سوات کوہستان کے علاقہ بحرین میں ان دنوں ایک سادگی مہم بہت منظم انداز سے چل رہی ہے۔ اس مہم کی قیادت علاقے کے نوجوان علمائے کرام کر رہے ہیں۔ اس کا مقصد عوام کو غمی خوشی کے مواقع پر غیر ضروری رسومات ترک کرنے اور مسنون سادہ طریقے اپنانے کے لیے انھیں آمادہ کرنا ہے۔ اس کے لیے جگہ جگہ جرگے اور اجلاس ہو رہے ہیں، جن میں عوام اور علاقے کے سرکردہ افراد شریک ہوتے ہیں اور علمائے کرام کے ساتھ سادگی اپنانے کا عہد کرتے ہیں۔
انعام اللہ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/inam-ullah/
اس وقت ملک اپنی تاریخ کے شدید ترین معاشی بدحالی کے دور سے گزر رہا ہے۔ مہنگائی نے عام آدمی کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ ایسے میں غمی خوشی کے مواقع پر فضول اخراجات سے لوگ خود بھی بہت تنگ آچکے ہیں، لیکن مجبوری میں سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔ یہ اس لیے کہ رسم و رواج نبھاتے ہوئے اخراجات کے حوالے سے برادریوں کے درمیان ناک کا مسئلہ آڑے آتا ہے۔
سماجی بے عزتی سے بچنے کے لیے شادی بیاہ کے لیے لوگ سود پر پیسے لیتے ہیں، یا اپنی قیمتی جائیداد اُونے پونے بیچ دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں غریب سے زیادہ سفید پوش کو زیادہ سخت عذاب سے گزرنا پڑتا ہے۔ کیوں کہ اُن کا براہِ راست واسطہ معاشرے کے نودولتیوں سے ہوتا ہے۔ اگر علما لوگوں کو اجتماعی طور پر سادگی اختیار کرنے کے لیے تیار کریں، تو یہ بہت بڑی سماجی خدمت ہوگی۔
آج سے کوئی 20، 25 سال پہلے ہم نے بھی ایسی ہی ایک کوشش کی تھی۔ مقصد یہی تھا کہ اگر ہم عوام کو کچھ دے نہیں سکتے، تو کم از کم اُنھیں فضول اخراجات سے بچا تو سکتے ہیں۔ یہ بھی ایک طرح سے اُن کی مالی مدد ہوگی۔ وقتی طور پر اُس وقت کچھ تو فرق پڑا، مثلاً دلھن کو پالکی یا ڈولی میں بٹھانے کا رواج ختم ہوا۔ پالکی کے پیچھے پیچھے جہیز کا سامان اُٹھائے لوگوں کی قطار کی صورت میں نمایش اور ولیمے میں کھانا کھانے کے بعد دعوت نامے کا کارڈ نکال کر اُس کی جگہ لفافے میں رقم رکھ کر دینے کا رواج ختم ہوا۔
اُس وقت عوام نے سادگی مہم کو بہت سراہا تھا، لیکن کچھ لوگوں نے دلہن کی پالکی ختم کرنے پر یہ کَہ کر تنقید کی کہ پالکی ہماری ثقافت کا حصہ تھا اور یہ کہ اس میں دلہن کو پردے میں آرام سے بیٹھنا ہوتا تھا۔ حالاں کہ ایسا نہیں تھا۔ ڈولی محض مقامی رواج کا حصہ نہیں تھا، بلکہ باقی پٹھان علاقوں میں بھی اس کا رواج تھا۔ سجی سجائی ڈولی میدانی علاقوں میں دلہن کی پردہ داری کے لیے تو شاید ٹھیک تھی، لیکن ہمارے ہاں کے دشوار گزار پہاڑی راستوں اور پگڈنڈیوں پر اس کا کندھوں پر اٹھا کر لے جانا عذاب سے کم نہ تھا۔ خصوصاً جب لڑکی اور لڑکے کے گھر ایک دوسرے سے دور ہوتے تھے۔
حالیہ ’’سادگی مہم‘‘ علما کی قیادت اور سرپرستی میں ہو رہی ہے…… اور اس میں ساتال تا پشمال (بحرین کوہستان) کے ہر مکتب فکر کے نمایندہ علما حصہ لے رہے ہیں۔
ہمارے لوگ علمائے کرام کی بات کو احترام سے سنتے اور اس پر عمل کرتے ہیں۔ اگر عوام نے علما کے 26 نِکاتی پروگرام پر من و عن عمل کیا، تو اس سے خود ان کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا ہوں گی۔ خصوصاً شادی بیاہ کے غیر ضروری اخراجات کی رقم کسی چھوٹے موٹے کاروبار میں لگائی جائے، تو نئے جوڑے کی ازدواجی زندگی سکون سے گزر جائے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔