مطلق العنانیت کے زیرِ اثر جینے والوں میں سے اکثر خود بھی مطلق العنان بن جاتے ہیں۔ صرف اختیار ملنے کی دیر ہوتی ہے۔ یہاں جن کے ہاتھ میں سب سے زیادہ اختیارات دیے جاتے ہیں، بدقسمتی سے اُن کی ذہنی نشو و نَما اتنی ہی کم ہوتی ہے۔
ظہیر الاسلام شہاب کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zaheer/
یونیورسٹی میں بندوق لیے سیکورٹی گارڈ جگہ جگہ کھڑے ہوتے ہیں۔ چوں کہ ہر اتوار کے عصر کو ہم ایک سٹڈی سرکل کا انعقاد کرتے ہیں، جس میں کسی کتاب پر تنقیدی نوعیت کی گفت و شنید کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے اتوار کے دن بطورِ خاص اُن گارڈ……بلکہ پورے نظام، کہ گارڈ بھی نظام کا پرتو ہیں، کے ساتھ عجیب و غریب قسم کا واسطہ پڑ جاتا ہے۔
جب اول اول سٹڈی سرکل شروع کیا تھا، تو کچھ گارڈز کو اندازہ لگاتے دیکھا کہ یہ کون لوگ ہیں اور کیا باتیں کرتے ہیں؟ دوسری بار ہمیں ایک گراؤنڈ کے کونے میں بیٹھنے سے یہ کَہ کر منع کیا گیا کہ سامنے موجود اعلا عمارت میں یونیورسٹی کی اعلا انتظامیہ کی میٹنگ ہو رہی ہے، جیسے ہم سٹڈی سرکل نہیں، ڈانس پارٹی کر رہے ہوں اور شور سے میٹنگ کے متاثر ہونے کا خطرہ ہو۔
اب گذشتہ اتوار کو جس گارڈ سے واسطہ پڑا، وہ ہمیں کیفے کے ساتھ والے گراؤنڈ کے اُس حصے میں بیٹھنے سے روک رہا تھا، جہاں نسبتاً جگہ وسیع تھی اور آس پاس کا شور نہیں تھا۔ پہلے سمجھانا پڑا کہ سٹڈی سرکل ہوتا کیا ہے! جب اُنھیں پتا چلا، تو فرمایا کہ کتابوں کی باتیں صرف کمرۂ جماعت اور ہوسٹل میں ہوں گی۔ اِدھر کیفے اور گراؤنڈ میں اس کی اجازت نہیں۔
اب اُن کو کیا پتا کہ ہم کمرۂ جماعت ہی سے مایوس ہو کر اِدھر آ بیٹھتے ہیں۔
خیر، ہم نے کہا کہ اپنے سینئر سے ہماری بات کروا لیجیے۔ تو اُنھوں نے کسی سے رابطہ کیا، جس نے اُنھیں مزید اعلا حکام کو ریفر کیا۔
ہمارے پاس وقت کم تھا۔ اس لیے دوسری طرف ایسے طالب علموں کے درمیان بیٹھ گئے، جہاں طالب علم آپس میں گپ شپ لگا رہے تھے۔ ہم سیشن شروع کرنے لگے، تو گارڈ اپنے بڑے کے ساتھ حاضر ہوا۔ یہاں اکثر تنظیمیں قوم پرست ہیں اور جو نہیں، اُن میں سے جو مذہب کے نام پر سیاست کرتی ہیں، اُنھیں تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوتا اور جو بائیں بازو کے پراگریسیو طالب علم ہیں، اُنھیں بھی تنگ کیا جاتا رہا ہے۔ بڑے گارڈ نے ہم پر نظریں دوڑائیں اور رُعب ڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا: ’’سندھی ہو نا تم لوگ؟‘‘ ہمارے سرکل میں ملک کے ہر خطے کی نمایندگی ہے اور ویسے بھی دوست ذرا غصہ تھے، تو اِس بات پر مزید غصہ ہوگئے اور اُن سے کہا کہ ’’چلیں، اگر سندھی بھی ہیں، تو کیا؟‘‘
بہ ہر حال، سیشن کا وقت شروع ہو چکا تھا۔ اس لیے ہم نے اُنھیں جلد ہی رخصت کرلیا۔ ابھی تھوڑی سی دیر ہوئی تھی کہ اسی جگہ، جہاں ہم بیٹھنا چاہتے تھے، ایک طلبہ تنظیم کے ارکان آرام سے بیٹھ کر گپ شپ لگانے لگے۔ اُن کا پورا حق تھا وہاں بیٹھنا…… لیکن انتظامیہ کے دوغلے پن کو ملاحظہ کیجیے کہ جو لوگ اُن کے ساتھ آرام سے بات کرتے ہیں، اُن کے ساتھ اُن کا کیا سلوک ہوتا ہے اور وہ جو آرام سے تسلیم نہ کیے جانے پر زبردستی کے بھی قائل ہوتے ہیں، اُن کے ساتھ کس قسم کا رویہ رکھا جاتا ہے!
پتا ہے، اُس جگہ بیٹھنے پر پابندی کیوں لگائی تھی؟ کیوں کہ انتظامیہ کے بقول وہاں چوں کہ قریب ایک گزرگاہ ہے، تو لڑکے پاس سے گزرنے والی لڑکیوں پر آوازیں کستے ہیں۔ پہلے تو مذکورہ دعوے میں کوئی صداقت نہیں کہ ہم نے ایسا کچھ نہیں دیکھا۔ اور اگر ایسا کچھ ہے بھی، تو پھر آپ کو نہ صرف جامعہ بلکہ پورا پاکستان بند کردینا چاہیے کہ مرد حضرات کو ایسے ’’سنہرے‘‘ مواقع ہر جگہ میسر ہیں۔
اُن لوگوں کی الیکٹران جتنی سوچ اُنھیں کبھی یہ سمجھنے کا موقع نہیں دے گی کہ اِس قسم کی حرکات کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ آپ نے عورت کو انسان سمجھنے کی بجائے ایک نادر قسم کی مخلوق سمجھا ہوا ہے اور اس سے متعلق غیر فطری رسوم و اقدار ہی نے نہایت غیر فطری تجسس اور رویوں کو جنم دیا ہے۔
بہ ہر حال، اس قسم کی باتیں تو اس سماج کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔ مسائل کے ساتھ ساتھ کچھ مواقع بھی ہیں…… اور ہم اُن سے بھرپور استفادہ کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔