مرغزار ایک ایسا نام جو ذہن میں طراوت اور روئیدگی کا ایک مسحور کن احساس اُبھارتا ہے اور جسے سُن کر آنکھوں کے سامنے سرسبز و شاداب، قدرت کی رعنائیوں سے بھرپور ایک حسین و دل کش وادی کا روپ اُجاگر ہوتا ہے۔ سوات کی یہ حسین و جمیل اور قدرے تنگ وادی، سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جو پکی سڑک کے ذریعے جنوب مغرب کی طرف سے سیدو شریف اور مینگورہ سے ملتی ہے۔ یہ سحر انگیز وادی، سوات کے مشہور اور تاریخی پہاڑ ایلم کے دامن میں واقع ہے جس کا پرانا نام "مینہ” تھا۔ یہ پرانا نام مرغزار کے قریب مغربی جانب واقع ’’ٹل‘‘ اور ’’وربازہ‘‘ نامی مقامات کے درمیان ایک چھوٹی سی جگہ کی صورت میں اب بھی موجود ہے۔ "مینہ” پشتو زبان کا لفظ ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ جگہ جو شہر بھی نہ ہو اور گاؤں کے برابر بھی نہ ہو۔ مطلب یہ کہ وہ علاقہ جہاں لوگ نئے نئے آباد ہونا شروع ہوئے ہوں اور جس کی آبادی بتدریج بڑھ رہی ہو، اسے مینہ کہتے ہیں۔ بعد میں مرغزار کا یہ نام میاں گل عبدالودود (بادشاہ صاحب) نے یہاں کے حسین سبزہ زاروں کی وجہ سے بدل کر "مرغزار” رکھا۔
مرغزار جانے والے راستے میں کئی دیہات اور گاؤں آتے ہیں جن میں شگئی، میاں بابا، بٹوڑا، کوکڑئی، چتوڑ، اسلام پور اور سپل بانڈئی قابل ذکر ہیں۔ یہ دیہات فطری حسن و دل کشی کی زندہ تصویریں ہیں۔ ان سب میں اسلام پور کا علاقہ عرصۂ قدیم سے کھڈیوں کی صنعت کے لیے مشہور و معروف چلا آ رہا ہے جسے بجا طور پر سوات کا مانچسٹر بھی کہا جا سکتا ہے۔

سوات کا مانچسٹر کہلانے والا گاؤں "اسلام پور” (فوٹو: امجد علی سحابؔ)

ایلم پہاڑ مرغزار کا قریبی پہاڑ ہے جو 9250 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہ پہاڑ تاریخی لحاظ سے منفرد اہمیت کا حامل ہے۔ اس پہاڑ کے اوپر ایک چبوترہ بنا ہوا ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ یہ چبوترہ سری رام چندرجی  (ہندوؤں کے اوتار) نے اس زمانے میں بنایا تھا جب انھوں نے آبادی کی بجائے جنگلوں کو اپنا مسکن بنایا تھا۔ ہندوؤں کی تاریخی اور مذہبی کتابوں میں اس کو ’’بن باس‘‘ کا زمانہ کہا جاتا ہے۔ بن کا مطلب جنگل اور باس (باش) کے معنی ہیں، رہائش اختیار کرنا۔ رام چندر جی نے ایلم پہاڑکی چوٹی پر موجود، اپنے بن باس کے دوران میں بنائے ہوئے چبوترے پر کافی عرصہ گزارا تھا اور اس قدیم روایت کی بنا پر قیام پاکستان سے قبل سابق ہندوستان کے کونے کونے سے ہندو یہاں اس متبرک چبوترے کی زیارت کے لے آیا کرتے تھے۔ وہ اس جگہ کو بڑا متبرک خیال کرتے تھے اور انتہائی ادب اور احترام کی وجہ سے وہ اسے ’’رام تخت‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ رام چندر جی سے منسوب ایلم پہاڑکی چوٹی پر واقع اس چبوترے پر قیامِ پاکستان کے بعد بھی کچھ عرصہ تک محدود ہندوؤں پر مشتمل ایک چھوٹا سا سالانہ میلہ لگتا تھا جس کی روایت بعد ازاں رفتہ رفتہ ختم ہوگئی۔ سوات کے تاریخی پہاڑ ایلم میں رام چندر جی کی آمد کا زمانہ 500 (ق۔م) بتایا جاتا ہے۔ ایلم کی دوسری جانب مشہور روحانی پیشوا پیر بابا کا مزار اور ضلع بونیر کا سرسبز و شاداب علاقہ واقع ہے، جہاں مرغزار سے اس پہاڑکے راستے پیدل بھی جایا جا سکتا ہے۔

ایلم پہاڑ کی چوٹی "جوگیانو سر” جہاں رام چندر جی نے سیتا میا کے ساتھ بن باس لیا تھا۔ (فوٹو: امجد علی سحابؔ)

مرغزار نہ صرف اپنی دِل کشی اور اچھوتے حسن کے اعتبار سے مشہور ہے بلکہ یہ علاقہ اپنے معدنی وسائل کے سبب بھی شہرت رکھتا ہے۔ یہاں کے پہاڑوں میں سنگِ مرمر کی کئی نادر اقسام پائی جاتی ہیں۔ یہاں ’’سپید محل‘‘ کے نام سے سنگِ مرمر سے بنی ہوئی ایک خوب صورت عمارت بھی موجود ہے جو بانیِ جدید ریاستِ سوات میاں گل عبدالودود (بادشاہ صاحب) نے تعمیر کروایا تھا۔ اس محل پر تعمیری کام کا آغاز 1935ء میں کیا گیا تھا اور اس کی تکمیل 1941ء میں ہوئی تھی۔ اس محل میں سپید سنگِ مرمر کے دل کش اور قیمتی ٹکڑے استعمال کیے گئے ہیں جس کی وجہ سے محل کے نچلے حصے میں خوب صورت سپید سنگِ مرمر محل کی شان و شوکت اور اس کے حُسن میں ملکوتی اضافہ کرتے ہیں۔ یہ محل ایک وسیع رقبے میں پھیلا ہوا ہے جس کابالائی حصہ بہت پُرسکون ماحول میں واقع ہے۔ اس کے اردگرد پہاڑوں پرگھنے درختوں کے سلسلے، محل میں موجود حسین اور معطر پھول، اس کے ساتھ بیٹھنے کے لیے سنگِ مرمر کے بنے ہوئے خوب صورت بینچ، یہاں موجود سبزے کی مخملیں چادر محل کی دل کشی اور خوب صورتی کو چار چاند لگا رہی ہے۔ یہ سپید محل بادشاہ صاحب (مرحوم) کا گرمائی صدر مقام تھا جس کو اب ہوٹل کی حیثیت دے دی گئی ہے۔ اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے آج بھی عام سیاح بے تاب نظر آتے ہیں۔ یہ تاریخی محل بلا شبہ جدید فنِ تعمیر کا خوب صورت نمونہ ہے۔

مرغزار کے سفید محل کی بہار میں لی جانے والی خوبصورت تصویر۔ (Photo: SwatValley)

مرغزار کی وادی، سوات کے مرکزی شہر منگورہ سے قریب ہونے کی وجہ سے سیاحوں کے لیے بہت دل چسپی کا باعث ہے۔ یہاں ہر وقت سیاحوں کا جمِ غفیر رہتا ہے۔ مرغزار میں سیاحوں کے لیے بہت سی سہولتیں موجود ہیں۔ یہاں ہر وقت ٹریفک کی آمد و رفت جاری رہتی ہے۔ یہاں ایک چھوٹا سا مختصر بازار ہے، جو دو حصوں پر مشتمل ہے۔ بازار کے ایک حصے میں چائے کے ہوٹل اور علاقے کے لوگوں کے لیے روزمرہ ضرورت کی اشیا پر مشتمل دُکانیں ہیں جب کہ بازار کا دوسرا حصہ پانچ چھے دکانوں پر مشتمل ہے جن میں ہینڈی کرافٹس، سواتی مصنوعات، قدیم نوادرات، زمرد، یاقوت اور دیگر قیمتی پتھر دست یاب ہیں، جو باذوق سیاحوں کے لیے تحفۂ خاص کی حیثیت رکھتے ہیں۔
مرغزار بہت پُرسکون اور حسین جگہ ہے۔ یہاں ایک بڑی ندی بھی بہتی ہے، جس میں بڑے بڑے پتھر عجیب دل کشی کا سبب ہیں۔ سیاح مرغزار آکر عموماً سپید محل اور اس کے قرب کی جگہوں تک ہی محدود ہوجاتے ہیں، حالاں کہ مرغزار میں سیر و تفریح کی بہترین جگہیں اس کے پہاڑ ہیں جو کیمپنگ اور ٹریکنگ کے لیے بہت موزوں ہیں۔ ان پہاڑوں کے دامن میں جابجا قدرتی چشمے ہیں جن کا پانی نہایت ٹھنڈا اور شیریں ہے۔ پہاڑوں کی بلندیوں سے نیچے مرغزار کا نظارہ بہت حسین اور دل موہ لینے والا ہے۔ یہاں تا حدِ نگاہ خوب صورت باغات اور پھلوں سے لدے ہوئے درخت نظر آتے ہیں جو مرغزار کی کشش اور حسن میں اضافہ کا باعث ہیں۔ (فضل ربی راہی کی کتاب "سوات سیاحوں کی جنت” سے انتخاب)