لیو ٹالسٹائی کا ناول ’’جنگ اور امن‘‘ (تبصرہ)

تبصرہ: کاشف منظور 
’’وار اینڈ پیس‘‘ (War and Peace) یا ’’جنگ اور امن‘‘ کو عالمی ادب کا غیر معمولی شاہکار سمجھا جاتا ہے۔ یہ عظیم و ضخیم ناول پڑھنا ہی عام قارئین کے لیے ایک کارنامے سے کم نہیں۔ اپنے کلاسرا صاحب اسے کالج کی سمری بریک میں پڑھتے اور ہم عصر طلبہ اور اساتذہ کو مرعوب و حیران کرتے رہے۔ فیضؔ صاحب نے امرتا پریتم کو اپنے شاید واحد پنجابی انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’’وار اینڈ پیس‘‘ اُنھوں نے کم و بیش 13 مرتبہ پڑھ رکھا ہے۔
فیضؔ صاحب کی شخصیت اور شاعری پر اس ناول کے اثرات بہت گہرے دکھائی دیتے ہیں۔ راقم نے بھی بالآخر کئی مہینوں کی محنتِ شاقہ کے بعد رواں ’’طویل اختتام ہفتہ‘‘ میں اس کی پڑھت کامیابی سے مکمل کی اور ’’وار اینڈ پیس کلب‘‘ میں شامل ہوگیا۔ درجِ بالا مشاہیر سے اپنی مشابہت بس اس حد تک ہے۔
عالمی شہرت پانے والے ناول ’’وار اینڈ پیس‘‘ (یا جنگ اور امن) کے لکھنے کی ابتدا 1862ء میں ہوئی۔ اس کتاب کو مکمل کرنے میں مصنف لیوٹا لسٹائی کو چھت برس لگے۔اس ناول میں کئی اہم خاندانوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
کتاب میں درج واقعات کے مطابق ناول ’’جنگ اورامن‘‘ 1805ء میں روس کے شہر سینٹ پیٹرزبرگ میں شروع ہو ا۔اُس وقت روس پر فرانس کے جنرل نپولین بونا پارٹ کے حملے کا شدید خطرہ تھا اورروس میں زار (شاہی خاندان) کی حکومت تھی۔ فرانس کے بادشاہ نپولین بونا پارٹ نے روس پر حملہ کرکے اس کو تہس نہس کرنے کا پروگرام بنایا جب کہ روس کے اندر کے حالات یہ تھے کہ روسی معاشرہ کاشت کار اور اشرافیہ کلاس میں بٹا ہوا تھا۔
اس ناول میں شاہی خاندان اور اشرافیہ کلاس کے کرداروں کی بڑی خوب صورتی سے عکاسی کی گئی اور تمام کرداروں کو ان کی اچھائیوں اور برائیوں کے ساتھ قارئین کے سامنے رکھا گیا ہے۔ یہ ناول 1917ء سے پہلے کے روس کی تاریخ، تہذیب و تمدن، عادات و اطوار، فیشن اور طبقۂ اشرافیہ کے رہن سہن کی بھرپور انداز میں عکاسی کرتا ہے۔ اس ناول کو عالمی ادب میں شہرتِ دوام ملی اور یہ دنیا کی 150 سے زائد زبانوں میں شائع ہوا۔ ناول کے مطالعے سے پورا روسی معاشرہ اپنی تمام تر اچھا ئیوں، برائیوں کے ساتھ قاری سامنے عیاں ہو جاتا ہے۔
1869ء میں اپنی اولین باقاعدہ اشاعت سے لے کر اَب تک اس ناول کا جادو قائم ہے اور معلوم دنیا کی ہر قابلِ ذکر زبان میں اس کے تراجم ہوچکے ہیں اور بہتر سے بہتر تراجم مسلسل سامنے آ رہے ہیں۔ اُردو میں بھی ایک سے زائد تراجم موجود ہیں، جن میں شاہد حمید کا ترجمہ قابلِ ذکر ہے۔
ہمارے پاس موجود یک جلدی انگریزی آکسفورڈی ایڈیشن کی باریک لکھائی اور پتلی تقطیع میں 1350 صفحات ہیں۔ تعارف کے علاوہ تفصیلی نوٹس، اماکن و اشخاص، ٹالسٹائی کے اپنے وضاحتی نِکات، مددگار کتابیات اور ’’انسکالات‘‘ وغیرہ بھی اس ناول کا حصہ ہیں۔ اس سیاق و سِباق کے بغیر اس بڑے وسعت کے حامل ادبی و تاریخی کام کو سمجھنا غالباً ممکن نہیں۔
ٹالسٹائی کہتا ہے:”The aim of war is murder, the methods of war are spying, Treachery, the ruin of a country’s inhabitants…and he who kills the most people receives the highest rewards…”
ناول نپولین کی فرانسیسی فوج کی ماسکو پر انیسویں صدی (1805) کی جارحیت اور اس دوران میں روسی معاشرے خصوصاً اشرافیہ کا احوال ہے، جو حیرت انگیز طور پر آج کے کچھ معاشروں کے اعیانی طبقہ کے احوال سے مشابہ ہے۔ مثال کے لیے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔
خیر، اس ناول میں ادب، تاریخ، جنگی وقائع نویسی، انسانی نفسیات اور اس کی باریکیوں کے علاوہ، جو ٹالسٹائی کا خاصا ہے، اعلا درجے کی زبان دانی مصنف کے ’’آرگومنٹ‘‘ کو مدلل و توجہ طلب بناتی ہیں۔ یہ مصنف کے ابتدائی ادبی کیریئر(Mid 30s) کا شاہکار ہے، جو بے حد منصوبہ بندی سے لکھا گیا۔ اس کی کچھ تفصیل ٹالسٹائی نے 1868ء میں اس ناول کے پہلے حصے کی اشاعت کے بعد ’’رشین آرکائیو‘‘ (Russian Archive) نامی ادبی جریدے میں کر دی ہے۔ اس ناول کے کرافٹ سے پوری دنیا میں ناول نویسی کے ایک یک سر نئے اور گہرے سٹرکچر نے چلن اختیار کیا، جس کی ’’زد‘‘ میں اُردو اَدب بھی آیا۔ اس ضمن میں ’’آگ کا دریا‘‘، ’’اُداس نسلیں‘‘ اور ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ کے نام فوری طور پر لیے جا سکتے ہیں۔
ناول کا کینوس کتنا وسیع ہے، اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے کل کردار 500 سے زیادہ ہیں۔ اس میں فعال کرداروں کی تعداد 300 کے قریب ہے۔ اُن کو مطالعے کے وقت یاد رکھنا عام قاری کے لیے بے حد ’’چیلنجنگ‘‘ ہے۔
ابتدائی دو تین سو صفحات اسی کشمکش میں گزر جاتے ہیں۔جنگ سے پہلے، جنگ کے دوران میں اور جنگ کے بعد کے مناظر کی بڑی خوب صورتی سے لفظی عکاسی کی گئی ہے۔ مصنف کا سرد لہجہ عظیم و تلخ حقائق کو بے نیازانہ چھوتا چلا جاتا ہے۔ اندازِ بیاں اتنا جان دار ہے کہ قلم کی بجائے ’’دنترے‘‘ سے کندہ کیا معلوم ہوتا ہے۔
ناول کا پس منظر نپولین بوناپارٹ اور روسیوں کے تعلقات اور 1805ء سے 1812ء کی جنگ کے اردگرد گھومتا ہے۔ نپولین نے 1805ء سے 1807ء کے دوران میں آسٹریا پر قبضہ کرلیا تھا۔ روس نے ایک خفیہ معاہدے کے تحت فرانس سے مل کر انگریزوں سے جنگ کرنا تھی، مگر یہ معاہدہ کامیاب نہ ہوسکا اور نپولین نے روس پر حملہ کرکے ماسکو پر قبضہ کر لیا۔روسی امن معاہدے کی بجائے پسپا ہوگئے۔ فرانسوی فوجی اس کشمکش میں شدائدِ موسمی کی نذر ہوگئے اور روسی علاقہ چھوڑ گئے ۔
ناول کے اہم نِکات:۔
٭ اس کتاب میں بہت سے کرداروں کو ایک پارٹی میں متعارف کروایا گیا، جن میں پائرے، بیزوکوف، آندرے بولکوسکی اور روستوف خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
٭ ناول کا زیادہ تر حصہ بنیادی طور پر روس کے تین امیر خاندانوں کے ایک دوسرے کے ساتھ میل جول اور ایک دوسرے سے بات چیت کے بارے میں ہے۔ یہ تین خاندان بیزوکوف، بولکونسکی اور روستوف ہیں۔
٭ آندرے بولکونسکی، نیکولور وستوف، جنرل کتوزوف کی زیرِ قیادت آسٹریا کے محاذ پر فرانس کے جنرل نپولین کے خلاف لڑنے گئے۔ آندرے جنگ آسٹر لٹز میں شدید زخمی ہوگیا اور اس کے بارے میں مشہور ہوگیا کہ مرگیا تھا، لیکن بعد میں وہ کسی نہ کسی طرح بچتا بچاتا اپنی بیوی لزے کے پاس پہنچ آیا۔ اس کی بیوی کو یہ خوشی راس نہ آئی اور وہ اپنے شوہر کے گھر پہنچنے کے کچھ دن بعد ہی ایک بچے کی پیدایش کے موقع پر فوت ہو گئی۔
٭ اس کے دوست پائرے نے اس کے عاشق کے ساتھ دو بدو مقابلہ کیا اور اس کو قتل کرنے کے قریب ہی تھا کہ لوگوں نے عاشق کو ایک امیر خاتون خیلی کیتا پائرے کے ہاتھوں سے بچا لیا۔ اُس نے بعد میں تنگ آکر نفرت کی وجہ سے اپنی بیوی ہیلن کو طلاق دے دی۔ اس کے بعد پائرے گھر بار چھوڑ کر دنیا کی سیاحت پر نکل گیا۔ اِس سے اُس کے مال و دولت پر منفی اثر پڑا۔
٭ روستوف خاندان کے چشم و چراغ نکولائی نے اپنی ساری دولت جوئے میں ہار دی جس کی وجہ سے یہ خاندان غربت کا شکار ہوگیا۔
٭ نکولائی کی شادی ایک امیر لڑکی سے ہونا قرار پائی، جب کہ اس کی اپنی کزن سونیا اس کا انتظار کر رہی تھی۔ نیکولائی نے 1807ء کے روس اور فرانس کے درمیان امن معاہدے کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
٭ آندرے ایک لڑکی نتاشا کے ساتھ گھومنے لگا۔ جب کے والد نے اُسے بتایا کہ وہ ایک سال شادی کا مزید انتظار کرے۔ آندرے کو شادی سے پہلی ہی معلوم ہوگیا تھا کہ نتاشا ایک بے وفا لڑکی ہے۔ لہٰذا اُس نے اُس سے منگنی توڑ دی اور نتاشا نے آندرے کے دوست پائرے سے پیار کی پینگیں بڑھانا شروع کر دیں ۔
٭ 1812ء میں نپولین کو بوناپارٹ نے روس پر حملہ کر دیا جس سے بادشاہ الیکزینڈر مجبور ہوکر نپولین کے مقابلے میں آیا۔ اس بات پر آندرے گھر بار چھوڑا کر جنگ میں شمولیت کے لیے محاذ پر جا پہنچا۔ آندرے نے جب نپولین کے قتلِ عام اور اس کی ظلم و بربریت کے بارے میں سوچا، تو اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ نپولین کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرے گا، تاکہ جنگ کا خاتمہ ہوسکے۔ جیسے ہی فرانسیسی فوجی دستوں نے سینٹ پیٹرز برگ کی طرف پیش قدمی شروع کی، آندرے کی چھوٹی بہن کو اپناگھر بار چھوڑ کر بھاگنا پڑا اور وہ گلیوں میں بھٹکنے لگی۔ نیکولائی جو اس سے پیار کرتا تھا، نے اُس کو گلیوں میں بکتے ہوئے ڈھونڈ نکالا اور دونوں ایک دوسرے سے مل گئے۔
٭ پائرے جنگ میں بہادری دکھانے کے زعم میں مبتلا تھا اور وہ تمام جنگ میں محاذ پر فرانسوی فوج کے سامنے سینہ سپر رہا، جس پر اس کو فرانسیسی فوج دستوں نے قید کر کے زِنداں میں ڈال دیا، جہاں اس نے فرانسیسیوں کے ہاتھوں کئی بے گناہ افراد کو قتل ہوتے ہوئے بھی دیکھا۔ قید کے دوران میں پائرے کی ملاقات ایک عقل مند کاشت کار مسٹر پاریر سے ہوئی جس سے اس نے سب کچھ سیکھا۔ تاہم رہائی کے فوراً بعد وہ بیمار پڑگیا، لیکن بیماری سے شفایاب ہونے کے بعد اس نے بے وفا نتاشا سے شادی کرلی اور ان کے ہاں چار بچے پیدا ہوئے ۔
٭ اُن کے دوست نیکولائی نے میری نامی دو شیزہ سے شادی کی اور وہ بھی شادی شدہ زندگی سے لطف اندوز ہونے لگے۔
ٹالسٹائی کے سیکڑوں کرداروں میں سے کچھ اصلی اور بقیہ فرضی ہیں۔ نپولین کے علاوہ Murat,زار کا مشیر کاونٹ سپرنسکی حقیقی ہیں۔ فرضی کرداروں میں Pierr, نتاشا،نیکولس بینتالے اور برلنسکی، سونیا اور اینڈریو وغیرہ ہیں۔ درحقیقت یہ اس وقت کے یورپ کی ایک فکشن ہسٹری ہے یعنی ’’فیکٹ‘‘ اور ’’فکشن‘‘ کا ملاپ……(Fact+Fiction)
ٹالسٹائی نے لکھا ہے کہ انسانی تاریخ کا کوئی بھی واقعہ کسی ایک شخص کی غلطی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بڑے واقعات درحقیقت بہت سارے اتفاقات کا نتیجہ ہوتے ہیں اور تاریخی عمل ان کو روبہ عمل لاتا ہے۔انسان کی ایک حد تک مرضی یا آزادی اپنی جگہ مگر بڑے تناظر میں ہم سب تاریخ کا کھلونا اور ایندھن ہیں۔ اس تعبیر سے ٹالسٹائی ان بڑے فلاسفرز کی صف میں اپنا شمار کروا لیتا ہے جو تاریخ کو الہامی نکتہ نظر سے دیکھنے کے قائل ہیں۔ یاد رہے کہ ٹالسٹائی کا کیتھولک رحجان معلوم و معروف ہے۔
جنگ اور امن کو بلاشبہ ’’ناولوں کی ماں‘‘ قرار دیا جاسکتاہے۔ روس فرانس جنگ دراصل یورپی تاریخی کشمکشوں کا بیان ہے جو نوجوان ٹالسٹائی کی تقلیب ذہنی کا سبب بنا اور اس رزمیہ تحریر کا باعث ہوا۔ اس کشمکش حیات کا ٹالسٹائی کی نظروں سے مشاہدہ بلاشبہ درجنوں کتابیں پڑھنے کے برابر ہے۔ اس ناول کو پڑھنے کے بعد ایک "Sense of Accomplishment” یا کامیابی کا احساس ہوتا ہے، جو مزید ایسے مطالعات پر اکساتا اور آلام حیات کو آسان بناتا ہے۔ چاہے ناول پڑھا جائے یا اس پر مبنی فلمیں یا پلیز دیکھے جائیں۔ یہ لائف ٹائم تجربہ ہے جو ہر پڑھے لکھے بندے کے لیے لازمی ہے۔
فیضؔ صاحب نے ایسے ہی تاریخی خاک کا رزق ہونے والے خاکساروں اور تاریک راہوں میں مارے جانے والوں کے بارے میں کہا تھا:
نارسائی اگر اپنی تقدیر تھی
تیری اُلفت تو اپنی ہی تدبیر تھی
کس کو شکوہ ہے گر شوق کے سلسلے
ہجر کی قتل گاہوں سے سب جا ملے
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
کر چلے جن کی خاطر جہانگیر ہم
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے