خبر یہ ہے کہ گندم کی نئی فصل آ چکی ہے اور حکومت کی طرف سے دھڑا دھڑ اس کی خریداری جاری ہے۔ پنجاب حکومت نے سالِ رواں کے لیے گندم کی امدادی قیمت 3900 روپے فی 40 کلوگرام مقرر کرکے کاشت کاروں کی اشک شوئی کی ہے…… جب کہ دیہاڑی دار اور مزدور طبقے نے گندم کی قیمت میں اتنی بڑی چھلانگ کو غیر منصفانہ فیصلہ قرار دیا ہے۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
دیکھا جائے تو مزدور اور دیہاڑی دار طبقہ پس کر رہ گیا ہے۔ یہ طبقہ اپنی قلیل آمدنی کی وجہ سے فاقہ کشی پر مجبور ہے۔ ذرا تصور کریں کہ چھے سات سو روپے روزانہ کمانے والا مزدور کس طرح گزارا کرتا ہوگا؟ ایسے میں نان بائیوں نے روٹی اور نان کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔ 15 روپے والی روٹی 20 روپے اور 25 روپے والے نان کی قیمت 30 روپے ہو گئی ہے۔ نان بائی اپنی مجبوری کا رونا رو رہے ہیں کہ بیس کلو آٹے کا تھیلا 2700 روپے کا کر دیا گیا ہے جب کہ فائن آٹے کی بوری کی قیمت 12000 روپے ہوگئی ہے۔ ایسے میں سرکاری نرخ پر نان اور روٹی فروخت کرنا ممکن نہیں رہا۔ یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب نئی فصل مارکیٹ میں آنے کی وجہ سے گندم آسانی اور فراوانی سے دستیاب ہے۔
جناب وزیر اعظم پاکستان نے گذشتہ دنوں قوم کو یہ خوش خبری سنائی تھی کہ پچھلے دس سالوں کے مقابلے میں گندم کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے۔ ہم ان کے اس دعوے کو جھٹلانے کی جسارت تو نہیں کرسکتے، مگر حقائق ان کے اس دعوے کی نفی کر رہے ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ زرعی رقبے پر کھمبیوں کی طرح ہاؤسنگ سوسائٹیاں اُگ آئی ہیں جس کی وجہ سے زرعی رقبے میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔ منصوبہ بندی کے فقدان اور حکومتوں کی بے توجہی کی بدولت رئیل اسٹیٹ کا کاروبار زراعت کو تیزی سے ہڑپ کر رہا ہے۔ سب کو اپنا کمیشن یا حصہ وصول کرنے سے غرض ہے۔ ملک کی کوئی نہیں سوچ رہا۔ ہمارے ہاں کثیرالمنزلہ رہایشی عمارتوں کا رجحان ابھی فروغ نہیں پا سکا۔ اس طرف توجہ دے کر قیمتی زرعی رقبے کو کم ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔
ریکارڈ پیداوار کے دعوے کی سچائی اس لیے بھی کچھ مشکوک لگتی ہے کہ گذشتہ سال کے سیلاب کے اثرات تاحال ختم نہیں ہوسکے اور بہت ساری زمین پر گندم کاشت نہیں کی جا سکی۔
ایک اور بڑی وجہ مارچ کے قریباً وسط میں شروع ہونے والا شدید بارشوں اور ژالہ باری کا سلسلہ تھا جس نے گندم کی فصل کو بہت نقصان پہنچایا۔ یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ گندم کا دانہ قدرے چھوٹا رہ گیا ہے، جس کے باعث گندم کی فی ایکڑ اوسط پیداوار میں کمی ہوئی ہے۔
ہم جناب وزیرِ اعظم کے ریکارڈ پیداوار کے دعوے کو پھر بھی سچا مان لیتے ہیں، مگر اس کا کہیں عملی ثبوت بھی تو دیا جائے۔ گندم کی امدادی قیمت 3900 روپے فی 40 کلوگرام مقرر کی گئی ہے، مگر تازہ ترین اطلاعات کے مطابق لاہور میں اس وقت گندم 5500 روپے فی 40 کلوگرام جب کہ راولپنڈی میں 6 ہزار روپے تک پہنچ چکی ہے۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دو تین ماہ بعد کیا صورتِ حال ہوگی۔ واقفانِ حال تو یہ کَہ رہے ہیں کہ اس مرتبہ اکتوبر نومبر میں گندم کی قیمت 7000 روپے فی 40 کلوگرام تک ہوسکتی ہے۔ اگر ریکارڈ پیداوار کے باوجود اس مرتبہ بھی گندم باہر سے درآمد کرنا پڑی یا اکتوبر سے مارچ تک لوگ آٹے کے حصول کے لیے لمبی قطاروں میں نظر آئے، تو ریکارڈ پیداوار کے دعوے کی کیا کریڈیبلٹی رہ جائے گی۔
حکومت نے اعلان کیا ہے بلکہ وارننگ دی ہے کہ کوئی عام شخص ہو یا بڑا زمین دار اپنی گھریلو ضرورت کے لیے 25 من تک گندم اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ اس سے زائد گندم حکومت کو فروخت کرنا ہوگی۔ اس سلسلے میں زائد گندم ذخیرہ کرنے والوں کے گھروں یا گوداموں پر چھاپے مار کر زائد گندم ضبط کرنے کے بھی متعدد واقعات ہو چکے ہیں۔ اگر غور کیا جائے، تو ملکِ عزیز میں گندم یا آٹے کی کمی تب سے شروع ہوئی ہے جب سے گندم کی 100 فی صد سرکاری خریداری کا آغاز کیا گیا۔ اس سے پہلے اس طرح کے حالات کبھی پیدا نہیں ہوتے تھے۔ زمین دار حضرات کافی مقدار میں گندم اپنے پاس ذخیرہ کر لیا کرتے تھے۔ گندم کی نئی فصل آنے سے پہلے جب دیہات میں مزدور پیشہ اور عام لوگوں کے پاس گندم کی کمی ہو جاتی تھی، تو گاؤں کے زمیند اروں کے پاس جا کر وہ ضرورت کے مطابق اُدھار گندم لے لیا کرتے تھے۔ زیادہ مستحق لوگوں کو مفت میں بھی گندم مہیا کر دی جاتی تھی۔ یوں ان لوگوں کو کبھی گندم یا آٹے کی کمی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا۔ حکومت نے زمین داروں کو بھی پچیس من گندم سے زائد رکھنے کی اجازت نہ دے کر دراصل غربا و مساکین کا استحصال کیا ہے۔ اب گندم سرکاری گوداموں میں پڑی گلتی سڑتی رہتی ہے اور ملک کی آدھی آبادی آٹے کے حصول کے لیے قطاروں میں لگی ہوتی ہے۔ ہر سال قطاروں میں کھڑے لوگوں کی اموات بھی ہوتی ہیں، مگر حکومت کی طرف سے کوئی ٹھوس اور جامع پالیسی نہیں بنائی جاتی جس پر عمل کرکے اس مستقل بحران پر قابو پایا جاسکے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔