی تعبیر کے لیے جنھوں نے قیامِ پاکستان کی نوید سنائی اور سب سے بڑھ کر قایدِ اعظم کے لیے جنھوں نے پاکستان کے لیے تن من اور دھن سب کچھ قربان کردیا۔
پاکستان پایندہ باد!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔