آپ کے خیال میں دوسری جنگِ عظیم میں کساد بازاری، مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی کس لیول تک بڑھ گئی ہوگی اور اس کا تدارک حکومتوں نے کس طرح کیا ہوگا؟
فضل رازق شہابؔ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-raziq-shahaab/
میری پیدایش تو 1943ء میں ہوئی، مگر ہمارے سوات کے لوگوں نے اُس عالمی جنگ کے دوران میں جن مسائل کا سامنا کیا…… اور ریاستی انتظامیہ نے اس سے نمٹنے کے لیے جو اقدامت کیے، وہ حیران کن تھے۔
جس طرح برٹش انڈیا میں ’’راشننگ سسٹم‘‘ نافذ کیا گیا، اُ سی طرح ریاست کی حدود میں بھی تحصیل لیول تک کے انتظامی یونٹس میں ’’کنٹرول سسٹم‘‘ متعارف کیا گیا۔ برآمد شدہ اشیائے خور و نوش میں سے چینی اور ضروریات میں کپڑا اور مٹی کا تیل کنٹرول سسٹم سے ملنے لگا۔
یہ امر بھی حیران کن ہے کہ مٹی کے تیل یعنی ’’کیروسین آئل‘‘ کا 16 لیٹر والا کنستر سات روپے آٹھ آنے کے عوض ملتا تھا، جو ایک اوسط گھرانے کو روشن رکھنے کے لیے سال بھر کو کافی تھا۔ اگر آپ پرچوں میں خریدتے تو ایک لیٹر والابوتل بارہ آنے میں ملتا تھا۔ یہی ریٹ جنگ کے بعد بھی کئی سال تک چلتے رہے۔
جب مَیں بازار سے سودا سلف لانے کے قابل ہوا، تو روح افزا کی خالی بوتل رحم دل ماما کی دُکان سے 12 آنے میں لاتا۔ یہ تیل اتنا صاف شفاف ہوتا، جی چاہتا اسے پی لیا جائے۔
اُس وقت بھی بعض بد دیانت افسر غریبوں کا حق مارتے۔ ایک بہت بڑے صاحب کے بارے میں تو مشہور تھا کہ وہ درآمد کنندگان کو اجازت نامہ یا راہ داری دیتے وقت پیسے لیتا تھا،واللہ اعلم!
میری اس رام کہانی کا مقصد یہ ہے کہ آخر اس دوران میں کیا قیامت آگئی کہ مٹی کے تیل کا ساڑھے سات روپے والا کنستر پانچ ہزار تک پہنچ گیا۔ مانا کہ آبادی کئی گنا بڑھ گئی ہے، مگر استعمال بھی تو کم ہوا ہے۔
ایک تو ہم لوگوں نے خود اپنے لیے مسائل کھڑے کیے ہیں۔ پہلے ہمارے گھروں میں ایک نہانے کی جگہ مختص تھی۔ مرد اور لڑکے بالے اکثر چشموں وغیرہ پر جاتے۔ اب ہمارے ہاں غسل خانے نہیں، ’’واش روم‘‘ ہیں۔’’ٹٹی‘‘ یا ’’چار چوبئی‘‘ نہیں، جہاں پر حوائجِ ضروریہ سے فارغ ہونے کا بندوبست صرف ایک جھاڑو، ایک توت کے شاخوں سے بنائی گئی ٹھوکری، جسے ’’چارڑے‘‘ کہتے تھے، اور خشک مٹی کے ڈھیلے رکھے ہوتے۔ ان ٹٹیوں پر اکثر چھت بھی نہیں ہوتی تھی۔
بچے ذرا بڑے ہوتے، تو قریبی کھیتوں یا افسر آبادکی پہاڑی پر چلے جاتے، جس میں اگر سیکڑوں چلے جاتے، پھر بھی پرایویسی رہتی۔
یہ مَیں سیدو شریف کی یادیں بتا رہا ہوں۔ پکانے کے لیے مخصوص کمرے نہیں ہوتے تھے، جو سونے کا کمرا ہوتا، اُسی میں چولھے جلتے۔ سادہ برتن، سادہ کیتلی، بغیر کنڈی کے پیالے اورکئی پیوند لگے چینک۔
اب گھروں میں ’’کچن‘‘ ہے، ’’اوون‘‘ ہے، ’’گرائنڈر‘‘ ہے، ’’جوسر‘‘ ہے، ’’ڈنر سٹ‘‘ ہے، آٹا گوندھنے کے لیے مشین ہے، گیس ہے، چولھا جلانے کے لیے پستول ہے، بچے نوڈلز کھاتے ہیں، چپس کھاتے ہیں، کیچپ ہے، سویاں ختم، تیار سپاگیٹی پیک ملتے ہیں، اس میں چکن پیس اور شملہ مرچ ملا کر پکاؤ اور مزے اُڑاؤ۔
وہ بھی کیا دن تھے کیا زمانے تھے
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔