سوات یقینا جنت کا ایک ٹکڑا ہے۔ اسے اگر سویٹزر لینڈ کہا جاتا ہے، تو بجا کہا جاتا۔ اس کا ہر کونا حسین ہے۔ اس کی ہر وادی خوبصورت ہے۔ یہاں دل و دماغکو سکون دینے والے نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یوں تو یہاں کے میدانی علاقے بھی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہیں، مگر اصل خوبصورتی یہاں کے پہاڑوں اور اِن پہاڑوں کے دامن میں خوبصورت مرغزاروں میں جاکر ہی آپ کو ملے گی۔ جب ایک پورا مہینا گھر پر گزر جائے اور ان پہاڑوں سے ملاقات نہ ہو، تو زندگی بے کیف و بے چین سی ہوجاتی ہے۔ اس دفعہ بھی جب بوریت نے ہمارے سر کے اوپر سائے منڈلانا شروع کیے، تو رہا نہیں گیا اور ہم نے لمبے سفر کی تان لی۔ پانچ جھیلوں کا سفر طے ہوا جن میں سیدگئی جھیل، ترکانڑہ جھیل، ماہ نور جھیل، درال جھیل اور تور جھیل شامل تھیں۔
سفر کا آغاز صبح سویرے گھر سے نکلتے ہی ہوا اور اپنی گاڑی میں گامشیر (مٹہ) تک کا سفر کیا، جہاں سے میں سلاتنڑ پہنچ گئے۔ سلاتنڑ سے پیدل سفر شروع ہوا جو سیدگئی بانڈہ تک آٹھ گھنٹوں کی مسلسل چڑھائی پر مشتمل تھا۔ ڈَب تک ٹریک نارمل تھا۔ اس کے بعد چوں کہ ارادہ تین دن کا تھا جس کی خاطر خوراک کی اشیا بھی زیادہ درکار تھیں، تو بیگ بھی کافی بھاری ہوگئے تھے۔ ڈب سے سیدگئی بانڈہ تک کا سفر پانچ گھنٹوں کی پتھریلی اور سخت چڑھائی پر مشکل سے طے ہوا۔ وہاں پہنچے، تو شام ہونے والی تھی۔ ساتھیوں کے مشورے سے وہاں پر کیمپنگ کی اور رات بڑے سکون سے ٹینٹ میں گزاری۔ صبح چھے بجے اٹھ کر نصیر انکل کے ہاتھوں کی ذائقہ دار سویاں کھائیں اور سیدگئی جھیل کی طرف روانگی شروع ہوئی۔ گھنٹے بھر میں جھیل کی وہ پہلی جھلکجس نے پوری تھکاوٹ غائب کردی، ہمیں دیکھنا نصیب ہوئی۔ ایک گھنٹا وہاں خوب مزے لیے۔ فوٹوز اور ویڈیوز بنائیں۔ جھیل کی خوبصورتی جانے نہیں دے رہی تھی اور نہ دل ہی بھر رہا تھا، مگر اپنے اگلے ہد ف کا پیچھا کیا اور تقریباً آدھا گھنٹا بعد ترکانڑہ ڈنڈ (جھیل) کا دیدار نصیب ہوا۔

سیدگئی جھیل کا سحرانگیز نظارہ۔ (فوٹو: لکھاری)

ہمارا سفر جاری رہا۔ سیدگئی بانڈہ، سیدگئی جھیل اور ترکانڑہ جھیل کے خوبصورت مناظر کو ہمیشہ کے لیے اپنے کیمرے کی آنکھ سے قید کرنے کے بعد اپنے اگلے ہدف ماہ نور جھیل اور ماہ نور سے درال جھیل کے لیے روانہ ہوئے۔ ابھی آگے بڑھے ہی تھے کہ تین راستے نظر آئے۔ ہمارے پاس نہ تو کوئی مقامی بندہ تھا۔ نہ گائیڈ تھا اور نہ ہمیں راستے کا علم ہی تھا۔ ایک انجانے خوف نے ہمیں گھیر لیا۔ گروپ ممبران کا آپس میں مشورہ شروع ہوا۔ ایک دوست نے واپسی کا مشورہ دیا، مگر اتنا خوار ہونے کے بعد واپسی بے وقوفی ہی ہوتی۔ میں نے تو صاف انکار کیا کہ چاہیکچھ بھی ہو، ہمیں آگے ہی بڑھنا ہوگا۔ ہماری خوش بختی دیکھیے، ٹریک پر جانے سے پہلے یوں ہی بطورِ شغل میں نے سیدگئی اور درال جھیل کی سیٹیلائٹ سکرین شاٹ لی تھی۔ اس کا سہارا لے کر ہم اپنے دائیں طرف کے انجان پہاڑوں پر روانہ ہوئے۔ قدرت مددگار ثابت ہوئی، جس پہاڑ کو انجان سمجھ کر ہم نے آگے بڑھنے کے لیے چنا تھا، وہی ہمارا ساتھی نکلا۔ اوپر پہنچنے پر ہمیں ماہ نور جھیل کا ذہن پر نقش ہونے والا منظر دیکھنا نصیب ہوا اور جس نے ہماری امیدیں جگائیں۔ انجانے رستے کا ہم نے جو ’’رِسک‘‘ لیا تھا، وہ جانا پہچانا رستہ بن گیا۔ ماہ نور جھل میں واقعی نور تھا، جو ہمیں جانے نہیں دے رہا تھا۔

جھیل کنارے لکھاری کی اپنے دوستوں کے ساتھ ایک یادگار تصویر۔

اب باقی سفر درال اور تور جھیل کی طرف شروع ہوا۔ درال پاس پہنچ کر بارش، دھند اور ژالہ باری شروع ہوئی۔ مشکلات بڑھ گئیں اور ساتھی کچھ ڈر سے گئے۔ ایک انجانے خوف نے مجھے بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ میں سوچنے لگا کہ اگر بارش طول پکڑگئی، تو کیا ہوگا؟ ہمت ساتھ نہیں دے رہی تھی، مگر کچھ نہ کچھ تو بہرحال کرنا تھا۔
’’ہمت مرداں مددِ خدا‘‘،ہم تیز بارش اور دھند میں چلتے گئے۔ مسلسل دو گھنٹوں تک اس آس میں نیچے اترتے گئے کہ رات بسر کرنے کے لیے محفوظ پنا گاہ مل جائے گی اور قدرت کا کرشمہ دیکھیے کہ اسی راستے سے ہم درال جھیل پہنچے۔ یوں ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ وہاں جھیل کے سحرانگیز مناظر میں ایک گھنٹا کھوئے رہے۔ زیادہ بارش سے سلیپنگ بیگز اور باقی سامان گیلا ہوگیا تھا۔ وہاں کچھ مقامی افراد نے قریبی مسجد میں بوریا بستر کا انتظام کیا اور یوں رات پر سکون گزری۔ خوب آرام کیا۔ صبح اُٹھ کر تور جھیل کے کنارے ناشتہ کیا۔ اب دو راستے تھے۔ پہلا واپسی کے لیے گبین جبہ کی طرف سے اور دوسرا بحرین کی اُور نکلتا تھا۔ تھکاؤٹ سے برا حال ہونے کی وجہ سے اترائی پر ترجیح دی گئی اور بحرین کا راستہ چنا گیا۔
درال جھیل سے بحرین تک کی مسافت 12 سے 15 گھنٹوں پر مشتمل ہے، جس میں چار پانچ گھنٹوں تک دودھ جیسے صاف و شفاف پانی کا نالہ سفر کا ساتھی بنا رہتا ہے۔ باقی راستہ درال ڈیم تک دیار کے گھنے اور تاحد نگاہ جنگلات ہمارے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ یوں بہت انتظار کے بعد ہمیں بحرین کے وہ کباب جس کا بے صبری سے انتظار تھا نصیب ہوئے۔

درال جھیل کا من بھاتا نظارہ، یہاں سے جھیل تک کا سفر آدھا گھنٹا بنتا ہے۔ (فوٹو: لکھاری)

یوں زندگی کا ایک خوب صورت اور نہ بھولنے والا سفر اپنے اختتام کو پہنچا۔ امید ہے آپ لوگوں کو بھی یہ سفر اچھا لگا ہوگا۔ بہت جلد ایک اور سفری روداد کے ساتھ آپ لوگوں سے ملاقات ہوگی، خدا حافظ!

……………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔