ہم سکول میں زمانے کی کیفیات خاص کر انگریزی میں جس کو "Tens” کہا جاتا، پڑھتے تھے۔ اساتذہ ہمیں سمجھایا کرتے تھے کہ جب زمانے یا وقت کی کیفیت بدلتی ہے، تو ترجمہ کس طرح کرنا ہے۔ اس ایک ٹینس، ’’پریسنٹ کنٹی نیوس ٹینس‘‘ کہ جس کو فعلِ حال جاری کہتے، تھا۔ وہ مجھے سب سے آسان معلوم ہوتا تھا۔ آج مَیں نے مڈل سکول کے بچے کی تعلیم کے حوالے سے کیوں بات کی؟ اس کی وضاحت کرنے سے پہلے ایک تاریخی واقعہ بیان کرنا چاہوں گا۔
سید فیاض حسین گیلانی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fayaz/
کوفہ کا دربار لگا تھا۔ گورنر کوفہ کے سامنے معصب بن زبیر کا کٹا سر پڑا تھا اور گورنر بہت سنجیدگی سے درباریوں کو یہ بتا رہا تھا کہ کس طرح ایک اسلام کے باغی کو قتل کیا گیا اور یہ سامنے پڑا کاٹا گیا سر، اسلام اور حکومت کی کامیابی کا شاہ کار ہے۔ اچانک ایک ضعیف شخص مسکرا دیا۔ گورنر کی نظر اس کی مسکراہٹ پر پڑی اور اُس نے اُس مسکراہٹ کی وجہ پوچھی کہ یہاں شانِ اسلام اور حکومت کی فتح کا سنجیدہ اعلان ہو رہا ہے، کوئی لطیفہ تو نہیں۔ سو اِس موقع پر اس طنزاً مسکراہٹ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اِس پر اُس شخص نے بہت سنجیدگی سے ایک بات کی کہ جس کو سن کر شاید عبدالمالک نام تھا گورنر کا، اُس نے اُسی وقت کوفہ کے دارامارہ یعنی گورنر ہاؤس کو گرانے کا حکم دے دیا۔ اُس بوڑھے شخص نے بہت گہری بات کی۔ اُس نے کہا کہ امیر! معذرت مسکرانے کی، لیکن کیا کروں بے ساختہ مسکراہٹ آگئی۔ امیر نے چلا کر کہا، وضاحت کرو! وہ شخص بولا، امیر میری بہت عمر ہوگئی، مَیں نے دیکھا کہ اسی تخت پر جہاں آپ براجماں ہیں، کبھی عبید ﷲ ابن زیاد بیٹھا ہوا تھا اور اسی طرح اُس کے سامنے اپنے دور کے مقدس ترین شخص حسین ابن علی کا سر لایا گیا اور ابن زیاد نے اسی طرح حسین ابن علی کو دشمنِ اسلام کہا اور فتح کا اعلان کیا۔ پھر مَیں نے دیکھا کہ اسی تخت پر مختار ابن ثقفی تشریف فرما ہیں اور ابنِ زیاد کا کٹا ہوا سر پیش ہوا۔ مختار ثقفی نے اسی طرح دشمنِ اسلام کے قتل کا اعلان کیا۔ پھر یہی دربار تھا اور اسی طرح مختار ثقفی کا سر تھا اور تخت پر معصب ابن زبیر تشریف فرما تھے، اور دشمنِ اسلام کی موت کا اعلان ہو رہا تھا۔ آج اُسی تخت پر آپ ہیں اور کٹا سر معصب ابن زبیر کا ہے، اور وہی اعلان کہ دشمنِ اسلام مارا گیا۔ سو مَیں نے تصور کیا کہ شاید یہاں تخت پر کل کوئی اور ہوگا، لیکن یہ بات یقینی ہے کہ وہ کٹا سر آپ کا ہوگا اور اسی طرح اعلان ہوگا کہ ایک دشمنِ اسلام مارا گیا۔ شاید کوفہ کا مزاج ایسا ہی ہے۔ شاید کوفہ کو قتلِ امام علی بن ابو طالب کی شہادت کی سزا مل رہی ہے کہ کوفہ کے در و دیوار یہاں سرداروں کے کٹے سر دیکھیں اور فاتح اس کو انتقام کے بجائے ’دین کی سربلندی‘ سے تعبیر کریں۔
یہ بات سن کر گورنر نے کوفہ کا گورنر ہاؤس ختم کیا اور بصرہ کو دارالحکومت بنایا۔ اس کے بعد کوفہ کو کبھی سرکاری اہمیت نہ ملی اور آج تک کوفہ بس بے وفائی کی علامت ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
سیاست دانوں کو بدنام کرنا مسئلے کا حل نہیں
ہماری سیاست اور پنڈولم تھیوری
پولیٹیکل انجینئر، سیاست دان اور عوام
اب یہ واقعہ کیوں فعلِ حال جاری سے منسلک ہوا، جب کہ گورنر کوفہ نے تو گورنر ہاؤس ہی ختم کر دیا تھا…… لیکن تختِ حکم رانی کے رویے تو نہ بدلے…… اور اگر تب وہاں یعنی کوفہ میں بالفرض بدل بھی گئے ہوں، تو یہاں حالت کیا ہے، پاکستان کی تاریخ کیا ہے؟ پہلے کراچی کے ایوان تھے اور ایک کے بعد ایک حکم ران مجرم بنائے گئے…… لیاقت علی خان سے چوہدری محمد علی تک۔ پھر جب یہ کوفہ اسلام آباد آیا، تو کام وہی، لیکن شدت بڑھ گئی۔ ایوب خان کے سامنے الطاف گوہر ہے اور منصوبہ بن رہا ہے کہ قائد اعظم کی بہن ’مادرِ ملت‘ کی کردار کشی کیسے کی جائے؟ کوئی شرم نہیں، کوئی غیرت نہیں۔ قائد کی بہن کو ذلیل اور رسوا کیا گیا۔ پھر وہی ایوان ہے، نواب آف کالا باغ کو حکم ہوا کہ مجیب الرحمان اور ذوالفقار علی بھٹو کو خراب کرو۔ پھر نیلے آسمان نے دیکھا کہ اسی ایوانِ حکومت میں راؤ رشید براجماں ہیں، خالد کھرل اور ٹکا خان سر جھکائے بیٹھے ہیں اور ذوالفقار علی بھٹو کی آواز گونجی کہ مولانا مودودی، خان عبدالولی خان اور اصغر خان کا تشخص قوم میں خراب کرو۔ ہماری ٹاپ ایجنسی میں سیاسی وننگ بن گیا۔ پھر وقت کی رفتار چلی۔ حالات بدلے اور اُس ونگ کے پہلے سردار جناب سوار خان، ضیاء الحق کے سامنے موجود تھے کہ حکمِ شاہی آیا: ’’بھٹو کی آخری حد تک کردار کشی کرو!‘‘ پھر قوم نے دیکھا کہ اس کا فخرِ ایشیا، تیسری دنیا کا بانی اور اسلامی امہ کا چیئرمین ایک دم سے ایک عیاش قاتل اور ظالم بنا دیا گیا۔ اُس وقت ریڈیو اور ٹی وی پر ظلم کی داستان کے نام سے ایک مکمل پروگرام چلتا تھا کہ جہاں ذوالفقار علی بھٹو کی خوب کردار کشی ہوتی تھی۔ پھر انھی ایوانوں میں کئی اختر عبد الرحمان اور کئی حمید گل آئے اور دخترِ مشرق، بھٹو کی تصویر، بھٹو بینظیر کی کردار کشی کی انتہا ہوئی۔ میاں نواز شریف بہت فخر سے عوامی جلسوں میں ارشاد فرماتے۔ پھر انھی ایوانوں میں جنرل بابر اور رحمان ملک کی ڈیوٹی لگی اور ’’میڈ اِن پاکستان‘‘، ’’قائدِ محترم‘‘ میاں محمد نواز شریف ’’چور‘‘ بنائے گئے۔
سنہ 1997ء کا الیکشن تو گندگی اور جنسی غلاظت کا شاہ کار تھا۔ کیوں کہ اب نواز شریف کے مقابل میڈیا پر نہ تو پی پی کی کم تعلیم یافتہ اور خاص کر ایک نوجوان خاتون کے معتقد تھے، بلکہ اُن کی ٹکر کے لوگ بلکہ اُن سے بہتر میڈیا مینیجر تھے۔پھر قوم نے دیکھا ایک دن راتوں رات ’’میڈ اِن پاکستان‘‘ نواز شریف ایوانِ حکومت سے جیل میں تھا۔ اب وہ منتخب لیڈر نہیں بلکہ ایک ہائی جیکر اور کارگل کا مجرم تھا۔ جنسی مریض اور عورتوں کا شکاری تھا، بلکہ اس کی تمام کابینہ فحش کردار تھی۔ راتوں رات ایک کتاب ’’بازارِ حسن سے پارلیمنٹ‘‘ تک آگئی…… اور یوں یہ سرکل چلتا رہا۔ اب 2023ء میں خاور مانیکا کا انٹرویو جاری ہوا۔ ویسے کچھ جاننے والے جانتے ہیں، ماننے والے مانتے ہیں، اندازہ لگانے والوں کا اندازہ ہے، کچھ کا تجزیہ ہے، کچھ کا تجربہ ہے، کسی کو روحانی علم سے، کچھ کو سیاسی علم سے اور کچھ کو صحافتی علم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اصل میں یہ کھیل اسلام آباد کے بجائے راولپنڈی سے ارینج کیا جاتا ہے، یعنی میچ ہوتا، تو اسلام آباد میں ہے لیکن فکسنگ راولپنڈی میں ہوتی ہے۔
بہرحال جو بھی ہے، غلط ہے۔ برطانیہ کی ایک سابق وزیرِ اعظم تھی مارگریٹ تھیچر، اُن کو آئرن لیڈی کہا جاتا تھا۔ اُن کا ایک قابلِ فکر قول ہے کہ جب آپ پر کوئی ذاتی کردار کے حوالے سے حملہ آور ہوتا ہے، تو یہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ اُس کے پاس آپ کے خلاف سیاسی دلیل کا شدید قحط ہے۔
پھر یہ کرنے والے یہ کبھی نہیں سوچتے کہ اس کا عوام پر کبھی اثر نہ ہوا۔ مثلاً: رویے کے حوالے سے پاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑی کردار کشی ذوالفقار علی بھٹو کی ہوئی اور ذاتی کردار کے حوالے سے مکروہ ترین اور غلیظ ترین مہم محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف ہوئی۔ حتی کہ اُن کو جسمانی طور پر ختم کر دیا گیا، لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ دونوں باپ بیٹی کی قبریں بہت دور لاڑکانہ کے لق و دق علاقہ کے ایک گاؤں گڑھی خدا بخش میں ہیں، اور اُن کے خلاف یہ مہم لانچ کرنے والوں کے سرغنہ کی قبر فیصل مسجد اسلام آباد میں ہے، مگر دیکھ لیں…… فیصل مسجد کے عین قریب قبر پر اعجاز الحق بھی نہیں جاتا، لیکن گڑھی خدا بخش میں ہر وقت زائرین کا ہجوم رہتا ہے۔ مَیں نے ڈھیر سارے لوگ دیکھے ہیں جو اُن کو روحانی شخصیات کا درجہ دیتے ہیں۔
سیانے کہتے ہیں کہ تاریخ کا یہی سبق ہے کہ ہم تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے۔ اب آپ نے جو خاور مانیکا کا انٹرویو کروایا، آپ یقین کریں اس سے عمران خان کے ووٹ بنک پر ذرّہ برابر بھی فرق نہیں پڑا، بلکہ ’’عمران فین کلب‘‘ کے ممبران مزید عمران خان سے جڑگئے۔ البتہ خاور مانیکا نے مزید خود کو ذلیل و رسوا کر دیا۔ اب یہ سوال بہت صحیح ہے کہ جناب، جب خان صاحب کا افیئر آپ کی زوجہ محترمہ کے ساتھ تھا، تو آپ خاموش کیوں رہے؟ مان لیا کہ آپ پر دباو تھا، آپ عزت بچاتے رہے، لیکن جب آپ کی سابقہ اہلیہ خاتونِ اول بن گئی، تو آپ کس حساب سے اُن کے ہم راہ دورے کرتے رہے؟ پاک پتن کی گلی محلہ گواہ ہیں کہ آپ کے بچوں نے والدہ محترمہ کے شوہرِ نام دار کی حکومت میں کس طرح اور کس قسم کے فائدے حاصل کیے۔ بہرحال، اب ان باتوں پر بحث غیر ضروری بھی ہے اور غیر اخلاقی بھی، تو بنیادی بات یہی ہے کہ آپ کب تک یہ کردار کشی کا سلسلہ جاری رکھیں گے، کب تک یہ مکروہ کھیل کھیلا جائے گا؟ ایک ایسا کھیل کہ جس کا نتیجہ کبھی فریقِ مخالف کے خلاف نہ آیا۔ سو بہتر ہے کہ چپ چاپ الیکشن کروائیں، مکمل آزاد و غیر جانب دار۔ جہاں ہر ایک کو مکمل آزادی ہو۔ اوپن پلینگ فیلڈ ہو اور غیر جانب دار ریفری۔ اس کے بعد نتائج عوام کی منشا اور مشترکہ دانش کہ جو شاید کبھی غلط نہیں ہوتی، پر چھوڑ دیں۔ اگر بالفرض آپ کی تمام سعی، سعیِ لاحاصل ثابت ہوجاتی ہے، عوام عمران خان کو منتخب کرلیتے ہیں، تو کون سی قیامت برپا ہو جائے گی؟ آپ حکومت عمران خان کے حوالے کریں اور عام عوام کو دیکھنے اور سمجھنے دیں کہ ملک بھی بہرحال عوام ہی کا ہے۔ حکومت بنانے یا ختم کرنے کا بھی اختیار اﷲ کے بعد اس ملک کے عوام کا ہے۔ کسی مخصوص گروہ یا شخصیت کو ’’چاچا‘‘، ’’ماما‘‘ بننے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ویسے بھی اب سوشل میڈیا کا دور ہے۔ اس دور میں آپ کچھ وقت کے لیے کچھ محدود لوگوں کو احمق بناسکتے ہیں، لیکن سب کے ساتھ ایسا نہیں کیا جاسکتا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔