ناول ’’زوربا یونانی‘‘ پر اِک نظر

Raja Qasim Mehmood

تبصرہ: راجا قاسم محمود 
’’نیکوس کینزنزاکیس‘‘ (Nikos Kazantzakis) یونانی ناول نگار تھے۔ اُن کی پیدایش سلطنتِ عثمانیہ میں ہوئی۔ اُن کی زندگی میں ہی یہ سلطنت ختم ہوئی۔ ’’زوربا دی گریک‘‘ (Zorba the Greek) ناول سے اُن کو شہرت ملی۔ اس ناول پر بعد میں ہالی ووڈ میں فلم بھی بنی۔ یہ ناول یونانی زبان میں لکھا گیا۔ اس کے بعد اس کے متعدد زبانوں میں ترجمے ہوئے۔اس ناول کا اُردو ترجمہ مخمور جالندھری نے کیا تھا۔ اس اُردو ترجمے کو ’’زوربا یونانی‘‘ کے نام سے بک کارنر جہلم نے شائع کیا ہے۔ یہ ترجمہ غالباً اس کے انگریزی ترجمے کا ترجمہ ہے۔
اس ناول کے بنیادی طور پر دو کردار ہیں۔ ناول کی اصل چیز اس کی کہانی نہیں بلکہ اُن دو کرداروں کی گفت گو ہے۔ اس گفت گو کے اندر کئی چھوٹی چھوٹی کہانیاں بھی ہیں، جن کا اصل سبق ہمیں اس گفت گو کی اہمیت کو مزید واضح کرتا ہے۔ دو کرداروں میں سے ایک کردار تو کہانی ساز کا ہے، جس کا نام ہمیں نہیں ملتا، جب کہ دوسرا کردار زوربا یونانی کا ہے۔
اس ناول کا بنیادی موضوع خود شناسی اور لمحۂ موجود میں جینا ہے۔ انسانوں میں تین طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو ماضی جیتے ہیں، دوسرے جو مستقبل میں جیتے ہیں اور تیسرے وہ جو حال میں جیتے ہیں۔
اس ناول میں کہانی ساز مستقبل میں جینے والا ہے، جب کہ زوربا حال میں جینے والا ہے۔ کہانی ساز کی عمر 35، 36 سال ہے، جب کہ زوربا 60 سال کا ہے۔ کہانی ساز کریٹ میں لگنائیٹ کی کان کی ہے جہاں زوربا اس کے لیے بطورِ مزدور کام کرنے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔ کہانی ساز زوربا کی دلچسپ شخصیت سے اُس کو ساتھ رکھتا ہے۔ وہ کریٹ میں ایک بیوہ مس ہارڈنٹیس کے ہاں رہایش پذیر ہوتے ہیں، جو کہ وہاں پر باقی کیفے مالکان کو اچھا نہیں لگتا۔ مس ہارڈنٹیس کی رہایش نہایت معمولی ہے، لیکن وہ وہاں ہی رہتے ہیں۔ جلد ہی زوربا اور مس ہارڈنٹیس کے درمیان پیار کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔ زوربا مس ہارڈنٹیس کو پیار سے ’’بابولینا‘‘ پکارتا ہے۔ یہ محبت کی داستان تو کہانی کا حصہ ہے، لیکن یہ اس کا بنیادی حصہ نہیں۔ اصل چیز جیسا کہ پہلے لکھا کہ زوربا اور کہانی ساز کے درمیان ہونے والی گفت گو کی ہے۔
کہانی ساز اور زوربا یونانی کا تعلق تو مالک اور مزدور کا ہے، لیکن یہ دوستی کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ کہانی ساز مستقبل کو سوچنے والا، جب کہ زوربا حال میں جینے والا ہے۔ ایسے ہی ہم دیکھتے ہیں کہ کہانی ساز کتابوں کی دنیا میں بسنے والا ہے، وہ کتابی دانش کا حامل جب کہ زوربا یونانی تجربات کی دنیا میں بسنے والا ہے۔ اس کے ہاں ہمیں لوکل اور سماجی دانش نظر آتی ہے۔ یوں زوربا اور کہانی ساز کے درمیان ہونے والی یہ گفت گو ایک طرف ماضی و مستقبل میں جینے والے اور لمحۂ موجود میں جینے والے کی گفت گو ہے۔ یہ گفت گو کتابی دنیا اور حقیقی دنیا کے مکین کی گفت گو ہے۔ یہ تجربے اور کتابی علم کی گفت گو ہے۔
اس میں ہمیں نظر آتا ہے کہ حقیقی دنیا میں جینے والے، مختلف تجربات سے گزرنے والے، سفر کرنے والا جو بظاہر پڑھا لکھا خیال نہیں ہوتا، وہ کس طرح کا ذہین ہوتا ہے۔ اس کا زاویۂ نظر کتنا مختلف ہوتا ہے اور زمانے کے تجربات جو باتیں اس کو سکھاتے ہیں، وہ ہمیں کتابوں میں نہیں ملتیں۔
ایسا نہیں کہ زوربا ایک مثالی کردار ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اُس نے قتل و خون کیا ہے۔ اُس نے عورتوں کی عصمت دری کی ہے۔ اُس نے جھوٹ بولے ہیں۔ اِس کے علاوہ بھی اُس کی شخصیت میں کئی کم زوریاں ہیں، لیکن زوربا کی ان تمام خامیوں کے باوجود ایک خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتا ہے۔ وہ مذہب اور آخرت پر کوئی یقین تو نہیں رکھتا، لیکن اپنی ماضی کی غلطیوں کو وہ دُہرانا نہیں چاہتا۔
دراصل ہمیں نظر آتا ہے کہ زوربا نے اپنی غلطیوں سے سیکھا ہے۔ اس لیے اُن کے بھیانک نتائج سے بھی وہ واقف ہے۔ جن بھیانک نتائج کا کہانی ساز فقط اندازہ لگاسکتا ہے، زوربا نے اُن کو محسوس کیا ہے، اُن کو دیکھا ہے۔
کہانی ساز گو کہ سرمایہ دار ہے، مگر اس کے اندر مزدور دوستی پائی جاتی ہے۔ وہ ایک دن زوربا سے کہتا ہے کہ وہ بھی اپنی کان میں مزدوروں کے ساتھ کام کرے گا، تو زوربا اُس کو روک دیتا ہے۔ زوربا کہتا ہے کہ ایسا کرنے سے مزدوروں پر سے اُس کا رُعب ختم ہو جائے گا۔ یوں اُن سے کام لینا مشکل ہوجائے گا۔ یہ کاروبار کا ایک گُر ہے، جو اکثر جگہ درست ثابت ہوتا ہے۔ کاروبار کے جاری رہنے میں مالک اور ملازم میں ایک فاصلہ ہونا ضروری ہے۔ یہ فاصلہ اگر ختم ہوجائے، تو مزدور اپنے حصے کے کام کرنے میں سست پڑسکتا ہے۔ یہی بات زوربا اپنے مالک کو سکھاتا ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
ناروے کی لوک کہانیاں (تبصرہ)
پاپولسٹ لیڈروں کی خصوصیات بیان کرتی کتاب (تبصرہ) 
خوش ونت سنگھ کا ناول ’’دلی‘‘ (تبصرہ)
لیوٹالسٹائی کا ناول ’’جنگ اور امن‘‘ (تبصرہ) 
زوربا کہانی ساز کو بتاتا ہے کہ اُسے چیری کھانے کا بہت شوق تھا، اور اُسے یہ بہت پسند بھی تھیں۔ اُس نے اپنی پسند کو، ناپسند کو اِس طرح بدلا کہ ایک دن اُس نے اپنے باپ کی جیب سے سکہ چرایا اور اُس کی اُس نے بہت ساری چیریاں خریدیں، جنھیں وہ مسلسل کھاتا رہا۔ اس نے اتنا زیادہ کھایا کہ اس کو وہ بدذائقہ لگنے لگیں اور ایک ایک مزید دانا اس کے پیٹ پر بھاری پڑنے لگا۔ یوں اُس نے اپنے اُس شوق سے نجات حاصل کی۔ یہ ایک دلچسپ بات ہے کوئی چیز آپ کو بہت پسند ہو، جب وہ آپ کے پاس وافر مقدار میں آجائے، تو وہ آپ کی اتنی پسندیدہ نہیں رہتی۔
کہا جاتا ہے کہ جو گیت آپ کو زیادہ پسند ہو، تو اُس کو کم کم سننا چاہیے، تاکہ آپ کی پسند برقرار رہے۔ یہ میرا ذاتی تجربہ ہے۔ ایک دو گیت جو مجھے انتہائی پسند ہیں، مَیں اُنھیں کم کم سنتا ہوں…… لیکن جب سنوں، تو ایک ہی دفعہ تین چار بار سنتا ہوں۔ یوں وہ لطف نہیں دیتا۔
ایسے ہی کوئی کھانا بہت زیادہ پسند ہو، اگر اُس کو ہر دوسرے تیسرے روز کھایا جائے، تو آپ کی پسند برقرار رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔
یہ انسانی نفسیات کا معاملہ بھی ہے، وہ جب ایک چیز سے مکمل لطف اندوز ہو جائے، تو وہ کسی نئی چیز کی تلاش میں ہوتی ہے۔
’’زوربا‘‘ مذہب پر بھی یقین نہیں رکھتا، جب کہ کہانی ساز بدھا کے فلسفے پر کتاب پڑھ رہا اور بدھا کی تعلیمات کے حوالے سے وہ کتاب بھی لکھنے کا ارادہ کرتا ہے۔
ہمیں نظر آتا ہے کہ زوربا پادریوں اور کلیسا کا مذاق اُڑاتا ہے۔ وہ آخرت اور جزا و سزا کے بارے میں بھی کہتا ہے کہ اس کی حقیقت نہیں۔ وہ پادریوں کی جانب سے بیان کی ہوئی مذہبی داستانوں پر بھی ہنستا ہے۔ وہ ایک جگہ کہانی ساز سے کہتا ہے کہ ’’اگر خدا ہے، تو وہ کیڑے مکڑوں کا اعمال کا حساب رکھتا ہے؟ کیا وہ اس بات پر برہم ہوتا ہے کہ کوئی گم راہ ہوگیا ہے؟ یہ شبہ کئی بار ذہن میں آتا ہے کہ آخر خدا کو ہماری گم راہی اور بداعمالیوں سے کیا غرض کہ وہ اس پر ناراض ہو؟‘‘
ربِ تعالا پر ایمان رکھنے والا ذہن تو اس کا جواز نکال لیتا ہے اور ہم میں سے ہر کسی کے ذہن میں کوئی نہ کوئی تسلی بخش جواب تو ہوگا، لیکن اگر نہ بھی ہو، تو بھی ہمارے لیے یہ بات کافی ہے کہ ہماری حیثیت ایک عبد کی ہے اور ہمارا خالق ہمارا جواب دہ نہیں۔ بہرحال یہ تشکیکت ان دونوں کے درمیان ہونے والے گفت گو کا ایک موضوع ضرور ہے۔
’’زوربا‘‘ ایک جگہ سوال اُٹھاتا ہے کہ اس دنیا میں بچے مرجاتے ہیں، جب کہ بوڑھے جی رہے ہوتے ہیں۔ جوان قتل ہوجاتے ہیں، جب کہ ضعیف افراد کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ خود ’’زوربا‘‘ کا بیٹا کم سنی میں مرگیا، جس کا وہ شکوہ بھی کرتا ہے۔ انسانوں کی موت میں اس بے ربطگی کو وہ ناانصافی سے تعبیر کرتا ہے۔ اس میں ہم سمجھتے ہیں کہ اس کی ناانصافی کی تعریف درست نہیں۔ باقی یہ اس دنیا کا ایک قانون ہے کہ یہاں پیدایش میں تو ترتیب ہے، مگر موت میں ترتیب نہیں۔ اس کی وجوہات بھی ذکر کی جاسکتی ہیں اور یہ سب امرِ الٰہی ہیں، جن پر غور کرنا بھی چاہیے۔
’’زوربا‘‘ جو حال میں جیتا ہے۔ وہ حال میں جینے کے باعث اس وقت حاصل ہونے والی خوشی کا خوب مزہ لیتا ہے اور بتاتا ہے کہ اچھا وقت جب چل رہا ہو، تو اس کا لطف لینا چاہیے۔ ورنہ ہم اگر اس کا مزہ نہ لے سکیں اور وقت بدلے، تو پھر احساس ہوتا ہے کہ وہ وقت کتنا اچھا تھا۔
یہ ایک حقیقت ہے۔ کئی دفعہ ہمارے پاس چیزوں کی قدر نہیں ہوتی، جب وہ ہمارے پاس ہوتی ہیں، مگر جب ہم سے وہ چھن جائیں، تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم نے کتنی بڑی نعمتوں کی بے قدری کی۔ رشتہ، دوستی، وقت،صحت اور پیسا…… یہ وہ چیزیں ہیں جو کسی بھی وقت آپ سے کھوسکتی ہیں۔
کئی رشتے اور دوستیاں ایسی ہوتی ہیں جن کو ہم بہت ہلکا لیتے ہیں، لیکن موت یا وقت اگر ان کو ہم سے چھین لیں، تو تب احساس ہوتا ہے کہ ہماری زندگی میں کتنی آسانیاں اُن کی وجہ سے تھیں۔
یہی معاملہ صحت کا بھی ہے۔ جب ہم توانا ہوتے ہیں، تو اکثر اوقات ایسے کاموں میں کاہلی کر جاتے ہیں جو اس وقت ہم باآسانی کر سکتے ہیں…… لیکن جب ہماری صحت جواب دے، تو تب احساس ہوتا ہے کہ ہماری کاہلی نے نہ صرف ہمیں بلکہ ہماری اولاد اور سماج کو کس قدر متاثر کیا ہے۔
لمحۂ موجود میں جینے والے ’’زوربا‘‘ کی شخصیت کو دیکھیں، تو ہمیں نظر آتا ہے کہ وہ جو کام بھی کرتا ہے، پوری دل جمعی سے کرتا ہے۔ مثلاً: اگر وہ لگنائیٹ کی کان پر کام کر رہا ہے، تو ہمیں نظر آتا ہے کہ وہ اُس میں پوری جان لڑا دیتا ہے۔ مالک سے زیادہ اُس کو فکر مند اور کام کرتا ہوا ہم پاتے ہیں۔ جب وہ شراب نوشی کرتا ہے، تو ہمیں نظر آتا ہے کہ اُس نے اپنے آپ کو مکمل طور پر شراب کے نشے میں گم کر دیا ہے۔ جب وہ ’’بابولینا‘‘ کے پاس ہوتا ہے، تو ہمیں لگتا ہے کہ اُس کی زندگی میں عورت کے سوا کچھ ہے ہی نہیں۔
’’زوربا‘‘ بتاتا ہے کہ وہ کل کا نہیں سوچتا کہ کل کیا ہو گا…… اُس کی نظر فقط اس بات پر ہے جو ابھی ہو رہی ہے۔ یہ سوچ ہمیں دور اندیشی کے خلاف لگتی ہے…… لیکن دوسری جانب یہ اس سے متضاد نہیں۔ یہ سوچ بتاتی ہے کہ آپ اپنے حال کو بہترین انداز میں استعمال کریں، تاکہ یہ آگے بھی ہمیں کام آئے۔
ایک جگہ ’’زوربا‘‘ کہانی ساز کو بتاتا ہے وہ فوج میں بھی رہا ہے اور اُس نے وطن کی خاطر جنگ بھی لڑی ہے۔ اُس نے اُس جنگ میں ایک بستی جلائی جس میں کئی بے گناہ لوگوں کو قتل کیا۔ وطن کی خاطر اُس نے ایک ایسی عورت کو بھی قتل کیا، جس نے اُس کو پناہ دی تھی۔ اُس نے بہت بے رحمی سے لوگوں کی بستیاں اُجاڑی تھیں۔ اُس قتل و خون کے بعد اُس کو احساس ہوا کہ یہ وطنیت کس قدر بے رحم نظریہ ہے۔ ملک کی خاطر دوسرے ملک کے باشندوں کو دشمن گردانا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ آپ کے سامنے ہتھیار اُٹھا کر بھی نہ آئیں، جن کو ہم جانتے بھی نہ ہوں، جو آپ کی طرح انسان ہوں۔ ایسے لوگوں کو ملک کے فرق کی خاطر ہم دشمن مانتے ہیں اور اُن کو بے دردی سے مار ڈالتے ہیں۔
اُس قتل کے بعد ’’زوربا‘‘ کو وطن پرستی کے تصور سے گھن آنے لگتی ہے۔ وہ فوج سے بھی بھاگ جاتا ہے۔ یہ ایک پیچیدہ موضوع ہے جو کہ ’’زوربا‘‘ نے چھیڑا ہے ۔ وطن کی محبت ایک انسان کی فطرت میں ہوتی ہے، لیکن محض سرحدوں کے مختلف ہونے پر کوئی ہمارا دشمن کیسے بن جاتا ہے؟ یہ وطنیت کے تصور کا ایک مشکل سوال ہے اور یہ سوال وہاں جنم لیتا ہے، جب آپ کے ملک کے عزائم جارحانہ ہوں یا پھر آپ کے پڑوسی کے۔ یہ جارحانہ اور توسیع پسندانہ عزائم انسانی زندگی کے لیے ایک بھیانک خواب ہیں۔ یہ اُس کا سکون برباد کر دیتے ہیں۔ یہ اُس کے اندر ایک خیالی دشمن اور پھر اُس کے اندر نفرت کے جذبات پیدا کرتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی ہمیں زوربا کے ماضی میں نظر آتا ہے۔ جب وہ اُس کی خاطر دوسرے ملک کے لوگوں کو مارتا ہے اور اُن کی بستیوں کو آگ لگاتا ہے۔
ایک جگہ ’’زوربا‘‘ اپنا واقعہ بیان کرتا ہے کہ اُس نے پیڑ کی ایک چھال کی ایک کویا سے تتلی باہر آنے کی کوشش کر رہی تھی، تو اُس کو تھوڑی دیر لگی، تو زوربا نے پھونک ماری۔ کویا کا منھ کھل گیا اور تتلی رینگتے ہوئے باہر آئی۔ زوربا نے دیکھا کہ اُس کے پر مڑے ہوئے تھے۔ وہ اُڑ نہیں سکتی تھی۔ کیوں کہ وہ ’’زوربا‘‘ کی پھونک سے انڈے سے وقت سے پہلے باہر نکل آئی تھی، لیکن ابھی اُس کے اعضا کی نشو و نَما مکمل نہیں ہوئی تھی۔ اس واقعے سے ’’زوربا‘‘ کہتا ہے کہ مَیں نے سیکھا کہ ہمیں قدرت کے اُصولوں کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہیے۔ جلد بازی ہمیں نقصان پہنچا سکتی ہے۔ قدرت نے کچھ چیزوں کا وقت رکھا ہوتا ہے۔ ہم انسان جلد بازی میں گھبرا کر اُن کو جلد طلب کرتے ہیں اور قانونِ قدرت میں دخیل ہونے کی کوشش کرتے ہیں، تو اُس کے نتیجے میں ہمیں یا تو وہ چیز حاصل نہیں ہوتی، اگر مل بھی جائے، تو اس میں کئی مسائل ہوتے ہیں۔ انسان ہو یا جانور، پرندے ہوں یا پودے…… ایک مقررہ وقت کے تحت اُن کی نشو و نَما ہوتی ہے۔ اُن کی پیدایش کا ایک قانون ہے اور پھر ایک وقت ہے۔ اگر یہاں جلد بازی کی جائے، تو وہ چیز جان سے چلی جاتی ہے۔
ایسے ہی کہا جاتا ہے کہ وقت بہت بڑا مرہم ہے۔ کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں، جب وہ رونما ہوتے ہیں، تو ہمارا رویہ جذباتی ہوتا ہے۔ ہم اُن کا گہرائی سے تجزیہ نہیں کرتے، لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ ہم جب اُن پر غور کرتے ہیں، تو پتا چلتا ہے کہ کئی اہم باتیں ہم نے نظر انداز کر دیں۔ اس لیے ہمیں کسی بھی معاملے پر فوری رائے قائم کرنے کی بجائے صبر سے کام لینا چاہیے، تاکہ ہم اُس کے محرکات کو سمجھ سکیں اور اُس کے اوپر حقیقت پسندانہ نظر ڈال سکیں۔
ایک جگہ ’’زوربا‘‘ کی کہیں لڑائی ہوتی ہے، تو ’’زوربا‘‘ اُس پر کافی غصے اور اضطراب کا شکار ہوتا ہے۔ بالآخر وہ پہاڑ پر چڑھتا اور اُترتا ہے اور اپنے آپ کو تھکاتا ہے۔ تب جا کر اس کو نیند آتی ہے۔ یہاں مجھے عمران خان کی بات یاد آئی۔ اُنھوں نے ایک بار کہا تھا کہ ’’جب آپ پریشان ہوں اور کسی ٹینشن میں ہوں، تو ورزش اور نماز بہترین حل ہیں۔‘‘
’’زوربا‘‘ جیسے جیسے اپنے تجربات کہانی ساز کو بتاتا رہتا ہے، کہانی ساز ’’زوربا‘‘ کا دیوانہ ہوتا جاتا ہے۔ اس کے تجربات کے آگے کہانی ساز کو اپنا علم، جو اُس نے کتابوں سے حاصل کیا ہے، بہت تھوڑا اور ناکافی نظر آتا ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ ’’زوربا‘‘ اُس کو ایک نئی دنیا سے روشناس کروا رہا ہے جو کہ کتابوں سے نہیں، بلکہ سفر کر کے اور تجربات کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ وہ آپ کو زندگی کو ایک اور انداز میں دیکھنے کی دعوت دیتے ہیں۔بالآخر کچھ عرصے بعد ’’زوربا‘‘ اور کہانی ساز کے درمیان جدائی کا وقت آتا ہے۔ جب کہانی ساز اپنی دکان بند کرتا ہے، تو اُس وقت ’’زوربا‘‘ کافی پریشان بھی ہوتا ہے اور انسانی زندگی کا ایک اور معمہ ذکر کرتا ہے کہ آدمی ملتے ہیں اور پھر جب وہ آپ سے جدا ہوجائیں، تو آپ اُن سے محبت کی بے سود کوشش کرتے ہیں، لیکن کچھ عرصے بعد آپ کو یاد بھی نہیں رہتا کہ اُن کی آنکھیں بھوری تھی یا کالی……!
یہاں مجھے میاں محمد بخش صاحب کا وہ مصرعہ یاد آیا
جناں بنا اک پل سی نہ لنگدا
اوہ شکلاں یاد نہ رہیاں
مطلب، جن لوگوں کے بغیر ایک لمحہ تک نہیں گزرتا تھا، اب اُن کی شکل تک یاد نہیں رہی۔
اس کو آپ انسانی زندگی کا معمہ کہیں یا پھر حسن…… کہ زندگی کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے وہ بہت سی باتیں بھول جاتا ہے۔
ہمارے بچپن سے لے کر آخری عمر تک کتنے لوگ زندگی کا حصہ بنتے ہیں، جن سے ہماری دوستی ہوتی ہے، لیکن حالات کی گردش کے تحت ہمارا رابطہ قائم نہیں رہتا، تو ہمیں ہمارے ذہن سے ان لوگوں کی یادیں محفوظ نہیں رہتیں۔
ہمارے کتنے دوست بنے، مگر جن سے رابطہ قائم نہ رہا، تو اُن سے جڑی اکثر باتیں بھی ہمارے ذہن سے محو ہوجاتی ہیں۔ ایسے ہی ہمارے رشتے دار جو ہم سے جدا ہوں، وقت کے ساتھ ہمارے ذہن میں بھی اُن کا خیال کم ہوتا رہتا ہے۔ اَب تو کبھی قبرستان جانا ہو، تو پھر یاد آتا ہے اور ذہن پر زور ڈال کر ان کے حوالے سے یادیں تازہ کی جاتی ہیں۔
’’زوربا‘‘ بعد میں بھی اپنے بارے میں کہانی ساز کو خبریں دیتا رہتا ہے۔ وہ ایک اور بیوہ سے شادی کرتا ہے۔ وہ ایک پاشا کے ہاں کام کرتا ہے، بعد میں وہ ایک جگہ کان کا مالک بن جاتا ہے۔ کچھ عرصے بعد ایک سکول ماسٹر کا خط کہانی ساز کو ملتا ہے جس میں ’’زوربا‘‘ کی موت کی اطلاع ہوتی ہے اور اُس میں ’’زوربا‘‘ نے کہانی ساز کو بتایا ہوتا ہے کہ مرتے وقت اُس کے حواس سلامت تھے اور اُس کو اپنے کیے کا کوئی افسوس نہیں۔
پھر کہانی ساز ’’زوربا‘‘ کے گھر جاتا ہے، جہاں اُس کی بیوی اُسے بتاتی ہے کہ وہ اس کو بہت یاد کرتا تھا اور اُس نے کہا تھا کہ اگر تم آؤ، تو اس کی سنتوری تمھارے حوالے کر دوں۔
سنتوری کا ذکر ’’زوربا‘‘ کے پہلے تعارف سے شروع ہوتا ہے۔ ’’زوربا‘‘ نے سنتوری ایک ترک استاد راشد آفندی سے بلا وجہ سیکھی ہے۔ یہ سنتوری ’’زوربا‘‘ کا شوق ہے۔ وہ کہانی ساز کو بتاتا ہے کہ سنتوری سیکھنے کے بعد وہ ایک مختلف انسان بن گیا ہے۔ جب وہ اُداس ہوتا ہے تو سنتوری بجاتا ہے۔ کہانی ساز کہتا ہے کہ مجھے تم کبھی کبھار سنتوری بجا کر سنانا، تو ’’زوربا‘‘ کہتا ہے کہ وہ اُس کی مرضی سے سنتوری نہیں بجائے گا۔ اسے بجانے کے لیے ایک خاص کیفیت کی ضرورت ہے، اگر اُس کی طبیعت میں وہ کیفیت آئی، تو بجائے گا۔
وہ اپنے مالک کو بتاتا ہے کہ سنتوری بجانے میں وہ اُس کے حکم کا پابند نہیں۔ اس کے لیے وہ اپنی طبیعت کا پابند ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ سنتوری بجانے کے لیے دل صاف ہونا چاہیے۔ مطلب اُس میں کسی اور یاد کو نہیں ہونا چاہیے۔ اگر آپ کی بیوی سے لڑائی ہوئی ہو، یا آپ کے بچے بھوکے ہوں، تو آپ کبھی سنتوری نہیں بجا سکتے۔
جیسے زوربا کی سنتوری کے حوالے سے سوچ ہے، کچھ ایسا ہی معاملہ ہر شوق سے ہے۔ ہم اپنا شوق ایک خاص کیفیت میں پورا کرسکتے ہیں۔ اگر آپ کے دل میں گھریلو یا پھر دیگر مسائل کی بابت پریشانی ہو، یا پھر کسی خاص وجہ سے خوشی ہو، تب بھی آپ اپنے شوق کی تکمیل نہیں کرسکتے۔ مثلاً: اگر کسی کو کتاب پڑھنے کا شوق ہے، تو وہ کتاب کو اُس وقت ہی صحیح پڑھ سکتا ہے، جب وہ پریشانیوں سے صرفِ نظر کرے۔ ورنہ کتاب پڑھنے کے دوران میں وہ پریشانی آپ کے دماغ میں حائل ہوتی ہے۔ ایسے ہی خوشی کے موقع پر بھی ایک خاص کیفیت ہوتی ہے، جس میں آپ اپنے شوق سے تھوڑا دور ہوتے ہیں۔ ہر شخص کی طبیعت مختلف ہوتی ہے اور اُس کا شوق اُس کی مطابقت سے بدلتا رہتا ہے۔
آخر میں کہانی ساز ’’زوربا‘‘ سے حاصل ہونے والی گفت گو اور اس کے اقوال کو نقل کرنے کا ارادہ بناتا ہے۔ تاکہ اس کی دانش کو محفوظ کر سکے اور یہ کام ’’زوربا‘‘ کو ایک نیا جنم دے گا۔ یہ بہت اہم بات ہے۔
ہماری مقامی اور علاقائی دانش کے ساتھ یہ المیہ ہوا کہ یہ کتابی صورت میں نقل نہیں ہوپائی۔ یہ سینہ بہ سینہ تو منتقل ہوتی ہے، مگر اس میں بہت سی باتیں رہ جاتی ہیں۔ ایسے ہی بہت سے زرخیز ذہن کے لوگوں کا بھی حال یہ ہوتا ہے کہ وہ کوئی چیز لکھ نہیں پاتے اور اُن کی بہت سی قیمتی باتیں اُن کے ساتھ دفن ہو جاتی ہیں۔ یہ اُن کی محفل میں موجود لوگوں اور ان کے رابطہ کاروں کی ذمے داری ہوتی ہے کہ اس خزانے کو محفوظ کریں۔ ہمارے ہاں صوفیا کے ملفوظات کو نقل کرنے کی روایت موجود ہے۔ بہت سے صوفیا اور بزرگوں کے احوال رقم ہونے سے رہ بھی گئے، جب کہ کچھ کی باتیں ہم تک اُن کے فیض یافتہ لوگوں کے ذریعے پہنچ گئیں۔ یہاں کہانی ساز کے کردار کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کی ذمے داری کیا ہے اور اُن کا وجود کس قدر ضروری ہے کہ یہ اُن لوگوں کی دانش سے باقی دنیا کو روشناس کرائیں، جو اپنی بات کو از خود محفوظ نہیں رکھ سکتے۔
ہمارے ہاں تقریباً ہر شعبۂ زندگی میں چاہیے وہ کھیل ہو یا سیاست، مذہب ہو یا معاشرت، گاؤں ہو یا شہر…… ایسے لوگ پائے جاتے ہیں، جن کی باتیں بہت اہم اور قابلِ غور ہوتی ہیں، مگر یا تو اُن کے پاس وقت نہیں ہوتا کہ وہ لکھ سکیں یا پھر کوئی اور وجوہات ہوتی ہیں، جس سے وہ باقی دنیا کو اس بارے میں نہیں بتا پاتے…… لیکن اُن سے تعلق رکھنے والے ایسے لوگ ہوتے ہیں، جو یہ کام کرسکتے ہیں۔ یہاں بھی کہانی ساز ’’زوربا‘‘ کے تجربات سے حاصل ہونی ولی دانش کو قلم بند کرتا ہے اور ’’زوربا‘‘ کو باقی دنیا سے متعارف کراتا ہے۔
مجموعی طور پر ایک دلچسپ کتاب ہے، مگر ایسا نہیں کہ ’’زوربا‘‘ کی ساری باتوں سے اتفاق کیا جائے۔ بالخصوص اس کے مذہب یا پھر عورت کے بارے میں کہی ہوئی باتیں ان سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے علاوہ بھی متعدد جگہ پر آپ کو ’’زوربا‘‘ کا کردار کم زور نظر آتا ہے، لیکن اس کی کہی بہت سی باتیں یاد رکھنے والی اور قابلِ غور ہیں۔
آخر میں ترجمے کے حوالے سے اتنا ہی کہوں گا کہ مخمور جالندھری کا اس سے پہلے کنوٹ ہامسن کے لکھے ’’بھوک‘‘ کا ترجمہ پڑھا، جس کو جہلم بک کارنر نے ہی شائع کیا۔ ترجمے کا فنی لحاظ سے مقام پر بات کرنے کا مَیں اہل نہیں، یہ ماہرین کا کام ہے…… مگر بطورِ قاری یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ آپ کوئی ترجمہ نہیں پڑھ رہے بلکہ یہ کتاب لکھی ہی اُردو میں گئی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے