تحریر: میثم عباس علیزی
’’علمیات‘‘ (Epistemology) فلسفہ کی ایک شاخ ہے، جس میں علم کے بارے میں بحث ہوتی ہے لیکن کس طرح……؟ اس کو سمجھنے کے لیے ہم سوالات کے ذریعے سمجھتے ہیں کہ ’’علمیات‘‘ کا تعلق کن سوالات سے ہوتا ہے۔ جیسے :
٭ علم بذاتِ خود کیا ہے، یعنی خود علم کی کیا حقیقت ہے؟
٭ ہم علم کیسے حاصل کرسکتے ہیں، یعنی کون کون سے طریقوں کے ذریعے سے ہم علم حاصل کرتے ہیں؟
٭ کیا وہی علم حقیقت ہے جو ہم حواسِ خمسہ سے حاصل کرتے ہیں یا حواسِ خمسہ کے علاوہ بھی کئی اور ذرائع ہوسکتے ہیں؟
٭ آخر حقیقت از خود کیا ہے اور کیا ہم حقیقت تک پہنچ بھی سکتے ہیں یا نہیں؟
یہ کچھ بنیادی سوالات ہیں جن کے بارے میں باقاعدہ اصول و منطق کے تحت علمیات میں بحث ہوتی ہے۔
آسان الفاظ میں یہ کہ کیا واقعیت یا سچائی کے بارے میں علم حاصل کرنا ممکن ہے، یا نہیں……! اگر ممکن ہے، تو کون کون سے راستے ہیں جن کے ذریعے سے ہم حقائق تک پہنچ سکتے ہیں، یہی عمل ’’علمیات‘‘ یا ’’معرفت شناسی‘‘ کہلاتا ہے۔
علمیات کو ہم پانچ بڑے اہم حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں، جن کو ہم علم حاصل کرنے یا حقیقت تک پہنچنے کے کئی طریقے بھی کَہ سکتے ہیں۔
٭ ایمپریسزم (Empiricism):۔ اس نقطۂ نظر کے مطابق علم کا ماخذ یعنی جس چیز کے ذریعے بنیادی طور ہم علم حاصل کرتے ہیں وہ حواسِ خمسہ یعنی (Five Senses) ہیں۔ دوسرے الفاظ میں انسان کے علم کا محور صرف اور صرف حواسِ خمسہ ہیں۔ جیسے انسان نے سردی اور گرمی کا علم حواسِ خمسہ کے ذریعے حاصل کیا ہے، اسی طرح سے انسان نے مختلف قسم کے رنگوں کا علم اپنی آنکھوں کے ذریعے حاصل کیا ہے۔ دنیا میں مختلف قسم کے ذائقوں کا علم انسان نے اپنی زبان کے ذریعے حاصل کیا ہے۔ مختلف قسم کی خوش بوؤں کے بارے میں انسان نے ناک کے ذریعے علم حاصل کیا ہے اور اس طرح مختلف قسم کی آوازوں کے بارے میں انسان نے کان کے ذریعے علم حاصل کیا ہے۔ اس نقطۂ نظر کے مطابق اگر انسان کے پاس حواسِ خمسہ موجود نہ ہوں، تو انسان تفکر نہیں کرسکتا۔ کیوں کہ انسان بہت سے علوم بالآخر حواسِ خمسہ کے ذریعے ہی حاصل کرتا ہے۔
٭ پوسیٹوزم (Positivism):۔ اس نقطۂ نظر کے مطابق حقیقت صرف وہی ہے یا حقیقت کے طور پر صرف اُس چیز کو تسلیم کیا جائے گا، جو باقاعدہ مشاہدے، تجربے اور ریاضی عمل کے بعد حاصل ہوجائے ۔ اس کی بنیاد بھی بالآخر ’’ایمپریسزم‘‘ ہی ہے۔ مشاہدہ یعنی کسی چیز کو دیکھنا، سونگھنا، سننا، چکنا یا مس کرنا اور مشاہدات کو آلات اور ایک درست مقدار میں پیمایش کو ہم تجربہ کہتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں بار بار مشاہدہ کرنے سے جو نتیجہ ہم اخذ کرتے ہیں، اس کو ہم تجربہ کَہ سکتے ہیں۔ تجربے اور مشاہدے کا ایک قسم کا ثبوت ہوتا ہے۔
لیکن بہت دفعہ خود مشاہدہ، تجربہ ہوتا ہے…… جیسے میں اگر موبائل کو نزدیک سے دیکھ بھی رہا ہوں اور مَس کرکے استعمال بھی کررہا ہوں، تو یہ دیکھنا اور مَس کرنا بذاتِ خود ایک تجربہ بھی ہے، لیکن بعض دفعہ صرف مشاہدے سے کام نہیں چلتا، جیسے مثلاً سراب (نظر کا دھوکا) یا جب آپ گاڑی میں سفر کرتے ہیں، تو آپ کو ایسے نظر آتا ہے کہ درخت حرکت کررہے ہیں اور پیچھے جارہے ہیں، لیکن اگر دقیق نگاہ سے اور بار بار کئی طریقوں سے مشاہدہ کریں گے، تو آپ کو معلوم ہوگا کہ نہیں میرا مشاہدہ غلط تھا۔ اب یہ مشاہدہ آپ کا ایک پختہ منطقی تجربہ بن جاتا ہے۔ یا مثلاً: آپ گرم پانی میں ہاتھ ڈبوتے ہیں، تو آپ کو مَس کرنے سے یہ پتا تو چل جائے گا کہ پانی گرم ہے جس کو ہم مشاہدہ کہیں گے، لیکن کتنے مقدار یا "Magnitude” میں گرم ہے…… یہ آپ کو آلات اور باقاعدہ پیمایش کے ذریعے پتا لگے گا، جس کو ہم پھر تجربہ کہیں گے اور یہی پوسیٹوزم کا نقطۂ منظر ہ یعنی محورِ مشاہدہ اور تجربہ ہے۔ اس کے بعد ان مشاہدات اور تجربات کی بنیاد پر ہی ہماری منطق اور برہان کام کرتے ہیں۔ پس پوسیٹوزم کا نقطۂ نظر (Approach) یہ ہے کہ حقیقت تک پہنچنے کا اصل طریقہ باقاعدہ اصولوں کے تحت مشاہدہ اور پختہ منطقی تجربہ ہے…… جیسے سائنس، سائنس کے ماخذ یا جن بنیادوں پر سائنس کام کرتی ہے، وہ پختہ مشاہدات، تجربات اور باقاعدہ سائنسی منطق ہیں یعنی سائنس کی بنیاد پوسیٹوزم پر کھڑی ہے۔ بہرحال چوں کہ یہ تعارفی تحاریر ہیں، تو میری کوشش ہے کہ تحریر کو زیادہ سے زیادہ آسان اور تعارف کی حد تک رکھنے کی کوشش کروں۔
٭ عقلیت پسندی (Rationalism):۔ دوسرا راستہ جس کے ذریعے سے انسان بہت سے علوم حاصل کرتا ہے، وہ حسںِ باطن (Inner Sense) ہے۔ جیسے خودِ انسان ایک وسیع حقیقت ہے اور انسان اس حقیقت کو حواسِ خمسہ کے ذریعے سے درک نہیں کر سکتا۔ اِس نقطۂ نظر کے مطابق حقیقت تک پہنچنے کے لیے اصل اور بنیادی ذریعہ عقل و تصور ہے نہ کہ حواسِ خمسہ۔ عقلیت پسندوں کے مطابق مابعدالطبیعات جیسے تصورِ خدا یا تصورِ کلیات۔
عقلیت پسندوں کا استدلال ہے کہ کچھ علم، جیسے خدا یا روح وغیرہ کے وجود کا علم، صرف عقل و استدلال کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے نہ کہ اِن ظاہری حواسِ خمسہ کے ذریعے۔ اور عقلیت پسندی مشاہدے اور تجربے کی بجائے تصور اور باطنی حس یا عقل پر زیادہ زور دیتی ہے یعنی عقل کے ذریعے ہی ہم صحیح نتائج حاصل کرسکتے ہیں اور عقل و تصورات کے ذریعے ہی ہم مطلق یا خالص (Ultimate) حقائق تک پہنچ سکتے ہیں…… جیسے کہ مَیں نے مثال دی، خدا اور روح وغیرہ۔
یا جیسے میں اصل میں کون ہوں، وہ کون سی چیز ہے جو میری ’’مَیں‘‘ کو بناتا ہے، مَیں کہاں سے آیا ہوں، مَیں کدھر جارہا ہوں وغیرہ۔
عقلیت پسندوں کے مطابق اگرچہ یہ ہم حواسِ خمسہ سے درک نہیں کرسکتے یا درک کرنا مشکل ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ خدا یا روح کا وجود ہے ہی نہیں……! چوں کہ اصل پیمانہ عقلیت پسندوں کے مطابق حواسِ خمسہ نہیں بلکہ عقلی دلائل اور عقلی برہان ہے۔
یاد رکھیں، اِس میں صرف خدا یا روح شامل نہیں بلکہ اس نقطۂ نظر کا دائرہ بہت وسیع ہے، یہاں صرف آسانی کے لیے اس مثال کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔
٭ پریگمیٹزم (Pragmatism):۔ اس نقطۂ نظر (Approach) کے مطابق سچائی یا حقیقت کا تعین اس کے عملی نتائج اور مسائل کے حل کرنے اور مقاصد کے حصول میں اِفادیت سے ہوتا ہے۔ یعنی وہی علم حقیقی ہے جو ہمارے عملی زندگی کو آسان بنائے، ہمارے لیے عملی کاموں میں فائدہ مند ثابت ہو۔ یہ تصوارات اور ذہنی نظریات سے زیادہ اس کے عملی نتیجے پر زور دیتا ہے، یعنی علم ناپنے کا اصل پیمانہ بنیادی طور اس علم یا علمی حقیقت کا ہمارے عملی زندگی میں کردار ہے۔
دوسرے الفاظ میں اصل حقیقت وہی ہے، جو ہمارے مسائل کا حل نکالنے میں ہماری مدد کرتا ہو۔
مثال کے طور پر ایک تجربیت پسند نقطہ نظر میں مشاہدے اور تجربات کے ذریعے ڈیٹا (Data) اکٹھا کرنا اور مفروضوں کو جانچنے اور نظریات (Theories) کو تیار کرنے کے لیے اس ڈیٹا کو استعمال کرنا شامل ہے۔
دوسری طرف عقلیت پسندی، نظریات و تصورات کو ذہن میں تیار کرنے اور ان کو مختلف پہلوؤں سے جانچنے کے لیے دلیل اور منطق پر توجہ مرکوز ہوتی ہے…… اور پریگمیٹیزم، نظریات اور مفروضوں کے عملی نتائج پر توجہ مرکوز کرتا ہے، یعنی مسائل کو حل کرنے اور پیشین گوئیاں کرنے میں اُن کی اِفادیت کی بنیاد پر اُن کا جائزہ لیتا ہے۔
٭ سکیپٹیسزم (Skepticism):۔ یہ بھی علمیات کا ایک خاص نقطۂ نظر ہے جو علم یا یقین کے دعوؤں کو تنقیدی نگاہ سے دیکھنے کی کوشش کرتا ہے اور زیادہ سے زیادہ سوال کرنے اور شکوک و شبہات پر زور دیتا ہے…… یعنی جو کچھ ہم جان سکتے ہیں، اُس کی حدود ہیں اور ہمیں کسی بھی دعوے کو بغیر کسی ثبوت یا جواز کے اُن کو مکمل سچ تسلیم کرنے میں محتاط رہنا چاہیے۔
اس نقطۂ نظر (Approach) میں مفروضوں کو چیلنج کرنے، قائم کردہ عقائد پر سوال کرنے، اور انتہائی معقول اور اچھی تائید شدہ نتائج پر پہنچنے کے لیے سخت انکوائری (Inquiry) میں مشغول ہونے کی خواہش شامل ہے۔
یہ نقطۂ نظر دراصل حقائق کو مکمل جاننے کے تصور کو تسلیم نہیں کرتی اور جیسا کہ مَیں نے کہا، یہ زیادہ سے زیادہ شکوک و شبہات پر زور دیتا ہے کہ ہمیں ہر نظریے، ہر عقیدے، ہر علمی نقطۂ نظر اور ہر تسلیم شدہ حقیقت کو شک کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے اور ہر حقیقت پر مسلسل سوال اور شکوک و شبہات کا اظہار کرنا چاہیے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔