پی ڈی ایم کی حکومت نے بڑی کامیابی کے ساتھ پی ٹی آئی کے ساتھ جاری سیاسی لڑائی کو اداروں اور عمران خان کے درمیان کشیدگی میں بدل دیا۔ اسی دوران میں کچھ ناعاقبت اندیش افراد نے فوجی تنصیبات پر حملے کرکے نہ صرف غیر ذمے داری کا ثبوت دیا، بلکہ جلتی آگ پر تیل ڈالا۔ چناں چہ پاکستان تحریکِ انصاف کے لیے دست یاب سیاسی سپیس اور کم ہوگئی۔
ارشاد محمود کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/irshad-mehmood/
عالم یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان اور مریم نواز، عمران خان اور چیف جسٹس کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ ان کے حامی سپریم کورٹ کے سامنے ہونے والی اشتعال انگیز تقریروں کا ذکر ہی نہیں کرتے۔ دوسری جانب عمران خان کی سرگرمیوں کا ماحاصل یہ ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو نشانِ عبرت بنانا چاہتے ہیں۔
شور، غوغے اور ہاہاکار سے فرصت ملے، تو یہ گفت گو ضرور کرنی چاہیے کہ پاکستان کو موجودہ بحران سے کیسے نکالا جائے، تاکہ سیاسی استحکام قائم ہوسکے۔ بازارِ سیاست میں قرار لوٹ کر آسکے۔ یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اگر موجودہ سیاسی جمود برقرار رہتا ہے، تو معیشت مزید برباد ہوگی۔ غیر ملکی سرمایہ کاری تو درکنار بیرو نِ ملک پاکستانی بھی وطنِ عزیز کا رُخ کرنا چھوڑ دیں گے۔
سب بند گلی میں پھنس چکے ہیں۔ ٹیکنو کریٹ حکومت پر غالباً حکم ران اتحاد راضی ہوگا نہ پی ٹی آئی۔ جنرل الیکشن سے فرار ممکن نہیں۔ دقت یہ ہے کہ الیکشن میں جو شکست کھائے گا، وہ لنگوٹ کس کر الیکشن کی شفافیت کو چیلنج کرے گا اور حکومت کو ٹکنے نہیں دے گا۔ الیکشن کمیشن کی غیر جانب داری پر سوالات اُٹھتے ہیں اور آیندہ بھی الیکشن کمیشن کی نیت اور طرزِ عمل پر نکتہ چینی جاری رہے گی۔
شفاف الیکشن اور پُرامن انتقالِ اقتدار وہ نکتہ ہے جس پر تمام جماعتوں کو ازسرِ نو بیٹھ کر مذاکرات کرنے ہوں گے۔ قومی سلامتی کونسل کے مشترکہ اعلامیہ میں بھی اس جانب توجہ دلائی گئی کہ تمام اسٹیک ہولڈر مذاکرات کے ذریعے سیاسی مسائل کا حل تلاش کریں۔ پی ٹی آئی نے ایک مذاکراتی کمیٹی بنائی، لیکن نون لیگ کے وزرا نے ایسا اُودھم مچا دیا کہ مذاکرات کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ مذاکرات کا سلسلہ جہاں ٹوٹا تھا، وہاں سے ہی دوبارہ شروع ہونا چاہیے۔
تناو کے موجودہ ماحول میں پیپلز پارٹی سیاسی درجۂ حرارت کم کرانے اور متنازعہ اُمور پر اتفاقِ رائے پیدا کرانے میں کردار ادا کرسکتی ہے۔ کیوں کہ وہ پنجاب اور سندھ میں پی ٹی آئی کی حریف نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ بھی اب آصف علی زرداری کو اپنا گرو مانتی ہے۔ نون لیگ کے ساتھ اس کا یارانہ چل رہا ہے۔ اس طرح وہ متحارب فریقین کو اتفاقِ رائے پیدا کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔
نیلسن منڈیلا کو فروری 1990ء میں جنوبی افریقہ کی حکومت نے 27 سال بعد جیل سے رہا کیا۔ منڈیلا کو جنوبی افریقہ ہی نہیں بلکہ امریکہ اور برطانیہ کی حکومتوں نے بھی دہشت گرد قرار دیا تھا۔ باوجود اس کے کہ انھوں نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کیے۔ صدر بننے کے بعد مخالفین کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی۔ اُن کی سیاسی بصیرت نے جنوبی افریقہ کو انتقام کی آگ میں خاکستر ہونے سے بچالیا۔
رواں کشیدگی، توڑ پھوڑ اور سیاسی عدمِ استحکام سے تمام اسٹیک ہولڈروں کو سبق سیکھ کر مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنا چاہیے۔ سیاسی مسائل اور بحران کو طاقت کے بل بوتے پر حل کرنے کی بجائے حکمت اور دانائی کے ساتھ ان کا حل تلاش کیا جائے۔ یہ تسلیم کیا جائے کہ گذشتہ 75 برسوں سے پاکستان کی لیڈرشپ کوئی ایسا نظام وضع کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے، جو شفاف الیکشن اور پُرامن انتقالِ اقتدار کی ضمانت فراہم کرتا ہو۔
پی پی پی، نون لیگ اور پی ٹی آئی کو اسٹیبلشمنٹ نے گود لیا۔ پالا پوسا۔ من بھر گیا، تو دُھتکار دیا۔ ردِعمل میں یہ جماعتیں اُن پر چڑھ دوڑیں، تو اُن کی منجی ٹھوک دی گئی۔ یہ سلسلہ اب تمام ہونا چاہیے۔
پی ٹی آئی آج کل زیرِعتاب ہے۔ ظاہر ہے کہ دباو برداشت کرنا ہر کسی کے بس میں نہیں۔ کم زور اعصاب اور عہدوں کے لالچی پی ٹی آئی چھوڑ یں گے اور کچھ سیاست سے بھی تائب ہوجائیں گے۔ لوگ انھیں چمچے، لوٹے اور لفافے کے القابات سے نوازیں گے۔ تادمِ مرگ وہ دل ہی دل میں کڑھتے رہیں گے۔پی ٹی آئی کا ووٹر اور اس کے حامی بالخصوص معاشرے کے فعال طبقات نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ کھڑے ہونے کی بجائے گھر بیٹھنے کو ترجیح دیں گے۔ اُن میں سے اکثر و بیشتر نون لیگ اور پی پی پی کے طرزِ حکومت سے بددل ہوکر عمران خان کے ہم رکاب ہوئے تھے۔
یاد رہے کہ 70ء کی دہائی میں پیپلز پارٹی اور اُس وقت کی جنرل ضیاء الحق کی حکومت کے درمیان ہونے والی لڑائی کے اثرات سے ملک ابھی تک باہر نہیں نکل پایا ہے۔ جنرل کے ایم عار ف نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ عبدالولی خان نے ضیاء الحق کو ڈرایا اور کہا کہ قبر ایک ہے اور بندے دو۔ اب آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ کس نے زندہ رہنا ہے؟ چناں چہ جنرل ضیا نے اپنا آپ بچالیا اور بھٹو پھانسی پر جھول گئے۔ یہ وہی ضیاء الحق تھے، جنھیں بھٹو حقارت سے بندر کے نام سے پکارتے اور وہ جواب میں مسکراتے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی اس وقت کی عسکری لیڈرشپ سے گاڑھی چھنتی تھی۔ اُن کی جوشیلی تقریروں، رواں دواں انگریزی اور معاملہ فہمی سے جنرل یحییٰ خان اور ان کے رفقا بہت مرعوب تھے۔ اس قدر باہمی محبت اور احترام کے باوجود بھٹو صاحب اور اُن کے خاندان کو ناقابلِ تلافی جانی و مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔
اس پس منظر میں دانش کا تقاضا ہے کہ عمران خان کشیدگی کم کرنے میں پہل کریں۔ بے شک، اِسے اُن کی سیاسی کم زوری پر ہی کیوں نہ محمول کیا جائے۔ سیاست میں بسا اوقات دو قدم آگے اور ایک قدم پسپائی اختیار کرنا پڑتی ہے۔ آسمان نہیں ٹوٹ پڑے گا، اگر الیکشن چند ماہ تاخیر سے ہوجائیں۔
پی ٹی آئی جیسی قومی سطح کی اعتدال پسند سیاسی جماعت کو ریاست کے ساتھ اور ریاست کو اس کے ساتھ ٹکرانا نہیں چاہیے۔ ایک ایسی سیاسی جماعت جو کراچی سے خیبر تک پاکستانیوں کو ایک لڑی میں پروتی ہے، اُسے قائم ودائم رہنا چاہیے۔ایک ایسی جماعت جس پر لاکھوں سمندر پار پاکستانی جان چھڑکتے ہوں، اُسے دیوار کے ساتھ لگانے کے منفی اثرات تصور سے کئی زیادہ ہوں گے۔ سیاسی جماعتیں اور اُن کے کارکن قوم کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ اُنھیں جیلوں میں ڈال کر رسوا کرنے، اُن کی عورتوں کی تذلیل کرنے سے پاکستان محض کم زورنہیں بلکہ نڈھال ہوجائے گا۔فواد چودھری اور شیریں مزاری کی صاحب زادی کی آہ و بکاہ کا مذاق نہ اُڑائیں۔ سیاسی کارکن بھی ایک کنبے کی طرح ہوتے ہیں۔ دکھ سکھ سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔
احمد فرازؔ نے سیاسی نشیب و فراز کی کیا خوب منظر کشی کی ہے، ملاحظہ ہو:
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خو ش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔