تحریر: یاسر رضا آصف
یہ سفری روداد مشہور چینی سیاح اور بدھ کے پیروکار فاہیان کے ہندوستانی سفر پر مشتمل ہے…… جسے تاریخی سفری دستاویز کہا جائے، تو مبالغہ نہ ہو گا۔ فاہیان پہلا چینی سیاح تھا، جس نے برصغیر کی دھرتی پر قدم رکھا۔
فاہیان کی پیدایش کے متعلق دو روایات ہیں:
پہلی روایت میں 334ء درج ہے۔ جب کہ دوسری روایت میں 337ء ملتی ہے اور اسی طرح وفات 420ء اور 422ء عیسوی کی بتائی جاتی ہے۔
فاہیان بدھ مت کا قانون سیکھنے اور مہاتما بدھ کے آثار دیکھنے،399 عیسوی میں 65 سال کی عمر میں چین سے روانہ ہوئے۔ جب سفر کے ذرائع بہت محدود اور تکلیف دہ ہوتے تھے۔ روانگی کے وقت اُن کے ساتھ دس لوگ تھے…… جن میں ’’موئے جینگ‘‘، ’’داؤ چھنگ‘‘، ’’موئے ینگ‘‘ اور ’’ہوئے وئے‘‘ قریبی دوست اور شاگرد تھے۔ بعض کو بیماری نے آن پکڑا اور بعض کو موت ساتھ لے گئی اور صرف واحد اُستاد فاہیان اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے۔
فاہیان پہاڑی علاقے کو پار کرتے ریگستان سے گزرے اور برصغیر میں موجودہ افغانستان میں داخل ہوئے۔وہاں سے مہاتما بدھ کے مندروں میں مہاتما کے قوانین کی کتابوں کو نقل کیا۔ اِس کے لیے اُنھوں نے پہلے زبان بھی سیکھی۔ سنسکرت آسان زبان نہیں، مگر اپنی لگن کی بدولت حیران کن طور پر سیکھ گئے۔ اس طرح آگے بڑھتے گئے۔ کتابیں حاصل کرتے گئے۔ وہ موجودہ پاکستان، مشرقی پنجاب، اُتر پردیش اور بنگلہ دیش کے علاقوں تک گئے۔ پھر کشتی کے ذریعے سری لنکا بھی پہنچے اور بالآخر سمندری راستے سے واپس پہنچے۔ سنسکرت کی کتابوں کا چینی زبان میں ترجمہ کیا۔ اپنے تجربات اور مشاہدات پر مشتمل کتاب بھی لکھی…… جسے ’’بدھ مت کے ملکوں کی روداد‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔
فاہیان کا مکمل سفر 30 ممالک پر مشتمل ہے، مگر اِس کتاب میں صرف برصغیر کی روداد شامل کی گئی ہے۔
چین میں بدھ مت کی تعلیمات سے روگردانی عام ہونے لگی۔ مذہب کی شکل و صورت بدلنے لگی، تو مجبوراً فاہیان کو یہ سفر اختیار کرنا پڑا۔ فاہیان نے سنہ 400 عیسوی کے لگ بھگ برصغیر کو جیسا دیکھا اور جو کچھ محسوس کیا، وہ نہایت دلچسپ ہے۔
یہ سفرنامہ برصغیر کی رسومات، عقائد، رہن سہن اور معاشرت کی قدیم تصویر پیش کرتا ہے۔
اگر فاہیان کے سفرنامے کی رُو سے دیکھا جائے، تو آج بھی غربت کے مسائل، جذبات کی شدت اور انسانی رویوں کے اعتبار سے یہاں کے عوام میں کچھ بدلاو نہیں آیا۔ یہ روداد پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ چہرے بدلے ہیں، مگر ناانصافی اور استحصال کا نظام ویسے ہی رائج ہے۔
اس سفری روداد کوچینی زبان سے اُردو کے قالب میں ڈھالنے کا سہرہ یو آن وئے شوئے کے سر جاتا ہے…… جنھوں نے اُردو زبان کو سیکھا، سمجھا اور پڑھا۔ وہ پاکستان میں چینی سفیر رہے۔ اُنھوں نے کئی کتابوں کو چینی زبان میں ڈھالا۔ اُن میں قابلِ ذکر ’’اُداس نسلیں‘‘ اور’’زمیں‘‘ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ عبارت کا اُسلوب عمدہ اور رواں ہے۔ اگر کسی نے برصغیر کا تاریخی چہرہ دیکھنا ہو اور یہاں کے قدیم معاشرے سے ملنا ہو، تو پھر اُسے ضرور یہ سفر نامہ پڑھنا چاہیے۔
یعنی سفری روداد کے علاوہ بھی اس میں بہت کچھ ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
