فلسفہ کی تاریخ (چودھواں لیکچر)

تحریر و ترتیب: میثم عباس علیزئی
(’’فلسفہ کی تاریخ‘‘ دراصل ڈاکٹر کامریڈ تیمور رحمان کے مختلف لیکچروں کا ترجمہ ہے ۔ یہ اس سلسلے کا چودھواں لیکچر ہے، مدیر)
٭ پرمینیڈیز (Parmenides):۔ پرمینیڈیز کو مابعد الطبیعات (Metaphysics) کا استاد کہا جاسکتا ہے۔ وہ پانچوی صدی میں پیدا ہوتا ہے۔ مکمل طور پر اس کی پیدایش اور وفات کا نہیں پتا، مگر وہ اٹلی کے ایک شہر ’’ایلیا‘‘ (Elea) میں پیدا ہوتا ہے۔
پرمینیڈیز کا ’’ایلیا‘‘ شہر کی سیاست میں بھی بڑا کردار رہا ہے اور ’’ایلیا‘‘ کے بہت سے قوانین پرمینیڈیز نے خود لکھے۔
پرمینیڈیز پر ’’زینوفینز‘‘ کی تھیری (Theory) اور سوچ کا ایک بڑا اثر تھا۔ مثال کے طور پر پرمینیڈیز نے اپنی کتاب کا عنوان "On Nature” رکھا، جو بالکل زینوفینز کے کتاب کا بھی عنوان تھا اور پرمینیڈیز بھی زینوفینز کی طرح اپنی تھیری شاعری میں پیش کیا کرتا تھا۔
پرمینیڈیز کی سوچ اور فکر کو سمجھنے کے لیے شاید ہمیں نتیجے سے شروع کرنا چاہیے اور بعد میں ان کی منطق سمجھنی چاہیے۔
٭ مونزم (Monism):۔ پرمینیڈیز یہ کہتا تھا کہ یہ جو ساری کائنات ہے، اس کے اندر جو مادہ ہے، تمام چیزیں ایک ہیں یعنی وہ ایک قسم کا ’’مونسٹ‘‘ (Monist) تھا۔
دوسری بات یہ کہ یہ کائنات ہمیشہ سے تھی اور ہمیشہ رہے گی۔ یہ نہیں کہ وہ کسی وقت پیدا ہوئی۔ یونانی معاشرے میں یہ ایک عام فہم تھی کہ دنیا اور کائنات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ تک رہے گی۔
تیسری بات یہ کہ وہ مکمل طور پر "Uniform” ہے۔ اُس کے اندر کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی اور کوئی تبدیلی ممکن نہیں……اور آخری بات یہ کہ وہ لازم (Necessary) ہے۔
کس طرح پرمینیڈیز اس نتیجے تک پہنچا کہ کائنات میں سب چیزیں جو ہیں وہ ایک ہیں، وہ ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گی۔ وہ لازم ہیں، "Uniform” ہیں اور اس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔
٭ دو متضاد قوتیں (Unity of Opposites):۔ سب سے پہلے ہم نے ذکر کیا کہ اینیگزیمینڈر کا خیال تھا کہ دنیا میں دو متضاد قوتیں (Opposites) ہوتی ہیں۔
پرمینیڈیز نے بھی اِس نکتے سے شروع کیا۔ اُس نے کہا کہ سب سے اہم جو متضاد قوتیں (Opposites) ہیں، وہ "Being” اور "Non Being” ہیں، یعنی وہ چیز جوکہ ہے اور وہ چیز جو نہیں، اُن دو قوتوں کے درمیان تعامل (Interaction) کے نتیجے میں تبدیلی آتی ہے۔
اب جو ہے جو "Being”ہے، اُس کے بارے میں ہم جان سکتے ہیں۔ کیوں کہ "Being” کی کوئی نہ کوئی خصوصیت ہوگی۔ کوئی بھی خصوصیت ہو، مادے کی کوئی نہ کوئی خصوصیت ہوتی ہے۔ کیوں کہ وہ وجود رکھتا ہے اور جو "Non Being” ہے، جو چیز ہے ہی نہیں، اُس کی کوئی خصوصیت نہیں ہو سکتی۔ کیوں کہ وہ ہے ہی نہیں…… اور جو چیز ہے ہی نہیں، اُس کے حوالے سے ہم کیا بات کر سکتے ہیں…… کہ اس کا رنگ کیا ہے، اس کا سائز کیا ہے، کتنی وہ بڑی ہے، کتنی چھوٹی ہے؟ اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ کیوں کہ وہ ہے ہی نہیں۔
اس سے پرمینیڈیز نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ صرف اور صرف وہ چیز ہے، جو ہے…… جو چیز نہیں ہے، وہ ہے ہی نہیں۔ اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ لہٰذا جو کچھ ہے، وہ صرف "Being” ہے۔
"The only thing which exist us being.” یعنی اس دنیا میں خلا کہیں پر بھی ممکن نہیں۔
دوسری بات یہ کہ جو چیز ہے ہی نہیں، وہ چیز نہیں پیدا کرسکتی، جو ہے۔
Nothing comes from nothing.
یہ صرف پرمینیڈیز کا خیال نہیں تھا، بلکہ یونانی معاشرے میں یہ عام بات تھی کہ جو چیز ہے ہی نہیں، وہ کسی چیز کو جنم نہیں دے سکتی جو کہ ہے۔ لہٰذا جو بھی چیز وجود رکھتی ہے، جو حقیقت ہے، جو "Cosmos” ہے، جو کائنات ہے، وہ ہمیشہ ہوگی۔ کیوں کہ وہ "Nothing” میں سے پیدا نہیں ہوسکتی۔ اور جو چیز ہے، اُس میں تبدیلی بھی ناممکن ہے۔ اس میں تبدیلی نہیں ہوسکتی۔
پرمینیڈیز نے اپنے آپ کو بالکل ہیرا کلائٹس کے اُلٹ کھڑا کر دیا۔ ہیرا کلائٹس کے مطابق ہر چیز تبدیل ہورہی ہے۔
پرمینیڈیز نے کہا کہ تبدیلی ناممکن ہے۔ کیوں کہ تبدیلی صرف اُس صورت میں ممکن ہوسکتی ہے کہ جو چیز ہے، وہ جب تبدیل ہوتی ہے، تو وہ وہ چیز بن جاتی ہے، جو پہلے نہیں تھی۔ یعنی کہ تبدیلی ہمیشہ "Being” اور "Non Being” کے تعامل (Interactions) کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔
پہلے اگر مَیں اِس لمحے میں ہوں، تو اگلے لمحے میں جو بن جاؤں گا وہ اِس لمحے میں نہیں ہوں۔ جو اگلے لمحے میں بن جاؤں گا، وہ اُس لمحے میں تو ہے ہی نہیں…… تو جو چیز ہے ہی نہیں، یعنی پرمینیڈیز نے پہلے ہی کَہ دیا کہ جو چیز سرے سے ہے ہی نہیں، اُس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا اور جو چیز ہے ہی نہیں، اُس سے ایسی کوئی چیز پیدا نہیں ہو سکتی جو کہ ہے۔
لہٰذا اگر تبدیلی جو ہے وہ "Existence” اور "Non Existence” کے درمیان تعامل کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ مطلب جو چیز ہے اور جو چیز نہیں ہے، اُس کے درمیان تعامل کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے، تو جو چیز نہیں ہے، وہ ہے ہی نہیں۔ لہٰذا تعامل ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا تبدیلی ہو ہی نہیں سکتی۔
دوسرے الفاط میں پرمینیڈیز نے یہ کہا کہ ہیراکلائٹس بالکل غلط کَہ رہا ہے۔ اِس دنیا میں قطعی طور پر کسی بھی قسم کی کوئی تبدیلی ہے۔
پھر اُس نے یہ بات کی کہ کہیں پر بھی کسی قسم کا خلا موجود نہیں۔ خلا بذاتِ خود "Non Being” کو کہا جاتا ہے، وہ چیز جو کہ نہیں ہے۔ ہم پہلے کَہ چکے ہیں کہ جو چیز نہیں ہے، وہ تو نہیں ہے۔ لہٰذا خلا بھی نہیں ہوسکتی۔
پرمینیڈیز کہتا ہے: "You could not know what is not, nor can you say what cannot be thought cannot exist. Since we cannot think of nothing therefore there can be no void or vacuum.”
جس چیز کا کوئی تصور نہیں رکھا جا سکتا، وہ چیز حقیقت میں وجود ہی نہیں رکھ سکتی۔ جو چیز ہے ہی نہیں، اُس کے حوالے سے ہم کوئی تصور نہیں رکھ سکتے۔ کیوں کہ اُس کی کوئی خصوصیت نہیں۔
اب مَیں ڈھیر ساری چیزوں کے بارے میں تصور نہیں رکھتا جو کہ ہیں۔ مثال کہ طور پر آپ جو تحریر پڑھ رہے ہیں، جو یہ تحریر پڑھ رہے ہیں، مجھے اُن کی شکل کے حوالے سے کوئی تصور نہیں، مگر یہ تو ایک حقیقت ہے کہ آپ وہاں پر بیٹھے ہیں، چاہے آپ کے بارے میں تصور ہے یا نہیں، تو پھر پرمینیڈیز کا کیا مطلب تھا کہ جس چیز کا کوئی تصور نہیں رکھا جاسکتا، وہ وجود ہی نہیں رکھتی۔
لیکن دراصل وہ کسی فرد کے دماغ کی بات نہیں کر رہا تھا۔ وہ اس "Universal Intelligence” کی بات کر رہا تھا، جس کو "Nous” کہا جاتا ہے، جس کی ہم اگلی اقساط میں وضاحت کریں گے…… یعنی جس چیز کا کوئی تصور نہ رکھ سکے، وہ چیز وجود ہی نہیں رکھتی۔ کیوں کہ وہ چیز کوئی وجود اور خصوصیت نہیں رکھتی۔
٭ کثرت (Multiplicity):۔ پرمینیڈیز یہ کہتا ہے کہ "Multiplicity” بالکل ناممکن چیز ہے۔ تمام چیزیں ایک ہیں۔ اُن کے اندر مختلف شکلیں اختیار نہیں کی جاسکتیں۔ کیوں کہ ایک ہی چیز کی جب مختلف شکلیں ہوں گی، تو پھر اِس کا مطلب ہے کہ ایک چیز دوسری شکل میں تبدیل ہوئی ہوگی، تبھی وہ مختلف شکلیں اختیار کر چکی ہے۔ لہٰذا ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں کہ جو چیز ہے، اور جو چیز نہیں ہے، اُن کے درمیان تعامل کے نتیجے میں تبدیلی آتی ہے…… اور چوں کہ جو چیز نہیں ہے، وہ ہے ہی نہیں، لہٰذا تعامل نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ چوں کہ تبدیلی نہیں ہوسکتی، تو کثرت یعنی "Multiplicity” بھی نہیں ہوسکتی۔
ہر چیز ایک ہی ہوگی، ایک ہی قسم اور ایک ہی شکل کی۔
اب جب دنیا میں ہم دیکھتے ہیں، تو ہمیں تو ڈھیر ساری مختلف چیزیں نظر آتی ہیں۔ ہمیں تبدیلی بھی نظر آتی ہے۔ کبھی خلا بھی نظر آتا ہے۔ ہمیں چیزوں میں پیدایش اور موت بھی نظر آتی ہے۔ چیزیں ختم ہوتی ہیں۔ مختلف شکلیں اختیار کرلیتی ہیں، تو پرمینیڈیز کس طرح اس بات کو سمجھائیں گے کہ دنیا کے اندر ہمیں اتنی ساری تبدیلی کیسے نظر آرہی ہے؟
پرمینیڈیز نے یہ کہا کہ یہ تمام چیزیں جو ہیں، وہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور اپنے حواس سے محسوس کر رہے ہیں اور یہ تمام حواس ہمیں دھوکا دے رہے ہیں۔
کیوں دھوکا دے رہے ہیں؟ کیوں کہ ہم استخراجی منطق (Deductive Logic) سے یہ نتیجہ اخذ کرچکے ہیں کہ جو چیز نہیں ہے، اُس کی کوئی خصوصیت نہیں۔ لہٰذا وہ ہے ہی نہیں۔ لہٰذا جو کچھ ہے، وہ ایک ہوگا۔ ہمیشہ سے ہوگا۔ جو چیز ہے، وہ لازم ہوگا۔ جو ہے اُس میں کوئی "Multiplicity” یعنی کثرت نہیں ہوگی۔ جو چیز ہے، اُس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ لہٰذا جب تمام چیزیں ایک ہیں، جب ہم استخراجی منطق سے ثابت کر چکے ہیں، تو جو چیز بھی ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، جو بھی ہم اپنے حواس سے سمجھ رہے ہیں، وہ سب ایک دھوکا "Illusion” ہے، ایک خواب ہے، یہ غلط ہے ۔
٭ پرمینیڈیز کی تھیری کا مقصد:۔ پہلے ہم نے ہیرا کلائٹس کے بارے میں ذکر کیا کہ ہیرا کلائٹس نے ہمیں ’’فلَکس تھیری‘‘ دی تھی۔ اس نے ہمیں کہا تھا کہ ہر چیز تبدیلی کے عمل میں ہے۔ اگر ہر چیز تبدیلی کے عمل میں ہے، تو اُس کی ہم وضاحت یا تعریف نہیں کرسکتے۔ اس کے حوالے سے کچھ کَہ نہیں سکتے۔ کیوں کہ وہ ہر وقت تبدیلی کے عمل میں ہے۔
اب اگر مَیں یہ کہوں کہ یہ چیز لال رنگ کی ہے، تو ہیراکلائٹس جواب دے گا کہ وہ لال رنگ کی ہے بھی اور نہیں بھی۔ کیوں کہ اس لال رنگ میں تبدیلی آرہی ہے۔
اور اگر مَیں کہوں کہ فُلاں انسان زندہ ہے، تو وہ کہے گا کہ وہ زندہ بھی ہے اور مردہ بھی۔ اس لحاظ سے کہ اس کے خلیے (Cells) زندہ بھی ہیں اور مر بھی رہے ہیں۔ لہٰذا تبدیلی کے عمل میں ہیں۔
کسی بھی چیز کو آپ کسی بھی حوالے سے لے لیں۔ اُس کی آپ وضاحت نہیں کرسکتے۔ کیوں کہ جن صفتوں سے آپ اُس کی وضاحت کریں گے، وہ صفتیں تو مسلسل تبدیلی کے عمل میں ہیں۔ اگر تمام صفتیں تبدیلی کے عمل میں ہیں، تو کسی چیز کو کس طرح واضح کریں گے!
یہ بہت بڑا فکری چیلنج (Intellectual Challenge) بن گیا۔
پرمینیڈیز یہ سمجھتا تھا کہ اس چیلنج کا جو درست جواب ہے، وہ یہ ہے کہ ہیرا کلائٹس مکمل طور پر غلط کَہ رہا ہے۔ یہ تمام تبدیلی ایک خواب اور دھوکاہے۔
لہٰذا اصل میں جو حقیقت ہے، وہ بالکل ٹھہراو کے ساتھ ہے اور ہم اس کو سمجھ سکتے ہیں، اُس کی وضاحت کرسکتے ہیں، اُس کے بارے میں منطق رکھ سکتے ہیں۔
٭ فلسفہ کا دو حصوں میں تقسیم:۔
یہ جو تصور ہے، اِس کے نتیجے میں فلسفہ دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ ایک طرف وہ لوگ جو ہیرا کلائٹس کے ساتھ کھڑے تھے، جو کَہ رہے تھے کہ جو ہم اپنی نظروں سے دیکھ رہے ہیں، جو تبدیلی نظر آرہی ہے، یہ حقیقت ہے۔ اس کو سمجھنا اور سمجھانا ضروری ہے۔
دوسری طرف وہ لوگ جو پرمینیڈیز کے ساتھ کھڑے تھے اور سمجھ رہے تھے کہ جو ہم آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، سمجھ رہے ہیں، یہ حقیقت نہیں ایک خواب ہے، ایک دھوکا اور فریب ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس دھوکے کے پیچھے ایک مستحکم حقیقت ہے۔ ایک ایسی حقیقت جس میں کسی بھی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آرہی۔ لہٰذا ہم اس کو سمجھ سکتے ہیں۔
٭ اجتماعِ نَقیضَین(The principles of non contradiction):۔ مزید یہ کہ پرمینیڈیز نے اپنی پوری کی پوری تھیری اس بنیاد پر بنائی تھی، اس کو ہم کہیں گے ’’استخراجی منطق‘‘ (Deductive Logic) اس نے مکمل طور پر منطقی طور پر اپنی تھیری بنائی۔
اسے کوئی غرض نہیں تھا کہ دنیا کے اندر جو ہمیں آنکھوں سے نظر آرہا ہے، کانوں سے سنائی دے رہا ہے، دیگر حواس سے سمجھ رہے ہیں، اُسے اِن باتوں سے کوئی غرض نہیں تھا۔ وہ صرف یہ کہتا تھا کہ منطق کے اُصول ہمیں حقیقت تک پہنچا سکتے ہیں اور کوئی چیز نہیں…… اور وہ ایک اُصول وضع کرتا ہے، یعنی ’’اجتماعِ نقیضَین‘‘ (The principles of non contradiction) جس کی بعد میں افلاطون اور ارسطو مزید وضاحت کرتے ہیں۔ وہ ہم بعد میں پڑھیں گے۔ یعنی اجتماع نقیضَین محال (ناممکن) ہے، یعنی میں یہ نہیں کَہ سکتا کہ ایک چیز ہے بھی اور ساتھ میں وہی چیز نہیں بھی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ ناممکن بات ہے کہ آپ کہیں کہ کوئی چیز نہیں ہے اور وہی چیز ہے۔ یا تو کوئی چیز ہے، یا وہ نہیں ہے۔ دونوں چیزیں اکٹھا ممکن نہیں ہوسکتیں۔
جیسے اگر مَیں کہوں کہ میرے سامنے موبائل ہے بھی اور نہیں بھی ہے۔ یہ محال ہے، یعنی دونوں ساتھ میں درست نہیں ہوسکتے۔ ہونا اور نہ ہونا ساتھ میں اکھٹے نہیں ہوسکتا۔
اب دوسری مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔مثال کے طور پر، سوچیں کہ ہم دو عبارات پر غور کر رہے ہیں: ’’میرے پاس پاس سیب ہیں۔‘‘ اور ’’میرے پاس سیب نہیں ہیں۔‘‘ اگر یہ دونوں عبارات ایک ساتھ درست ہوں، یا دونوں غلط ہوں، تو یہ اجتماعِ نقیضَین کی صورت ہوگی، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوسکتا۔ یا تو آپ کے پاس سیب ہوں گے، یا نہیں ہوں گے۔ دونوں عبارات کے درمیان خلاف ورک ہے اور وہ ایک ساتھ درست نہیں ہوسکتے۔ یا تو "A” جو ہے، وہ ہے یا پھر نہیں ہے…… یعنی”A must be be equal to A or A is not equal to A. (A= A or AA) مگر دونوں چیزیں ممکن نہیں ہیں کہ (A=A) اور (AA) اس کو کہتے ہیں "The principles of non contradiction.”
پرمینیڈیز نے اِس کو ایجاد کیا، مگر اُس نے مکمل طور پر اِس کی وضاحت نہیں کی۔ مزید آگے آپ دیکھیں گے کہ اس کی وضاحت ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں "Metaphysical Principles of Logic” نکلیں گے، جس کا آگے ذکر ہوگا۔
بہرحال فلسفہ دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ وہ جو ہیراکلائٹس کی بات درست سمجھ رہے تھے کہ دنیا میں جو تبدیلی ہم آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، وہ واقعی حقیقت ہے…… اور وہ جو یہ کَہ رہے تھے کہ آنکھیں جو ہمیں دکھا رہی ہیں، وہ ایک دھوکا ہے۔ دنیا تبدیلی کے عمل میں نہیں، دنیا جو ہے وہ رُکی ہوئی ہے، ساکن ہے۔ اس میں کسی بھی قسم کی تبدیلی نہیں۔ باقی آیندہ!
اولین 13 لیکچر بالترتیب نیچے دیے گئے لنکس پر ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں:
1)  https://lafzuna.com/history/s-33204/
2)  https://lafzuna.com/history/s-33215/
3)  https://lafzuna.com/history/s-33231/
4)  https://lafzuna.com/history/s-33254/
5)  https://lafzuna.com/history/s-33273/
6)  https://lafzuna.com/history/s-33289/
7)  https://lafzuna.com/history/s-33302/
8)  https://lafzuna.com/history/s-33342/
9)  https://lafzuna.com/history/s-33356/
10) https://lafzuna.com/history/s-33370/
11) https://lafzuna.com/history/s-33390/
12) https://lafzuna.com/history/s-33423/
13) https://lafzuna.com/history/s-33460/
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے