عثمان سہیل صاحب کی ایک حالیہ تحریر کا مفہوم یہ سمجھ آیا ہے کہ جب کبھی وہ کوئی کتاب پڑھتے ہیں، تو دل کرتا ہے کہ فیس بک پر اس کے اقتباسات بھی شیئر کرتے رہیں، لیکن پھر لگتا ہے کہ یہ محض دوستوں کی نظر میں خود کو ایک انٹیلیکچول ثابت کرنے کی آرزو ہے۔
اُنھوں نے دوستوں سے بھی اپنا نقطۂ نظر شیئر کرنے کا کہا ہے، اس لیے مَیں بھی کچھ لکھ لیتا ہوں۔
ظہیر الاسلام شہاب کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zaheer/
چار سال پہلے یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے بعد جب پہلے کے مقابلے میں زیادہ زور و شور سے غیر نصابی مطالعہ شروع کیا اور اس میں موجود سرور کا اندازہ ہوا، تو بے پناہ خواہش پیدا ہوئی کہ باقی طالب علم بھی اس طرف آئیں۔ اس کے لیے واحد صورت یہ نظر آئی کہ اُنھیں اپنی ’’ریڈنگز‘‘ دِکھا دِکھا کر تحریک دلاتا رہوں، لیکن ساتھ یہ بھی احساس ہو رہا تھا کہ لوگ کہیں گے کہ یہ محض دکھاوا کر رہا ہے۔ بہ ہر حال، ذرا ہمت کر کے لوگوں کی ایسی ذہنیت کو نظر انداز کر لیا اور جس قدر ممکن تھا، کتاب کے حوالے سے لکھا، بولا اور شیئر کیا۔ ’’فیس بک‘‘ پر تو بہت کم ایسا کرتا ہوں۔ ’’وھاٹس اَپ‘‘ پر جڑے دوستوں کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ وہاں کس قدر اُن کی ناک میں دم کیے بیٹھا ہوں۔ کبھی کوئی اقتباس پوسٹ کیا، کبھی نئی خریدی گئیں کتب کی تصویر ڈالی، کبھی کوئی قول شیئر کیا، کبھی کتاب کا ریویو لکھ ڈالا، کسی کتاب کی خوب صورت تصویر دیکھی یا کسی حسینہ کے ہاتھ میں کوئی کتاب دیکھی، تو دوستوں کو دکھائی، کتب نہ پڑھنے والوں کو طعنے دِیے، وھاٹس اَپ گروپ بنائے، وہاں کتب شیئر کرنا شروع کیا، فیس بک پر موجود کتب بینوں کی پوسٹوں کی سکرین شاٹس وھاٹس اَپ پر چھڑا لیں، آن لائن کتابیں بیچنے والے نوجوانوں کی تشہیر کی، جنم دنوں پر کتب ہدیہ کیں، کتب سے متعلق ’’ایپس‘‘ کے بارے میں بتایا۔ دوستوں کے ساتھ مل کر ’’پنجاب یونیورسٹی ریڈرز سوسائٹی‘‘ بنائی، گذشتہ کئی مہینوں میں لگاتار اکیس بک کلبز کا انعقاد کیا اور اسی ہفتے آن لائن بک کلب شروع کرنے کا بھی ارادہ ہے۔
یہ سب کچھ ایسی صورتِ حال میں کرتا ہوں کہ کتاب سے متعلق پوسٹ پر پانچ، چھے یا زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس لائکس آجاتے ہیں، جب کہ ایک میم پر پچاس سے زائد۔ اس سے فرق تب پڑتا جب لائکس کا حصول مقصد ہوتا اور زیادہ لائکس کو کسی پوسٹ کے معیاری ہونے کا ثبوت سمجھتا۔
چار سالہ کتابی مہم کے دوران کچھ باتوں کا علم ہوا۔ آپ لاکھ چاہیں، ریاست کے ناقص نظامِ تعلیم اور مخصوص سماجی و سیاسی حالات سے گزرے ہوؤں میں سے اکثر کو کتب بینی کی طرف راغب نہیں کرسکتے۔ اُن کی ترجیحات انتہائی مختلف اور کتب بینی سے قدرے غیر متعلق بنائی گئی ہیں۔ ہاں! البتہ ایسا بھی نہیں کہ آپ کی ساری کوششیں رائیگاں چلی جاتی ہیں۔
ہمارے بہت سارے وہم ہمارے تخیل کی پیداوار ہوتے ہیں اور جس کی ہم توقع رکھتے ہیں، عموماً ویسا ہوتا نہیں۔ توقع کے بر عکس بہت کم لوگوں سے سنا کہ ’’چار کتب کیا پڑھیں، سوشل میڈیا سر پر اُٹھایا ہے…… دیسی یہ، دیسی وہ…… بنا ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ایسا کہنے والوں کی اپنی جہالت اور کتاب سے دوری اس قدر تھی کہ اُن کی باتوں سے متاثر ہونے کی بجائے اُلٹا اُن پر ہنسی آئی۔ ویسے بھی جب آپ سماجیات کا تھوڑا بہت مطالعہ کرلیتے ہیں، تو لوگوں کی ذہنی سطح کا بہت اچھی طرح اندازہ ہوجاتا ہے اور بہت کم اُن کو سنجیدہ لینا شروع کرلیتے ہیں۔ ہاں! مگر کچھ اُمور میں سنجیدہ لینا پڑتا ہے کیوں کہ اپنی ریاست، ریاست کہلانے کے قابل نہیں اور یہاں ریوڑ اپنی جہالت کے صحیح ہونے کے زعم میں کسی بھی علم دوست پر چڑھ دوڑ سکتا ہے، جیسا کہ گذشتہ دنوں آپ بنوں میں حیاتیات کے ایک استاد شیر علی کے ساتھ ہوتا دیکھ چکے ہیں جن کا جرم یہ تھا کہ حیاتیات کے استاد ہونے کے ناتے نظریۂ ارتقا پڑھاتا تھا اور کسی سیمینار میں خواتین کے حقوق کی بات کی تھی۔ کچھ لوگوں نے صلح کی شرط کے طور پر اُس سے ایک بیان ریکارڈ کروایا ہے جس میں یہ بات بھی کہلوائی گئی ہے کہ عورت فطری طور پر مرد کے مقابلے میں کم عقل ہوتی ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
علم و عقل 
ناول ’’زوربا یونانی‘‘ پر اِک نظر 
دریاؤں کے پانی کا مہمان نوازی پر اثر 
چار ہزار زندگیاں گزارنے والا ’’محمد عزیر‘‘  
ایک فوجی کے عشق کی کہانی
بڑے بڑے علم دوست، روشن خیال اور سماج کو بہتر بنانے کے چکر میں افسردہ نظر آنے والے بزرگ ہم خیال نوجوان لکھاریوں کا ساتھ صرف اُس وقت دیتے ہیں جب وہ مشال خان بن جاتے ہیں۔ کیوں کہ اُس وقت اُنھیں سماج پر تنقید کرنے اور اپنے آپ کو مبنی بر حق ثابت کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ نارمل حالات میں وہ یہ ناٹک کرتے ہیں کہ فیس بک پر ایڈ ہونے کے باوجود نہ تو اُن کو کوئی پوسٹ ملتی ہے اور نہ کوئی کومنٹ نظر آتا ہے۔
کم از کم بیس دوستوں نے بتایا کہ ہم نے صرف اور صرف آپ کو دیکھ کر مطالعہ شروع کیا ہے۔ خوشی کہ بات یہ ہے کہ اُن میں سے اکثر انجینئرنگ اور میڈیکل کے طالب علم ہیں، جو اِس طرف کم ہی آتے ہیں، اور عموماً اپنے مخصوص نصاب میں گم رہتے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ ایک شخص کا ایک ساتھ طالب علم ہونا اور بہت بڑے دانش ور ہونے کے زعم میں بھی مبتلا رہنا ممکن نہیں۔ جو طالب علم ہوتا ہے، اُس کو اپنی کم علمی اور کم مائیگی کا بہت اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے اور جس قدر زیادہ مطالعہ کرتا ہے، اُتنا ہی خود کو کم علم سمجھنا شروع کرتا ہے۔ اس کے برعکس جس کا جس قدر سطحی مطالعہ ہوتا ہے، اُتنا ہی وہ اپنے آپ کو بڑا علامہ سمجھتا ہے اور سوچتا ہے کہ لوگ اُس کی ہاں میں ہاں صرف اس لیے نہیں ملاتے کہ وہ اُس جیسے عالم فاضل نہیں۔ مَیں بھی ایک طالب علم ہی ہوں اور بڑی حد تک اپنی کم علمی کا ایک تکلیف دہ احساس بھی ہے، اس لیے اس حوالے سے دوسروں کی مثبت یا منفی رائے کو زیادہ وقعت نہیں دیتا۔
جہاں تک کتابوں کے حوالے سے پروپیگنڈا کرنے کا تعلق ہے، تو مَیں ذاتی طور پر اُن لوگوں کا بھی بہت احترام کرتا ہوں جو اپنی باتوں میں اُن کتب کا بھی بڑھ چڑھ کر حوالہ دیتے ہیں، جو اُنھوں نے پڑھی نہیں ہوتیں۔ کم از کم وہ کتاب کی بات تو کرتے ہیں ناں۔ یہاں سوشل میڈیا پر کس قدر بے معنی چیزیں شیئر ہوتی ہیں اور کتنے فضول مباحث چل رہے ہوتے ہیں، اگر اُن پر کوئی شرمندہ نہیں، تو کوئی کتاب کا تذکرہ کرتے ہوئے جھجھک کیوں محسوس کرے؟ جہاں لوگ اپنے سیر سپاٹوں، کھانوں، نئے فون، لباس، جوتوں الغرض کسی بھی چیز کی تفصیلات بغیر کسی تردد کے شیئر کرتے ہیں، وہاں کتب کا تذکرہ کرتے وقت کوئی سستی نہیں کرنی چاہیے۔ اپنی کہوں، تو مَیں صرف اُن لوگوں کو پڑھتا ہوں جو کسی قدر کتاب سے جڑے ہوں۔ جس تحریر میں کسی کتاب کا تذکرہ نہ ہو، بالکل بے روح لگتی ہے ۔
قارئین! اس دیس کو اگر رہنے کے قابل بنانا ہے، تو کتاب کی بات کرنی ہی پڑے گی!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔