آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 1 (1) کے تحت وطنِ عزیز کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، یعنی پاکستان و جمہوریت لازم و ملزوم ہیں۔
اسے ریاستِ پاکستان کی بدقسمتی ہی کہا جاسکتا ہے کہ دنیا کے نقشے پر نمودار ہونے کے بعد سے وطنِ عزیز میں جمہوریت ہمیشہ ہی سے زبوں حالی کا شکار رہی ہے۔ 76 سالوں میں 34 سال کا عرصہ براہِ راست غیر منتخب و غیر سیاسی آمروں کی حکم رانی میں گزرا اور باقی ماندہ سالوں میں بھی جمہوریت اور جمہوری اداروں کو بار بار پٹری سے اُتار دیا گیا۔ جمہوریت کے اس سفر میں سازشوں کے نہ رُکنے والے سلسلے نے منتخب حکم رانوں کو تختِ حکومت سے تختۂ دار تک پہنچا دیا۔ کبھی آٹھویں ترمیم 58 (2) (b) کے ذریعے منتخب حکومتوں کو کھڈے لائن لگایا گیا۔ کبھی عدالتوں سے پھانسی، قید و بند کی صعوبتیں، کبھی سیکورٹی رسک تو کبھی احتساب کے نام پر پتلی تماشے رچائے گئے۔ صوبہ پنجاب و خیبرپختونخوا اسمبلیاں ایک سال سے عوامی نمایندوں سے محروم ہیں۔ آئینِ پاکستان کے مطابق پارلیمنٹ کو عوامی نمایندوں سے محروم رکھنا آئین شکنی کے مترادف ہے۔
ایڈوکیٹ محمد ریاض کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/adv/
یاد رہے کہ انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ فیصلہ میں اپنے اضافی نوٹ میں جسٹس اطہر من اللہ نے نوٹ میں لکھا تھا کہ 90 دن میں انتخابات نہ کرانے کا عمل آئین کی معطلی کے مترادف ہے اور آرٹیکل 224 (2) کی خلاف ورزی ہے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے لکھا جو ادارے اور افراد، پاکستانی عوام کو اُن کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کا موجب بنے ہیں، اُن کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا کہ آئین کے آرٹیکل 224 (2) کی خلاف ورزی اور اس کے نتیجے میں عوام کو اُن کے حقوق سے محروم کرنا اتنا سنگین معاملہ ہے، اس کو نہ معاف کیا جا سکتا ہے اور نہ نظر انداز ہی کیا جاسکتا ہے…… اور یہ کہ ذمے داران کا احتساب ہونا چاہیے۔
اطہر من اللہ نے لکھا کہ اس تاخیر کی وجہ سے آئینی تعطل پیدا ہوا، جسے ختم کرنے میں صدر، صوبوں کے گورنرز اور الیکشن کمیشن ناکام رہا۔
موجودہ حالات میں 8 فروری کے انتخابات جیسے جیسے قریب آ رہے ہیں، حیرت انگیز طور پر انتخابی مراحل میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں۔ کبھی لاہور ہائیکورٹ سے حکمِ امتناع حاصل کرکے الیکشن شیڈول جاری ہونے سے روکنے کی مذموم کوشش کی گئی، جسے الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کی مداخلت اور سپریم کورٹ میں ہنگامی بنیادوں پر سماعت کے بعد سازش کو ناکام بنا دیا گیا۔ اسی طرح سپریم کورٹ نے حلقہ بندیوں پر اعتراضات مسترد کرتے ہوئے حلقہ بندیوں سے متعلق بلوچستان ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے یکر الیکشن میں تاخیرکے تمام دروازے بند کردیے۔
سماعت کے دوران میں قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ انتخابی شیڈول کے بعد حلقہ بندیوں پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔ سمجھ نہیں آتی، سب کیوں چاہتے ہیں کہ الیکشن لٹکایا جائے۔
عدالت نے کہا کہ انتخابی شیڈول جاری ہونے کے بعد انتخابی حلقہ بندیاں تبدیل نہیں ہوسکتیں۔
دیگر متعلقہ مضامین:
انتخابات بہر صورت 8 فروری کو ہوں گے 
انٹرا پارٹی الیکشن، قانونی تقاضے اور غیر جمہوری رویے 
سلیکشن نہیں، الیکشن کروائیے  
الیکشن نہ کرانے کے لیے نیا بہانہ گڑ لیا گیا 
عدالت نے کہا کہ الیکشن میں تاخیر کا کوئی چانس نہیں لینا چاہتے۔ ایسی درخواستوں کی سماعت کرکے عام انتخابات کے لیے مقرر 8 فروری کی تاریخ کو ڈسٹرب نہیں کریں گے۔
ایک طرف پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کی جانب سے عام انتخابات یقینی بنانے کے لیے سخت ترین احکامات جاری ہورہے ہیں، مگر دوسری جانب پاکستانی وکلا کی اعلا ترین تنظیموں کی جانب سے عین اس موقع پر چیف الیکشن کمشنر پر عدمِ اعتماد کیا جارہا ہے اور چیف الیکشن کمشنر کو عہدے سے مستعفی ہونے کے لیے دباو ڈالا جارہا ہے۔
وکلا کی بڑی تنظیموں کی جانب سے حلقہ بندیوں پر اعتراض کی وجہ سے چیف الیکشن کمشنر پر عدمِ اعتماد اور ان کو عہدے کے ہٹانے کا حیرت انگیز مطالبہ منظر عام پر آیا ہے، جب کہ پی پی پی، پی ٹی آئی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کو ہٹانے کے وکلا کے مطالبے کو مسترد کردیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے نزدیک چیف الیکشن کمشنر کو اس وقت ہٹانا انتخابات ملتوی کرنے کا جواز پیدا کرسکتا ہے۔ پی ٹی آئی، ن لیگ اور پی پی پی کے ردِعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کم از کم اس مرحلے پر وکلا تنظیموں کے مذکورہ مطالبے کی حمایت نہیں کرتے۔ اسی طرح الیکشن کمیشن کے ترجمان نے چیف الیکشن کمشنر کے آبائی ضلع میں کسی اضافی نشست سے متعلق خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کسی کے دباو یا بلیک میلنگ میں نہیں آئے گا۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ خبر غلط ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کے ضلع میں کوئی اضافی نشست پیدا کی گئی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کا آبائی حلقہ این اے 182 ضلع سرگودھا میں ہے، وہاں کوئی اضافی نشست پیدا نہیں کی گئی۔
ترجمان الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن تمام فیصلے باہمی مشاورت اور قانونی تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے مشترکہ طور پر کرتا ہے۔ ضلع حافظ آباد کے بارے میں اعتراضات کا فیصلہ بھی 5 رکنی بنچ نے مکمل ہم آہنگی سے کیا۔
جمعرات کو جاری بیان میں ترجمان الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے چاروں ممبران نے چیف الیکشن کمشنر پر غیر متزلزل اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک طرف سپریم کورٹ انتخابات یقینی بنانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر سماعتیں اور حکم نامے جاری کر رہی ہے اور سیاسی جماعتیں انتخابات میں مزید تاخیر کے حق میں نظر نہیں آتیں، مگر دوسری طرف وکلا کی بار کونسلوں کا یک دم الیکشن کمشنر کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونا انتہائی حیران کن اور قابلِ تشویش ہے۔ وکلا تنظیموں کے اکابرین کو سوچنا ہوگا کہ الیکشن کمشنر پر اعتراض کی صورت میں کہیں وکلا برادری انتخابات میں رکاوٹیں ڈالنے والی پس پردہ قوتوں کا آلہ کارتو نہیں بن رہی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وکلا تنظیمیں سپریم کورٹ، الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتوں کے ہاتھ مضبوط کریں، جس کی بہ دولت پٹری سے اُتری ہوئی جمہوریت اک مرتبہ رواں دواں ہو اور وطنِ عزیز میں عوام کو اپنے نمایندے پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلیوں میں بھیجنے کا موقع میسر آئے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔