مرحوم قاضی صاحب سر عزیز الدین احمد وزیرِ اعظم ’’دتیا‘‘ میں جہاں اور درجنوں خوبیاں تھیں، وہاں وضع داری کے اعتبار سے بھی وہ بہت ہی قابلِ احترام شخصیت تھے۔ جب کسی شہر میں جاتے، یہ ممکن نہ تھا کہ وہ اپنے پرانے ملنے والے دوستوں کے ہاں نہ پہنچے اور اگر کسی وجہ سے نہ جاسکتے، تو خط لکھ کر معافی نہ چاہتے۔
قاضی صاحب مرحوم دہلی میں ہمیشہ سیسل ہوٹل میں قیام کرتے اور شاید اس ہوٹل کی تاریخ میں یہ واقعہ اپنی قسم کا واحد واقعہ ہے کہ قاضی صاحب تین برس کے طویل عرصہ میں جب کبھی دہلی آئے، اُس ہوٹل میں ہی مقیم ہوئے اور کسی بھی دوسرے ہوٹل میں نہ ٹھہرے۔ اُس ہوٹل کی مالکہ ایک انگریز خاتون تھیں۔ اُس خاتون کے دل میں بھی قاضی صاحب کے لیے بہت عزت تھی۔ اگر کمرے خالی نہ ہوں، تو یہ خاتون وائسرائے کو تو کمرہ دینے سے انکار کرسکتی تھیں، مگر یہ ممکن نہ تھا کہ قاضی صاحب کو اُن کے پہنچنے پر یہ کَہ دیتیں کہ کوئی کمرہ خالی نہیں ہے۔ چناں چہ یہ واقعہ ہے کہ اگر کبھی ہوٹل کا کوئی کمرہ خالی نہ ہوا اور قاضی صاحب تشریف لے آئے، تو اس بے چاری نے اپنا ذاتی کمرا قاضی صاحب کے لیے خالی کر دیا اور خود کسی سٹور روم وغیرہ میں ایک دو دن قیام کرلیا، مگر قاضی صاحب کو جواب نہ دیا۔ قاضی صاحب سے راقم الحروف نے کئی بار کہا کہ نئی دہلی میں امپیریل ہوٹل بہت اچھا ہوٹل ہے۔ اُس کی فضا بہت اچھی ہے اور سوسائٹی کے اعتبار سے بھی اعلا طبقہ کے لوگوں کا مرکز ہے۔ وہاں ٹھہرا کیجیے، تو قاضی صاحب نے ہمیشہ ہی یہ جواب دیا کہ اتنے برس سے سیسل ہوٹل میں ٹھہرتا ہوں۔ وضع داری اس میں ہی ہے کہ زندگی میں جب بھی دہلی آؤں اسی ہوٹل میں ہی ٹھہروں۔
دہلی میں ایک حجام تھا جس کا میں نام بھول گیا ہوں، اُس کو ’’رائل باربر‘‘ کہا جاتا تھا۔ اُس حجام نے درجنوں بادشاہوں، درجنوں وائسرائے ، کمانڈر اِن چیفوں، گورنروں اور والیانِ ریاست کی حجامت بنائی، چناں چہ لارڈ کرزن اور لارڈ کچز کے بعد کے تمام واسرائے اور کمانڈر اِن چیفوں کے اس کے پاس سرٹیفکیٹ تھے۔
افغانستان کے کنگ حبیب اللہ اور امان اللہ کے علاوہ بہت سے ممالک کے اُن بادشاہوں کی بھی اُس نے حجامت بنائی، جو ہندوستان میں آئے اور یہاں وائسرائے ہاؤس میں بطورِ مہمان مقیم ہوئے اور جب جارج پنجم کا دربار ہوا، تو یہ شخص بھی سرکاری طور پر انگلستان میں مدعو کیا گیا اور وہاں اس نے کنگ جارج پنجم، کنگ ایڈورڈ (جو گدی سے دست بردار ہوئے) کی بھی حجامت بنائی۔
قاضی صاحب (مرحوم) جب کبھی دہلی آتے۔ یہ حجام اُن کی حجامت کے لیے ہر روز صبح پانچ بجے سیسل ہوٹل میں پہنچ جاتا۔ قاضی صاحب اُس کو حجامت کی اُجرت پانچ روپیا روزانہ دیتے اور یہ شخص بھی منتظر رہتا کہ قاضی صاحب کب تشریف لائیں اور یہ سیسل ہوٹل جانا شروع کرے۔ چناں چہ یہ حجام اگر کبھی راقم الحروف کو راستہ میں مل جاتا، تو خیریت پوچھنے کے بعد یہی سوال کرتا کہ قاضی صاحب کب تشریف لا رہے ہیں؟
دیگر متعلقہ مضامین:
دیوان سنگھ مفتون کی ایک پرانی تحریر
معقولیت باعثِ اطمینان
دریاوں کے پانی کا مہمان نوازی پر اثر
عورت اور بناو سنگار
ایک روز مَیں بھی قاضی صاحب سے ملنے کے لیے صبح پانچ بجے سیسل ہوٹل گیا (قاضی صاحب سے ملنے کا بہترین وقت یہی تھا۔ کیوں کہ سکون سے باتیں کر سکتے تھے، ورنہ سورج نکلنے کے بعد تو اُن سے ملنے والوں کا ایک میلہ سا رہتا تھا) تو یہ حجام قاضی صاحب کی حجامت بنا رہا تھا۔ حجامت سے فارغ ہوا، تو قاضی صاحب نے اُسے اپنے ملازم سے پانچ روپیا دلوا دیے۔ جب حجام پانچ روپیا لے کر چلا گیا اور قاضی صاحب ہاتھ منھ دھونے کے لیے غسل خانے میں تھے، تو قاضی صاحب کے ایک ملازم نے قاضی صاحب کی فضول خرچی کا شکوہ کرتے ہوئے مجھ سے کہا کہ دوسرے نائی تو دو چار آنہ میں حجامت بنا دیتے ہیں۔ یہ شخص قاضی صاحب سے ہر روز پانچ روپیا لے جاتا ہے۔ قاضی صاحب نے اس ملازم کو مجھ سے باتیں کرتے ہوئے دیکھا، تو مَیں مسکرا دیا۔ میرے مسکرانے پر قاضی صاحب نے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ مَیں نے جواب دیا کہ آپ کی فضول خرچی کا ذکر ہے کہ دوسرے حجام تو دو یا چار آنے شیو کا لیتے ہیں۔ آپ پانچ روپیا دیتے ہیں۔
قاضی صاحب نے کہا: ’’سردار صاحب! یہ شخص میری 25 برس سے حجامت بنا رہا ہے۔ اب تک تو میں اس وضع داری کو نبھائے جا رہا ہوں۔ خدا کرے زندگی تک نبھائے چلا جاؤں۔ ہر شخص اپنی قسمت کا لیتا ہے، کون کسی کو دیتا ہے اور کون کسی سے لیتا ہے۔ نا معلوم خدا اُن لوگوں کے لیے ہی مجھے دیتا ہو ۔
بھیّا شیخ احسان الحق میرٹھ کی بھیّا فیملی میں سے ہیں۔ یہ وہی فیملی ہے جو یوپی کے بہت بڑے رؤسا میں سے ہے اور جس نے غدر 1857ء کے بعد برٹش گورنمنٹ کو کئی لاکھ روپیا دے کر جامع مسجد دہلی واپس لی۔
بھیّا احسان کی وضع داری کے قصے بہت دلچسپ ہیں۔ اس وضع داری کے باعث آپ نے اپنی زندگی میں لاکھوں روپیا دوستوں پر صرف کیا۔ بھیا ایک روز دفتر ’’ریاست‘‘ میں بیٹھے تھے، تو راقم الحروف نے دیکھا کہ آپ کی ایک انگلی میں سیاہی مائل رنگ کا ایک چھلا پڑا ہے۔ یہ چھلا تنگ ہے اور اُنگلی موٹی ہے۔ ایڈیٹر ریاست نے مذاقاً کہا کہ بھیا! اگر چھلا پہننے کا اتنا ہی شوق ہے، تو اس چھلے کو نکال دیجیے اور اس سے بڑا چھلا بازار سے خرید کر پہن لیجیے، تا کہ اُنگلی کو تکلیف نہ ہو۔ بھیّا نے اس کا کوئی جواب نہ دیا اور خاموش رہے، لیکن اُن کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں۔ مَیں نے پوچھا کیا بات ہے؟ آپ نے پھر بھی کچھ جواب نہ دیا۔
جب زیادہ پوچھا، تو آپ نے فرمایا: ’’پچیس تیس برس ہوئے بواسیر کی شکایت ہوگئی تھی۔ بیوی نے بواسیر کا یہ چھلا کہیں سے منگا کر اپنے ہاتھ سے پہنا دیا۔ اُس کے دو چار برس بعد بیوی بیمار ہوگئیں۔ دماغ پر دیوانگی کے اثر سے پہچان بھی نہیں سکیں اور نہ کوئی بات کرسکتی ہیں۔ اب اس چھلے کو اُتارنے کو جی نہیں چاہتا، محبت کے جذبات کے ساتھ بیوی نے پہنایا تھا۔ اِسے جدا کرنا گوارا نہیں ۔‘‘
بھیّا احسان نے یہ کہا اور اُن کی آنکھیں اور زیادہ ڈبڈبا آئیں۔
آج سے پچیس تیس یا چالیس برس پہلے تو عام لوگوں میں بھی وضع داری تھی اور یہ اپنی بات کا پاس کرتے تھے۔ اب تو ہزار ہا لوگوں میں سے شاید ایک آدھ ایسا نکل آئے، جو اپنی وضع پر قائم ہو اور جس کو اپنی زبان یا اپنے شعار کا خیال ہو۔
پندرہ برس کا عرصہ ہوا دہلی کی ایک نام ور طوائف کا تعلق یہاں کے ایک ہندو رئیس سے تھا۔ یہ رئیس زیور، کپڑا اور دوسرے تمام اخراجات کے علاوہ اس طوائف کو پانچ سو روپیا ماہوار (جو آج {1960} کے دو ہزار روپیا کے برابر سمجھنا چاہیے) دیتا تھا اور یہ طوائف امیرانہ زندگی گزارتی تھی۔ اس طوائف نے اپنی عمر کے درمیانی حصہ میں ایک پروفیسر سے شادی کرلی اور اپنی زندگی کو قطعی بدل دینے کا فیصلہ کیا۔ چناں چہ اس طوائف نے اپنے نکاح کے بعد جو سب سے پہلا کام کیا، وہ یہ تھا کہ اس نے اپنا تمام زیور ، کپڑا اور دوسرا سامان جمع کر کے ایک گاڑی میں رکھوایا اور اس رئیس کے ہاں واپس بھیج دیا اور ساتھ کہلا بھیجا کہ ’’یہ تمام سامان آپ نے دیا تھا۔ اَب میں نے اپنی زندگی بدل لی ہے، نہ اس سامان پر میر اکوئی حق ہے اور نہ میں اسے اپنے پاس رکھنا چاہتی ہوں۔‘‘
یہ رئیس بہت فیاض اور فراخ دل تھے۔ اُنھوں نے بہت کوشش کی کہ اس سامان کو یہ طوائف رکھ لے۔ تاکہ اس کی آیندہ زندگی میں اس کے یا اس کے شوہر اور بچوں کے کام آئے، مگر اس طوائف نے انکار کر دیا…… اور پھر کہلا بھیجا کہ جس صورت میں میرا اب آپ سے کوئی تعلق نہ ہوگا، یہ وضع داری کے خلاف ہے کہ مَیں آپ کے دیے ہوئے سامان کو رکھوں یا استعمال کروں۔
موری دروازہ کے ڈفرن برج کے بالکل قریب ایک صاحب لالا رام چندر رہتے تھے۔ یہ وہی بزرگ تھے جنھوں نے 1904ء کے دہلی دربار کے موقع پر دہلی میں سب سے پہلے موٹر منگائی تھی اور اس موٹر کو دیکھنے کے لیے والیانِ ریاست تک آئے تھے۔
1902ء میں لالا رام چندر کے مرحوم سر اَسرار حسن خان ( سابق ہوم منسٹر ریاست بھوپال اور وزیر اعظم ریاست خیرپور) سے دوستانہ تعلقات ہوگئے۔ اُس زمانہ سے (مرحوم) سر اَسرار حسن خاں جب کبھی دہلی آتے، تو لالا رام چندر جی کے ہاں قیام کرتے۔ اَب تو لالہ رام چندر اور سر اَسرار حسن خاں کا انتقال ہوئے بہت برس ہوگئے۔ سر اَسرار حسن خاں جب تک زندہ رہے، لالا رام چندر کے ہاں اسی مکان میں قیام فرمایا کرتے۔
سر اَسرار حسن خان کے عروج کو دیکھ کر درجنوں اصحاب نے اپنی بڑی بڑی کوٹھیاں پیش کیں اور کوشش کی کہ آپ اُن کے ہاں قیام کریں، مگر آپ نے انکار کیا اور ایک بار راقم الحروف سے کہا: ’’دوستوں کی جھونپڑی میں وہ لطف ہے، جو بڑے بڑے محلات میں بھی میسر نہیں۔ اگر میں اس مکان میں قیام کرنا چھوڑ دوں، تو یہ میری وضع داری اور دوستی شعار کے خلاف ہے۔‘‘
ان چند واقعات سے اندازہ کیجیے کہ آج سے چوتھائی صدی پہلے کے لوگ بھی کتنے وضع دار اور بامروت تھے اور اب ہماری حالت کیا ہے……!
دیوان سنگھ مفتون
ایڈیٹر ’’ریاست‘‘ اخبار
دہلی 1960ء
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔