چڑھتے سورج کی سرزمین، دید و شنید (سترہواں حصہ)

جیتے جاگتے مردوں کا شہر:۔ ایک ہفتہ کے دوروں اور سیر و سیاحت کے بعد ہم دوبارہ ایشیا لیڈرشپ فیلو پروگرام کی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے۔ اس سلسلہ میں پانچ اکتوبر کو ہم نے جاپان میں عمر رسیدہ افراد کی دیکھ بھال کے مراکز کا دورہ کرنا تھا۔ جاپان میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد میں تیزی سے بڑھتا ہوا اضافہ سنگین صورتحال اختیار کرگیا ہے۔اس مسئلہ پر جاپان میں سب سے زیادہ بحث کی جاتی ہے۔ چاہے آپ کسی تعلیمی سمینار میں ہوں یا گپ شپ والے ماحول میں، اس مسئلہ پر بحث ضرور ہوتی ہے۔
ہم مقررہ وقت پر تیار ہوئے اور سب ’’آذابو جوبان میٹرو سٹیشن‘‘ گئے، جہاں سے ہم نے ’’شین جوکو‘‘ کی گاڑی پکڑی اور ’’اتسوگی ‘‘شہر کی طرف چل پڑے۔ تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم وہاں پہنچے۔ ٹرین سٹیشن ہی میں ہماری ترجمان’’ کومیکو ‘‘ہمارا انتظار کر رہی تھی، جو خود بھی ساٹھ کی دہائی پار کرچکی تھی۔ ہم اپنی ترجمان سے ملے اور پیدل ہی توست سوکائے (Tosetsukai Nursing Care Facilty) کی طرف روانہ ہوئے۔ ’’توست سوکائے نرسنگ فسیلٹی‘‘ یہاں کی ایک سماجی کارکن’’ ماتاگی کیوکو‘‘ چلا رہی ہے جو کچھ عرصہ پہلے تک یہاں کی مقامی سیاست میں بھی فعا ل رہی ہے۔’’ماتاگی کیوکو‘‘ جو کہ ایک معمر لیکن انتہائی فعال خاتون ہونے کے ساتھ پُرکشش بھی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس نے دیکھ بھال کا یہ مرکز مال کمانے کے لیے نہیں بلکہ خدمت کے جذبہ کے تحت بنایا ہے۔’’اتسوگی‘‘ شہر میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد یہاں کی کل آبادی کا تقریباً تیس فی صد ہے۔ ماتاگی نے اولاً تو اپنا کاروبار 1990ء میں گھروں کی نگہداشت کے حوالے سے خدمات مہیا کرنے کے ادار ے سے شروع کیا تھا، مگر بعد میں اس نے اسے معمر افراد کی دیکھ بھال، ڈیمنشیا یعنی وہ معمر افراد جو دماغی بیماریوں جیسا کہ یادداشت کھوجانے والوں کی دیکھ بھال کا مرکز، اشیائے ضروریہ کو گھر گھر پہنچانے کی خدمات اور چھوٹے پچوں کی نگہداشت جس میں معذور بچوں، نرسری سکول اور سکول کے بعد بچوں کا خیال رکھنا شامل ہے، تک وسیع کیا۔
مجھے یہاں کی باقی کسی سرگرمی میں دلچسپی نہیں تھی، ما سوائے عمر رسیدہ افراد کے حوالے سے نگہداشت کے مراکز والی سرگرمی کے۔ معمر افراد کی دیکھ بھال کے حوالے سے یہاں دو قسم کے مراکز ہیں، ایک وہ جہاں دن کے وقت عمر رسیدہ افراد کا خیال رکھا جاتا ہے اور دوم وہ جہاں عمر رسیدہ افراد کا دن رات خیال رکھا جاتا ہے۔ اس قسم کے مراکز جاپان میں سیکڑوں ہیں، جن میں حکومتی اور غیر حکومتی ادارے شامل ہیں۔ ’’ماتاگی کیوکو‘‘ نے پہلے ہمیں مختصر بریفنگ دی اور پھر ہمیں اپنے مراکز کا دورہ کرانا شروع کیا۔ ہمیں پہلے اس سنٹر میں لے جایا گیا جہاں صرف دن کو بڑے بوڑھوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔ یہاں ان معمر افراد کو مختلف سرگرمیوں، ذہنی اور جسمانی کھیلوں میں مصروف رکھا جاتا ہے، تاکہ ان کا دن بھی اچھا گزرے اور ان کی ذہنی اور جسمانی نگہداشت بھی اچھے طریقے سے ہو۔

عمر رسیدہ افراد کا خیال رکھنے والے اس قسم کے مراکز جاپان میں سیکڑوں ہیں، جن میں حکومتی اور غیر حکومتی ادارے شامل ہیں۔ (Photo: pulitzercenter.org)

ہم لفٹ میں اوپر گئے۔ لفٹ کا دروازہ کھلا، جہاں ہم ایک بڑے ہال میں داخل ہوئے اور کئی معمر افراد سے ملے جنہیں مختلف سرگرمیوں میں مصروف رکھا گیا تھا۔ ان میں بعض گروپ کی شکل میں بیٹھ کر گپ شپ لگا رہے تھے، تو بعض کو دائرے کی شکل میں کرسیوں پر بٹھا کر ہاکی نما کھیل میں مصروف رکھا گیا تھا۔ یہاں تک تو بات ٹھیک تھی، کیوں کہ ان معمر افراد کو ہر صبح یہاں لایا جاتا تھا اور شام کو واپس گھر لے جایا جاتا تھا۔ تاہم میں نے عجیب سا منظر اُس سنٹر میں دیکھا جہاں معمر افراد دن رات رہتے تھے۔ ہم جب اس سنٹر میں داخل ہوئے، تو ہال صاف ستھرا تھا، مگر سنسان اور خاموش تھا۔ ہم تھوڑا آگے بڑھے، توتقریباً آٹھ معمر افراد کرسیوں پر بیٹھے تھے جب کہ ان کا خیال رکھنے والی خواتین ان کے ساتھ تھیں۔ میں جاپانی روایات کے مطابق جھک کر ان کو سلام کرنے کے بعد ان کے قریب گیا، تو حیرت انگیز طور پر وہ تمام مجھے ہی دیکھ رہے تھے۔ ان کے اداس چہروں کا جائزہ لیا، تو یہ شعر یاد آیا
سلوٹیں ہیں میرے چہرے پہ تو حیراں کیوں ہو
زندگی نے مجھے کچھ تم سے زیادہ پہنا
ایسالگ رہا تھا کہ ان میں سے ہر ایک اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے اپنی داستان سنانا چاہتا ہے۔ انہوں نے زندگی کو ہر روپ میں دیکھا تھا۔ بچپن کے کھیل کود اور بے فکری، نوجوانی کی آب وتاب اور مستیاں، درمیانی عمر کی محنت اور لگن اور اب بارُعب بڑھاپا۔ یہ سب زندگی کی تمام لذتوں کو چکھ چکے تھے، لیکن انہیں پتا نہیں تھا کہ ان کی زندگی میں بے بسی کی ایک ایسی لہر آئے گی جب یہ اپنے ہاتھ سے کوئی کام نہیں کرسکیں گے اور ان کی اولاد کے پاس اتنا وقت نہیں ہوگا کہ ان کی خدمت کریں گے۔ ہمارے معاشروں میں جب والدین بزرگ بن جاتے ہیں، تو ان کی قدر و قیمت بڑھ جاتی ہے۔ پر جاپان جیسے ترقی یافتہ ملک میں یہ بے کار پرزے ہیں اور لوگ ان کی لمبی عمروں سے تنگ نظر آتے ہیں۔ انہیں ایسے سنٹرز میں رکھا جاتا ہے جہاں وہ قیدیوں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں۔ گو کہ انہیں خوراک، لباس اور رہائش تو مہیا کی جاتی ہے، مگر جاپانی معاشرہ بھول گیا ہے کہ یہی وہ عمر ہوتی ہے جب ہر چیز سے زیادہ ان بزرگوں کو اپنو ں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ بزرگ بظاہر تو نگرانی کی ان عمارتوں میں مقیم تھے، مگران کا دل و دماغ کہیں اور تھا۔ ان کا ذہن ماضی کے جھروکوں میں جاپان کی پُرتعیش اور زندگی سے بھرپور ترقی یافتہ پرفیکچر میں تھا۔ وہ پرفیکچر جن کی موجودہ ترقی میں ان کا بھرپور ہاتھ تھا۔ انہوں نے کبھی یہ سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ان کی زندگی کی آخری عمر میں ان کو الک تھلگ جیل نما عمارتوں میں رکھا جائے گا۔ کل جب یہ جوان اور خوشحال تھے، تو اپنے بچوں کے تابناک مستقبل کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے تھے۔ انہوں نے بیس پچیس سال اپنے بچوں کے لیے جو دن رات محنت کی تھی اور ان کو پالا پوسا تھا، آج انہی بچوں کے ہاتھوں ان کو سنٹرز میں زندگی بسر کرنا پڑ رہی ہے۔ اگر ترقی کا نام اپنے بزرگ والدین کو چھوڑ نا ہے، تو پھر یہ ترقی نہیں مادہ پرستی، خود غرضی اور مردم بیزاری ہے۔ عجیب بات ہے کہ ان جاپانیوں کے پاس تو کتوں کو ساتھ رکھنے کے لیے، ان سے پیار اور ہر وقت ان کاخیال رکھنے کے لیے وقت ہے مگر اپنے بزرگ والدین کے لیے بالکل وقت نہیں۔

کل جب یہ جوان اور خوشحال تھے، تو اپنے بچوں کے تابناک مستقبل کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے تھے۔ (Photo: japantimes.co)

دوسری طرف یہاں نظام بدل چکا ہے۔ جاپان وہ ملک ہے جہاں آبادی میں اضافے کی رفتار رُک گئی ہے اور عمر رسیدہ افراد کی تعداد نوجوانوں اور بچوں سے کافی آگے نکل چکی ہے۔ ایسے میں یہاں کی تیزرفتار ترقی کا پہیہ چلانے کے لیے افرادی قوت کی ضرورت ہے، مگر معاشی پہیہ کو چلانے کے لیے ان کی افرادی قوت ناکافی ہے۔ اس لیے یہاں ہر کوئی چاہے وہ مرد ہو یا خاتون صبح سویرے کام کے لیے نکلتا ہے اور شام گئے واپس آتا ہے جس کی وجہ سے خاندانی ساخت یکسر تبدل ہوچکی ہے۔ اب یہاں ہمارے ملکوں جیسی خاندانی ساخت نہیں۔ کام، کام اور بس کام، پیسہ پیسہ اور بس پیسہ۔ ماں باپ، بہن بھائی اور رشتہ دار ی صرف نام کو رہ گئی ہے۔ بعض اوقات تو گھر سے نکلے یا خاندان سے الگ ہوئے کوئی شخص تیس چالیس سال تک واپس نہیں آتا اور یوں بالآخر میٹرو پولیٹن شہر کے کسی کمرے کے ایک کے کونے میں تن تنہا زندگی سے منھ موڑ لیتا ہے۔
میں نے کیکو کے معصوم چہرے پر تھکاوٹ اور مشینی زندگی کے آثار کو غور سے پڑھا تھا۔ کیکو اس سے نکلنا چاہتی تھی مگر وہ نہیں نکل سکتی تھی۔ کیوں کہ اس کو پیسہ چاہیے تھا۔ وہ چاہتے ہوئے بھی اپنے لیے وقت نہیں نکال پا رہی تھی۔ وہ ایک دن اپنے سٹور کی ایک الماری میں سامان رکھتے ہوئی مجھے کچھ لمحے دے کر خوش تھی اور وہ چیخ چیخ کر مجھ سے اپنی زندگی کی اداسی شیئر کرنا چاہتی تھی مگر ……نہ کرسکی۔ (جاری ہے)

……………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔