’’اوبر‘‘ اس وقت دنیا بھر سے پانچ سو اکتالیس شہروں میں اپنی سروس چلا رہی ہے (بقول اوبر اطلاعات) اور دنیا کے ستر سے زائد ممالک میں یہ سروس کامیابی سے لوگوں کو سفری سہولیات مہیا کر رہی ہے۔ 2008ء میں اس کے آغاز سے اب تک اس کا سفری نیٹ ورک کم ہونے کے بجائے بڑھ رہا ہے۔ اس سروس کا آئیڈیا ٹریوس کیلانک (Travis Kalanick) اور گیریٹ کیمپ (Garrett Camp) کے دماغ میں آیا، جب 2008ء میں انہیں ایک مقام سے سفر کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد سے ان کا سفر جاری ہے۔ اسی طرز کی ایک اور کمپنی کریم 2012ء میں دوبئی میں قائم کی گئی اور آج اس کا دائرہ کار بھی پوری دنیا میں پھیلتا جا رہا ہے۔ اس کے بانیوں میں مدثر شیخ اور میگنیس اولسن کا نام سرفہرست ہے۔ اس طرح پوری دنیا میں دیگر کئی سفری سہولیات کی کمپنیاں قائم ہیں، جن میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف جدت آتی جا رہی ہے بلکہ سفر کرنے والوں کی سہولت کا بھی خیال رکھنے کی کوشش کی جار ہی ہے۔

’’اوبر‘‘ اس وقت دنیا بھر سے پانچ سو اکتالیس شہروں میں اپنی سروس چلا رہی ہے (بقول اوبر اطلاعات) اور دنیا کے ستر سے زائد ممالک میں یہ سروس کامیابی سے لوگوں کو سفری سہولیات مہیا کر رہی ہے۔ 2008ء میں اس کے آغاز سے اب تک اس کا سفری نیٹ ورک کم ہونے کے بجائے بڑھ رہا ہے۔ اس سروس کا آئیڈیا ٹریوس کیلانک (Travis Kalanick) اور گیریٹ کیمپ (Garrett Camp) کے دماغ میں آیا، جب 2008ء میں انہیں ایک مقام سے سفر کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد سے ان کا سفر جاری ہے۔

’’اوبر‘‘ اس وقت دنیا بھر سے پانچ سو اکتالیس شہروں میں اپنی سروس چلا رہی ہے (بقول اوبر اطلاعات) اور دنیا کے ستر سے زائد ممالک میں یہ سروس کامیابی سے لوگوں کو سفری سہولیات مہیا کر رہی ہے۔ 2008ء میں اس کے آغاز سے اب تک اس کا سفری نیٹ ورک کم ہونے کے بجائے بڑھ رہا ہے۔ اس سروس کا آئیڈیا ٹریوس کیلانک (Travis Kalanick) اور گیریٹ کیمپ (Garrett Camp) کے دماغ میں آیا، جب 2008ء میں انہیں ایک مقام سے سفر کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد سے ان کا سفر جاری ہے۔

اوبر کے خلاف لندن، پیرس، برلن، میڈرڈ اور دنیا کے دیگر کئی بڑے شہروں میں احتجاج ہو چکا ہے اور ہو بھی رہا ہے۔ برلن میں تو اوبر پر پابندی اب تک قائم ہے (جرمنی کے دیگر شہروں میں اس کی سروس جاری ہے)۔

 اسی طرز کی ایک اور کمپنی کریم 2012ء میں دوبئی میں قائم کی گئی اور آج اس کا دائرہ کار بھی پوری دنیا میں پھیلتا جا رہا ہے۔ اس کے بانیوں میں مدثر شیخ اور میگنیس اولسن کا نام سرفہرست ہے۔

اسی طرز کی ایک اور کمپنی کریم 2012ء میں دوبئی میں قائم کی گئی اور آج اس کا دائرہ کار بھی پوری دنیا میں پھیلتا جا رہا ہے۔ اس کے بانیوں میں مدثر شیخ اور میگنیس اولسن کا نام سرفہرست ہے۔

جب کہ کریم کے خلاف بھی مصر میں وہاں کے ٹیکسی ڈرائیورز منظم احتجاج کر چکے ہیں اور اب بھی کریم اور اوبر جیسی کمپنیوں کو بھارت، چین، امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس اور دنیا کے دیگر بڑے ممالک میں کئی مسائل کا سامنا بھی ہے اور تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے، مگر اس کے باوجود یہ کامیابی سے اپنے نیٹ ورک میں توسیع کرتی جار ہی ہیں اور ان کا منافع بھی بڑھ رہا ہے۔ کیوں کہ سفر کرنے والوں کو سہولت کے ساتھ آرام دہ سفر میسر ہے۔ حالیہ برسوں میں جب اوبر اور کریم نے پاکستان میں اپنی سہولیات کا آغاز کیا، تو حیران کن طور پر پاکستانی اداروں کو ہوش نہیں آیا۔ یہ باقاعدہ کمپنیز کے طور پر پوری دنیا میں کام کر رہی ہیں، مگر نہ جانے وطن عزیز میں مدہوش افسر شاہی کا دھیان اس طرف کیوں نہیں گیا کہ جو کمپنیاں پوری دنیا میں اپنی دائرہ اختیار رکھتی ہیں، وہ اگر پاکستان میں اپنی سروس شروع کرنے جا رہی ہیں تو کیا انہوں نے یہاں کام کرنے کا اجازت نامہ حاصل کیا ہے؟ یا کیا ان کمپنیز نے پاکستان کے قواعد و ضوابط کے مطابق خود کو رجسٹرڈ کروایا ہے؟ یہ تو بدقسمتی ہے اوبر اور کریم کی کہ انہوں نے پاکستانی عوام کو اپنی بہتر خدمات کے عوض اپنی طرف راغب کر لیا، ورنہ اگر پاکستان میں ان کے آپریشنز بظاہر ناکام ہی رہتے، تو کسی کا دھیان ہی ان کی طرف نہ جاتا۔ کریم نے 2016ء میں جب پاکستان میں اپنی سروس کا آغاز کیا، تو باقاعدہ الیکٹرانک میڈیا پہ اس کے اشتہار چلتے رہے۔

اوبر کی سروس پاکستان میں محدود پیمانے پر ہے، جب کہ کریم نے کئی شہروں میں اپنا دائرہ کار پھیلالیا ہے، تو جب یہ کمپنیاں اپنا نیٹ ورک قائم کر رہی تھیں، تو کسی نے ان سے پوچھنے کی زحمت کیوں نہ کی کہ جناب آپ یہاں کسی کی اجازت سے اپنا کاروبار پھیلا رہے ہیں؟ مگر وطن عزیز میں تو بند آنکھوں سے ہی نظام چلا یا جا رہا ہے، سو کس نے دیکھنا تھا کس نے خبر لینی تھی؟

عوام نے ابتدائی طور پر کچھ خاص توجہ نہ دی، مگر جب پاکستان کے روایتی سفری ذرائع کی خستہ حالی، بدترین رویے سے تنگ لوگوں نے اپنی توجہ ان کمپنیز کی جانب کی، تو تب ٹرانسپورٹ مافیا کا دھیان اس طرف گیا کہ یہ کون ہے جو نہایت مناسب خرچ میں انتہائی بہتر سفری سہولت دینے لگا ہے؟ ورنہ پاکستان میں تو ہم چنگھاڑتی بسوں، وین مافیا اور گرتی پڑتی پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کے ہی عادی تھے۔ نتیجتاً یہ کمپنیز حکومتی نظر میں آ گئیں یا یوں کہہ لیں کہ ان کی جانب نظر ڈلوائی گئی کہ یہ دیکھیں جناب یہ کون ہیں جو عوام کو آسانی فراہم کرنے کے چکر میں ہیں؟
پاکستانی عوام بے چارے، تو بسوں میں لٹکنے کے عادی ہیں، یہ کون ہیں جو انہیں ’’باعزت‘‘ طریقے سے منزل پہ پہنچا رہا ہے؟ بس جناب، اس کے بعد کے حالات آپ کے سامنے ہیں۔

یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ بین الاقوامی کمپنیز نے پاکستان میں آپریشنز شروع کیے، تو پاکستانی اداروں کے علم میں ہی نہیں آ سکا۔ کوتاہی کرنے والوں کی بھی ذرا باز پرس نہ کی جائے کہ کیوں آنکھیں بند کیے بیٹھے رہے؟

یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ بین الاقوامی کمپنیز نے پاکستان میں آپریشنز شروع کیے، تو پاکستانی اداروں کے علم میں ہی نہیں آ سکا۔ کوتاہی کرنے والوں سے بھی ذرا باز پرس کی جائے کہ کیوں آنکھیں بند کیے بیٹھے رہے؟

ان بین الاقوامی سفری کمپنیوں نے نہ صرف عوام کو پر سکون سفر کی ضمانت دی بلکہ اس کے لیے نہایت مناسب رقم بھی رکھی گئی جو عام طور پر ٹیکسی والے حضرات کے یا تو برابر ہوتی ہے یا فرق اتنا کم ہوتا ہے کہ ایک پُرسکون سفر کے حوالے سے یہ فرق بھی نظر انداز ہو جاتا ہے۔ اب جب عوام کو کچھ سہولت ملنا شروع ہوگئی، تو اربابِ اختیار کو ہوش آیا کہ یہ کیوں ہو رہا ہے کہ عوام ذرا سکھ کا سانس لیں؟ ہرکارے دوڑے کہ خبردار……! عوام سکون کا سانس نہ لینے پائیں۔ جو ادارے، حکام ابھی ان کمپنیز کو ٹیکس نیٹ کے دائرے میں لانے کا راگ الاپ رہے ہیں، سب سے پہلے تو کان ان کے مروڑنے چاہئیں کہ جب بار بار اشتہارات ان کمپنیزکے چل رہے تھے، تب کیوں انہیں ہوش نہیں آیا؟
جب عوام کو کچھ سکون میسر آنے لگا، تب ہی انہیں ٹیکس کے مروڑ کیوں اٹھنا شروع ہوئے؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ بین الاقوامی کمپنیز نے پاکستان میں آپریشنز شروع کیے، تو پاکستانی اداروں کے علم میں ہی نہیں آ سکا۔ کوتاہی کرنے والوں سے بھی ذرا باز پرس کی جائے کہ کیوں آنکھیں بند کیے بیٹھے رہے؟