تبصرہ: امر شاہد
’’یہ ناول…… اور مَیں اِسے ناول ہی کہنا چاہتا ہوں…… یہ میری زندگی کا پہلا ناول ہے، جو میری رُوح پر چھا گیا ہے اور مَیں پوری طرح اس کی رو میں بہہ گیا ہوں۔ باوجود اس کے کہ اس بہار میں فلسفیانہ مسائل نے مجھے بہت ہی مصروف کر رکھا ہے۔ وہ میرے دماغ میں خود بخود آگیا۔ بھلا ہو جاوداں پُشکن کا جس کو مَیں نے اتفاق سے اُٹھا لیا تھا اور نئے جذبۂ تحسین کے ساتھ پورا پڑھ ڈالا۔‘‘
مئی 1873ء میں یہ الفاظ لیو ٹالسٹائی نے ’’نکولائی ستراخوف‘‘ کے نام خط میں اس وقت لکھے تھے، جب اُنھوں نے ’’اینا کریننا‘‘ لکھنا شروع کیا تھا۔ ٹالسٹائی کی اس نئی تصنیف نے اُن کے ہم عصروں کو سب سے بڑھ کر اِس بات سے متاثر کیا کہ اُنھوں نے ایک شخص کی ذاتی زندگی کا اِس قدر گہرائی سے جائزہ لیا تھا اور مصنف نے جن کرداروں کی تشکیل کی تھی، اُن میں حقیقت پسند توانائی تھی۔
لیو ٹالسٹائی کے ہم عصر عظیم رُوسی مصنف ’’فیودور دستوئیفسکی‘‘ کو ’’اینا کریننا‘‘ میں انسانی رُوح کا نہایت عمدہ نفسیاتی تجزیہ اور فن کارانہ تصویر کشی کی بے مثال حقیقت نگاری نظر آئی۔ مشہور رُوسی ناول نگار ایوان گونچاروف نے اس ناول کو پڑھنے کے بعد کہا تھا: ’’یہ اپنی قسم کی پہلی، بے نظیر چیز ہے۔ ہم مصنفوں میں سے کون اس کی برابری کر سکتا ہے؟‘‘
موسیقی اور فن کے رُوسی نقاد اور ٹالسٹائی کے قریبی دوست ’’ولادیمیر ستاسوف‘‘ نے لکھا ہے: ’’کاؤنٹ لیو ٹالسٹائی اتنی اعلا سطح تک بلند ہو گئے ہیں، جہاں رُوسی ادب کبھی نہیں پہنچا تھا۔ حتیٰ کہ پُشکن اور گوگول کے یہاں بھی محبت اور عشق کو ایسی گہرائیوں اور وجد آفریں حقیقت تک نہیں پیش کیا گیا، جیسا کہ اب ٹالسٹائی نے کیا ہے۔ سارا ناول کیسی توانائی اور حسن سے لب ریز ہے۔ فن کارانہ سچائی کی کیسی حیرت انگیز طاقت کو، کیسی اچھوتی گہرائیوں کو یہاں پہلی بار بروئے کار لایا گیا ہے! وہ اپنے معجز نما مجسمہ ساز ہاتھ سے ایسے کرداروں اور مناظر کی تخلیق کرسکتے ہیں، جن سے ہمارے سارے ادب میں ان سے پہلے کوئی بھی واقف نہ تھا۔ ’’اینا کریننا‘‘ صدیوں تک جوہر کے درخشاں اور زبردست ستارے کی طرح باقی رہے گا۔‘‘
اس ناول کے مواد کی ’’روزمرہ والی کیفیت‘‘ اس کی دوسری خصوصیت ہے۔ اس کتاب کے پڑھنے والوں نے اس میں خود کو اور اپنے ہم عصروں کو آسانی سے پہچان لیا۔ اس میں انھیں اپنے دور کے تمام اہم واقعات کی آگہی کے ساتھ ہم آہنگی کا احساس ملا، جو رُوس کی تاریخ کا ایک سب سے پیچیدہ دَور تھا، جب کسانوں کے زرعی غلامی سے آزاد ہونے کے بعد بقول لیو ٹالسٹائی ’’ہر چیز الٹ پلٹ ہو گئی تھی اور اب پھر سے جمنا شروع ہو رہی ہے۔‘‘
’’زیمستوو‘‘ کا کام کاج، فوجی اُمور اور تعلیم کے میدانوں میں سدھار، ترکی کی محکومی کے خلاف سلاف قوموں کی جدوجہد میں روسی سماج کی شرکت وغیرہ، اور اس کے علاوہ ماسکو اور پیرز برگ کی سوسائٹیوں کے مختلف طبقوں کی اور رُوسی گاؤں کی اس زمانے کی زندگی کی ٹھوس انفرادی خصوصیات بھی اس ناول میں آئینہ دار ہو گئیں۔
روسی زبان میں اولیں اشاعت، اُردو ترجمہ اور ترجمے کی جدید اشاعت کی تاریخ وار منزل کچھ یوں ہے:
٭ 1873ء تا 1877ء: زمانۂ تحریر ’’اینا کریننا‘‘، زبان:رُوسی۔
٭ 1875ء تا 1877ء: یہ ناول پہلی مرتبہ رسالہ ’’رُوس کی ویست نِک‘‘ (نقیبِ رُوس) کے شماروں میں قسط وار چھپتا رہا۔
٭ 1878ء:۔ ایک سال بعد، کتابی صورت میں پہلی اشاعت قدرے ترامیم کے ساتھ ہوئی۔ ناول کو آٹھ حصوں میں منقسم کرکے تین جلدوں میں ماسکو سے شائع کیا گیا۔
٭ 1944ء:۔ نیویارک سے ’’ڈبل ڈے، ڈورین اینڈ کمپنی‘‘ نے کانسٹینس گارنیٹ کا انگریزی زبان میں ترجمہ شائع کیا جو فرٹز آئیشن برگ کے سکیچز سے مزین تھا۔ ایک ہزار کی تعداد کا یہ محدود ایڈیشن قارئین کو مصور کے دستخط کے ساتھ فراہم کیا گیا۔ اُردو کی تازہ اشاعت میں شامل سکیچز اسی مصور ایڈیشن سے لیے گئے ہیں۔
٭ 1986ء:۔ تقی حیدر نے رُوسی زبان سے براہِ راست اُردو میں ترجمہ کیا اور ’’رادوگا اشاعت گھر، ماسکو‘‘ سے دو جلدو ں میں شائع ہوا۔ اس ترجمے میں ایڈیٹر نے جا بجا مفید حواشی لکھے۔ ایڈیٹر کا نام کتاب پر درج نہیں۔
٭ 2022ء:۔ ادارہ ’’بک کارنر جہلم‘‘ کو ترجمے میں بے ربطی اور الجھاؤ کے سبب اس کی تصحیح کروانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ تب اطہر رسول حیدر نے نہایت جاں فشانی سے ایک سال کی مدت میں اس ترجمے کی تصحیح کا کام مکمل کیا۔
٭ 2023ء:۔ جہلم، پاکستان سے ’’بک کارنر‘‘ نے نستعلیق کمپوزنگ کروا کر، مشاہیرِ ادب کی آرا، مصنف کے تعارف اور فرٹز آئیشن برگ کے سکیچز کے ساتھ، تصحیح شدہ جدید ایڈیشن شائع کیا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔