بالآخر وزیرِ خزانہ جناب اسحاق ڈار نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ آئی ایم ایف اُنھیں ’’لولی پاپ‘‘ دے رہا ہے۔
سینٹ کمیٹی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے وہ آئی ایم ایف پر باقاعدہ برس پڑے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے خلاف ’’جیو پالیٹکس‘‘ ہو رہی ہے۔ آئی ایم چاہتا ہے کہ پاکستان پہلے ڈیفالٹ کرے، پھر اُس کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔
یہ بات قوم کو گذشتہ چھے سات ماہ سے معلوم ہے۔ ماہرینِ معاشیات ٹی وی چینلوں اور اخباری کالموں کے ذریعے جناب اسحاق ڈار صاحب کو یہی بات سمجھا رہے تھے، مگر وہ پھر بھی پُرامید تھے۔ اس دوران میں دو مرتبہ وہ مایوس بھی ہوئے…… اور انھوں نے کسی ’’پلان بی‘‘ کا تذکرہ بھی کیا…… لیکن آئی ایم ایف سے نہ صرف امید کا دامن تھامے رکھا، بلکہ اس کی فرمایش پر اپنے لوگوں کو بار بار مہنگائی اور مشکلات کے عذاب سے بھی گزارا۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
اس موقع پر مشہور پنجابی فلم ’’چوڑیاں‘‘ کا ایک کردار ’’نائی‘‘ یاد آ گیا جس کا بیٹا شہر جا کر تعلیم حاصل کرتا ہے۔ جب وہ پڑھ لکھ کر گاؤں آتا ہے، تو گاؤں کاچوہدری اُس نائی کو اُس کے بیٹے کی کامیابی پر مبارک باد دیتا ہے۔ وہ سادہ لوح نائی کچھ اور ہی سمجھتا ہے اور چوہدری صاحب سے اپنے بیٹے کے لیے اُس کی بیٹی کا رشتہ مانگ لیتا ہے۔ چوہدری کو بہت غصہ آتا ہے۔ وہ اپنے نوکروں سے اُس کی خوب پٹائی کرواتا ہے…… اور پھر طیش میں اُس پر خوں خوار کتے چھوڑ دیتا ہے، جو اُسے بری طرح کاٹتے ہیں۔ وہ نائی گاؤں کے ڈاکٹر سے زخموں پر مرہم اور ٹیکے لگوا کر دوبارہ چوہدری کے پاس پہنچتا ہے اور تاریخی ڈائیلاگ بولتا ہے: ’’چوہدری صاحب! مَیں فیر جواب ای سمجھاں؟‘‘ (چوہدری صاحب! کیا میں انکار ہی سمجھوں؟)
آئی ایم ایف نے چوہدری بن کر ہمارے ساتھ بھی نائی والا سلوک کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں مزید تذلیل برداشت نہیں کرنی چاہیے۔ ہمیں ’’صاف انکار‘‘ کر دیا گیا ہے۔ اَب اِس بات کو سمجھ جانا چاہیے۔
جناب اسحاق ڈار نے سینٹ کمیٹی میں کہا کہ ’’آئی ایم ایف کی ہر بات نہیں مان سکتے۔ پاکستان ایک خود مختار ملک ہے۔ ہم نے ملکی مفاد کو دیکھنا ہے۔ آئی ایم ایف کے کہنے پر نوجوانوں کو رعایت دینے پر پابندی نہیں لگاسکتے۔‘‘
یہ ایک بالکل ہی نئی بات سامنے آئی ہے جو کہ بہت خوف ناک ہے کہ معاہدہ نہ ہونے کی وجہ نوجوانوں کو رعایت دینا ہے۔ ایسا کوئی مطالبہ حکومت کیسے پورا کرسکتی ہے……! اس سے قبل بارہا یہ بات جناب اسحاق ڈار اور جنابِ وزیرِ اعظم شہباز شریف کَہ چکے ہیں کہ آئی ایم ایف کی ہر شرط من و عن تسلیم کرلی گئی ہے اور جون کے آخر تک معاہدہ ہو جائے گا۔ یہ امید دونوں حضرات کئی ماہ سے قوم کو دلا رہے ہیں، مگر آئی ایم ایف ہر بار مزید شرائط پیش کر دیتا ہے۔ یہ سب بہانے بازیاں اور قرض نہ دینے کے واضح اشارے ہیں۔
برسبیلِ تذکرہ، ایک آدمی نے اپنے دوست سے 50 ہزار روپے قرض مانگا اور وعدہ کیا کہ دو دن بعد ہر صورت میں واپس کر دے گا۔ اِس وقت انتہائی مجبوری ہے اور اگر رقم نہ ملی، تو یہ دو دن اُس پر قیامت بن جائیں گے۔
دوست نے کل آنے کو کہا۔ اگلے دن جب وہ گیا، تو دوست نے بتایا کہ آپ کے آنے سے چند منٹ پہلے ہی کسی کو ادائی کی ہے، اب کل ہی پیسے مل سکیں گے۔ اسی طرح کرتے کرتے سات دن گزر گئے۔ جب آٹھویں دن وہ آدمی اپنے دوست کے پاس قرض لینے کے لیے گیا، تو دوست بولا: ’’آپ نے دو دن بعد واپسی کے وعدے پر قرض مانگا تھا۔ مَیں نے آپ کے سات دن بخیر و عافیت گزار دیے ہیں۔ اب اور کیا چاہیے آپ کو……!‘‘
آئی ایم ایف نے آج کل کے وعدوں پر ٹرخا ٹرخا کر سات آٹھ ماہ ہمارے گزار دیے۔ ہم نے ٹیکس لگائے، شرحِ سود میں اضافہ کیا، ڈالر اور تیل کی قیمتیں بڑھا دیں، عوام کو مہنگائی کے عذاب سے دوچار کیا، حتیٰ کہ نئے مالی سال کا بجٹ بھی پیش کر دیا، اب اور کیا چاہیے ہمیں……!
اتنی مستقل مزاجی اور ثابت قدمی سے تو کوئی بیمہ ایجنٹ بھی اپنے متوقع کلائنٹ کا پیچھا نہیں کرتا، جس طرح ہم نے آئی ایم ایف کا پیچھا کیا ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک بیمہ ایجنٹ نے ایک سیٹھ کو بیمہ پالیسی لینے کے لیے زِچ کر رکھا تھا۔صبح، دوپہر، شام اُس کے دفتر کے پھیرے لگاتا تھا۔ جب ہفتے میں پندرہویں بار وہ سیٹھ کے پاس پہنچا، تو سیٹھ کا غصہ کنٹرول سے باہر ہوگیا۔ اُس نے ملازمین سے کَہ کر بیمہ ایجنٹ کو سیڑھیوں سے نیچے پھینکوا دیا۔ سیڑھیوں سے گرنے پر اُسے شدید چوٹیں آئیں۔ ایک بازو ٹوٹ گیا، جسم لہولہان ہوگیا۔ وہ اسی عالم میں سیٹھ کے پاس پہنچا اور بولا: ’’سیٹھ صاحب! مذاق تو ہوتا رہے گا، آپ یہ بتائیں کہ کتنے لاکھ کی پالیسی لے رہے ہیں؟‘‘سیٹھ اس کی اس ڈھٹائی پر ہکا بکا رہ گیا۔ مجبوراً اُسے بیمہ پالیسی لینی پڑی۔
ہم نے تو ’’سیٹھ آئی ایم ایف‘‘ کے سامنے اپنی ساری ہڈیاں تڑوا لی ہیں۔ بار بار سیڑھیوں سے پھینکے جانے کے بعد زخمی حالت میں اُس کے حضور پہنچے ہیں، مگر ہمارے سیٹھ نے ہماری مدد نہ کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔ اگر صفر اعشاریہ ایک فی صد کامیابی کی امید تھی، تو روسی تیل اور آذربائیجانی گیس کے بعد وہ موہوم اُمید بھی دم چوڑ چکی ہے۔
قوم چاہتی ہے کہ جنابِ اسحاق ڈار اب آئی ایم سے امیدیں ختم کرکے ’’پلان بی‘‘ کو سامنے لائیں اور اُس پر عمل کریں۔
میرے خیال میں تو پلان بھی بالکل واضح ہے اور حکومتِ پاکستان نے غیرعلانیہ اس پر عمل بھی شروع کر دیا ہے۔ ہمسایہ ممالک سے ’’بارٹر ٹریڈ‘‘ دراصل ’’پلان بی‘‘ ہی کا حصہ ہے۔ ڈالر کی قید سے آزاد ہو کر تجارتی معاہدے ایک بڑی کامیابی ہیں۔ روسی تیل کی ادائی چینی کرنسی میں کرکے پاکستان نے ڈالر کی قیمت کو مزید اوپر جانے سے ہی نہیں روکا، بلکہ زرِ مبادلہ کے ذخائر کو بھی کم ہونے سے بچالیا۔
جاننے والے جانتے ہیں کہ امریکہ آئی ایم ایف سے معاہدہ نہیں ہونے دے رہا۔ اُسے ’’سی پیک‘‘ سے تکلیف ہے۔ وہ پاکستان کو اپنے چنگل سے نکلتا نہیں دیکھ سکتا…… جب کہ موجودہ ملکی قیادت نے تہیہ کرلیا ہے کہ ہر قسم کا سیاسی نقصان برداشت کرلیا جائے گا، مگر اب ملک کی تعمیر و ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود پر سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔
ذہنی طور پر حکومت بھی آئی ایم ایف سے تنگ آچکی ہے اور اُس سے جان چھڑانا چاہتی ہے۔ مزید دیوار سے لگنے کی گنجایش ختم ہو گئی ہے۔
آئی ایم ایف کے بغیر بھی کئی ممالک نے ترقی کی ہے۔ مشکل ضرور پیش آئے گی، مگر ہمیں ایک قوم بن کر اِس مشکل کا سامنا کرنا ہوگا۔ حکومت اپنی شہ خرچیاں اور مراعات یافتہ طبقے کی مراعات ختم کرے۔ عوام کو اعتماد میں لے اور اللہ کا نام لے کر امریکہ اور آئی ایم ایف کو خیرباد کَہ دے۔ اس قوم میں بہت پوٹینشل ہے۔ جلد ہی یہ اپنے قدموں پر کھڑی ہو کر دوڑنا شروع کر دے گی۔ پلان بی پر عمل اب ناگزیر ہو چکا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔