تبصرہ نگار: طیبا سید
یہ کہانی شروع ہوتی ہے ایک ویران چرچ سے جس کی چھت گرچکی ہوتی ہے…… اور وہاں ایک شامی انجیر نشو و نما پاتے ہوئے ایک بڑے درخت کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ ایک ہسپانوی چرواہا ’’سینتیاگو‘‘ اپنی بھیڑوں کے ساتھ رات گزارنے کا ارادہ کرتا ہے۔
سینتیاگو کے والدین ایک غریب طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ سینتیاگو تعلیم حاصل کر کے ایک مذہبی پیشوا بن جائے، جس سے اُن کے خاندان کا نام روشن ہو…… جب کہ سینتیاگو سفر کرنا چاہتا تھا۔ اُس کے والد نے اُسے بتایا کہ یہ سفر کرنے والے بڑے لوگ ہوتے ہیں۔ اُن کے پاس بہت پیسا ہوتا ہے…… جب کہ غریب طبقہ کے لوگ صرف ایک صورت میں ہی سفر کرسکتے ہیں کہ وہ چرواہے بن جائیں۔ یوں سینتیاگو اپنا خواب پورا کرنے کے لیے چرواہا بننا قبول کرتا ہے۔ اُس کے والد سے ملنے والی رقم سے وہ بھیڑیں خرید لیتا ہے اور دور دراز کے علاقوں میں سفر کرتا رہتا ہے۔ اُسے اپنی بھیڑوں سے محبت ہوتی ہے اور وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ اُس کی بھیڑیں اُس کے بغیر سروائیو نہیں کر پائیں گی۔
یوں ہی ایک بار وہ کسی علاقے میں اپنے ریوڑ کی اُون اُتار کر بیچنے کے لیے تاجر کے پاس جاتا ہے…… اور اُسے وہاں تاجر کی بیٹی پسند آ جاتی ہے۔ وہاں سے واپسی پر سال بھر وہ اُسے یاد آتی رہتی ہے۔ پھر ایک سال بعد اُسے اُون بیچنے کے لیے اُسی تاجر کے ہاں جانا ہوتا ہے اور وہ دو چار روز قبل ہی تیاریوں میں مصروف ہوجاتا ہے۔
اُسے یہ خوف بھی رہتا ہے کہ کہیں وہ لڑکی اُسے بھول نہ گئی ہو یا اُس کی شادی ہو گئی ہو۔
اُس طرف سفر کرتے ہوئے وہ ایک مقام پر پڑاؤ ڈالتا ہے، تو وہاں وہ ایک جپسی بوڑھی خاتون کے پاس اپنے بار بار آنے والے خواب کی تعبیر معلوم کرنے جاتا ہے۔ اور اصل کہانی یہیں سے شروع ہوتی ہے ۔
٭ سینتیاگو کے خواب:۔
اُسے خواب میں با رہا اہرامِ مصر نظر آتے ہیں…… اور خواب کی تعبیر بتانے والی عورت اُسے بتاتی ہے کہ اُسے وہاں خزانہ ملے گا…… اور وہ اُس سے فیس نہیں لیتی بلکہ وعدہ لیتی ہے کہ جب وہ خزانہ حاصل کرلے، تو اُس کا 10 فی صد اُسے دے گا۔ وہ وعدہ کر کے غیر مطمئن وہاں سے لوٹ آتا ہے۔
٭ سینتیاگو اور بادشاہ:۔
وہ ایک پلازے کے سامنے بینچ پہ بیٹھے ایک کتاب پڑھ رہا ہوتا ہے کہ اُس کے ساتھ ایک بوڑھا شخص بیٹھ جاتا ہے، جو اُس کے مطالعے میں مخل ہوتا ہے اور پھر سینتیاگو کو اُس کے خواب کے بارے میں بتاتا ہے…… اور اُسے کہتا ہے کہ اگر وہ اپنی بھیڑوں کا دس فی صد اُسے لا دیتا ہے، تو وہ اُسے بتائے گا کہ وہ خزانہ کیسے ڈھونڈے۔ سینتیاگو کو شبہ ہوتا ہے کہ یہ شخص کہیں جپسی خاتون کا شوہر نہ ہو، اور اس کا پیچھا کرتا ہوا یہاں آ گیا ہو…… لیکن وہ شخص سینتیاگو کو اُس کے بارے میں وہ باتیں بتاتے ہیں، جو اَب تک اُس نے کسی کے گوش گزار نہیں کی ہوتیں…… جیسا کہ مرچنٹ کی بیٹی کے لیے پسندیدگی۔
بلآخر وہ اگلے دن چھے بھیڑیں اُس آدمی کو لا دیتا ہے ۔ وہ آدمی اُسے بتاتا ہے کہ وہ ایک بادشاہ ہے اور اُس لڑکے کو اپنی ٹوپی میں چھپی ہوئی جواہرات سے مزین پلیٹ سے سفید اور سیاہ رنگ کے پتھر اُتار کر دیتا ہے۔ یورم اور تھمم۔ سفید کا مطلب ہاں اور سیاہ کا مطلب ناں ہوتا ہے۔
وہ اُسے بتاتا ہے کہ اُسے اپنی قسمت (مقصد) کو پانے کے لیے شگون/ قدرت کے اشاروں کی پیروی کرنی ہوگی اور جب تم اُن اشاروں کی زباں کو سمجھ نہ پاؤ، تو تم اُن پتھروں کی مدد لے لینا۔
٭ سینتیاگو اور افریقہ:۔
سینتیاگو تاجر کی بیٹی سے ملنے کی بجائے اپنی قسمت کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔ وہ اپنا سارا ریوڑ بیچ دیتا ہے اور افریقہ کے لیے نکل پڑتا ہے۔ ریوڑ بیچنا اُس کے لیے قطعی آسان نہ تھا…… وہ اس کا ’’کمفرٹ زون‘‘ تھیں۔
وہ جب افریقہ پہنچتا ہے، تو اُسے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کی زبان عربی اُسے نہیں آتی اور وہاں کے ماحول میں وہ مکمل اجنبی ہوتا ہے۔ وہ ایک ریستوران میں جاتا ہے…… اور وہاں دیکھتا ہے کہ ایک عرب کو ہسپانوی زبان بھی بولنی آتی ہے۔
وہ اُس سے ملتا ہے اور اُسے اپنی روداد سناتا ہے اور اُسے اپنے سفر پہ بطورِ گائیڈ ساتھ چلنے کی پیشکش کرتا ہے، جو وہ فوراً مان لیتا ہے۔ وہ اُسے بتاتا ہے کہ وہ افریقہ میں تو آگیا ہے، لیکن اہرامِ مصر یہاں سے ہزاروں میل دور ہیں…… اور وہاں جانے کے لیے بہت پیسا درکار ہے۔ وہ اُس سے پوچھتا ہے کہ اُس کے پاس اتنے پیسے ہیں بھی یا نہیں……؟ وہ اُس عرب کو اپنے سارے پیسے دکھا دیتا ہے اور وہ اُسے مشورہ دیتا ہے کہ اُن کو اہرامِ مصر تک جانے کے لیے اونٹ خریدنے ہوں گے۔ وہ اُس کے ساتھ بازار کو چل دیتا ہے۔
٭ سینتیاگو اور تارنگا کا بازار:۔
سینتیاگو اُس شخص کے ساتھ بازار میں اونٹ خریدنے کے لیے آتا ہے۔ وہ شخص اُسے پیسا اُس کے حوالے کرنے کے لیے کہتا ہے…… اور یہ نہ چاہتے ہوئے بھی اُسے پکڑا دیتا ہے۔ بازار میں اس کی نظر ایک خوب صورت تلوار پر پڑتی ہے، تو وہ کچھ دیر کے لیے وہیں ٹھہر جاتا ہے اور اُس کی اُس ذرا سی بے پروائی سے وہ شخص اس کے پیسے لے کر بھاگ جاتا ہے۔ یہ کافی دیر اُس کا انتظار کرتا ہے، لیکن وہ نہیں آتا۔
اس طرح سینتیاگو اپنی ساری جمع پونچی لٹ جانے کے غم میں روتا ہے…… اور اُسے یاد آتا ہے کہ وہ تو کبھی اپنی بھیڑوں کے سامنے بھی نہیں رویا تھا۔ پھر وہ بیچ بازار ہی سو جاتا ہے۔ صبح جب اُس کی آنکھ کھلتی ہے، تو بازار میں چھابڑی والے اپنا سامان سجانے کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ افسردہ ہوتا ہے۔پھر وہ اپنے تھیلے میں سے یورم اور تھمم نکال لیتا ہے۔ اُسے چھو کر اُسے بادشاہ کی یاد آتی ہے۔ اُسے اپنا خواب یاد آتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اُس کی جیب میں ایک روپیا بھی نہیں…… لیکن اُسے بادشاہ سے کی گئی ملاقات بہت خاص معلوم ہوتی ہے اور وہ اِرادہ کرتا ہے کہ وہ اپنا خواب ضرور پورا کرے گا۔
٭ سینتیآگو اور کرسٹل مرچنٹ:۔ تارنگا کے بازار میں ایک پہاڑی پر کرسٹل کی دکان ہوتی ہے جو کسی زمانے میں خوب کاروبار کرتی تھی، لیکن اب تارنگا کے ساتھ والے شہر کی ترقی کی وجہ سے اس کا کاروبار ٹھپ چکا ہوتا ہے۔ سینتیاگو اس دکان کے بورڈ پہ دیکھتا ہے کہ اس دکان میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں، وہ وہاں بوڑھے کرسٹل کے تاجر سے ملتا ہے اور اس کے کرسٹل کی دھول صاف کرنے کے بدلے میں کھانا مانگتا ہے۔ وہ کرسٹل صاف کر رہا ہوتا ہے، تو دکان میں گاہک کی آمد ہو جاتی ہے اور تاجر اسے نیک شگون سمجھتا ہے اور سینتیاگو کو اپنے پاس کام کرنے کے لیے رکھ لیتا ہے۔ سینتیاگو اُسے اپنے خواب کے بارے میں بتاتا ہے، تو مرچنٹ اُسے بتاتا ہے کہ اہرامِ مصر صحارا کے خطرناک صحرا کے پار ہے۔جہاں جانے کے لیے اُسے کسی کاروان کے ساتھ جانا ہوگا۔
سینتیاگو اسے ناممکن سمجھ کر یہ سوچتا ہے کہ وہ اس دکان پر کام کرے گا اور جب اس کے پاس دگنی بھیڑیں لینے کے پیسے جمع ہو گئے، تو وہ اپنے ملک واپس چلا جائے گا۔ سینتیاگو کی کاروبار میں جدت لانے کے سبب کاروبار جم جاتا ہے اور آٹھ ماہ میں اس کے پاس دگنی بھیڑیں خریدنے کے پیسے جمع ہوتے ہیں…… اور وہ اپنے ملک واپس جانے کا ارادہ کرتا ہے۔
جس دن وہ اپنے ملک واپس جانے کے لیے روانہ ہونے لگتا ہے، اُسے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں سے کوئی قافلہ صحرائے صحارا کو نکل رہا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ کیا یہاں سے اس کے خواب کی تکمیل کرنا واقعی ہی اتنا مشکل ہے؟ اگر وہ ناکام بھی ہو جاتا ہے، تو وہ واپس آکر کبھی کرسٹل کی دکان پر کام کرسکتا ہے اور دوبارہ بھیڑیں لے سکتا ہے۔ اگر وہ ناکام بھی ہو گیا، تو کم از کم اُس نے اپنے ملک کے تمام چرواہوں سے زیادہ گھوما ہوگا اور چیزوں کو سیکھا ہوگا۔ وہ اس کارواں میں شامل ہو جاتا ہے ۔
٭ سینتیاگو، صحرائے صحارا اور انگریز:۔ کارواں کا حصہ بننے سے پہلے اس کی ملاقات ایک انگریز سے ہوتی ہے جس کے پاس بھی یورم اور تھمم ہوتا ہے۔ اُس کے پاس کتابوں سے بھرے ہوئے بریف کیس ہوتے ہیں۔ وہ ایک الکیمسٹ کی تلاش میں ہوتا ہے جو کسی بھی دھات کو سونا بنانے میں اس کی مدد کرے۔ وہ کتابوں سے بہت کچھ سیکھتا ہے لیکن سونا بنانے میں ناکام رہتا ہے۔ اُسے معلوم ہوتا ہے کہ صحرا میں کوئی ایسا الکیمسٹ ہے جس کی عمر دو سو سال سے زائد ہے اور وہ یہ علم جانتا ہے۔ وہ اُسی الکیمسٹ کو ڈھونڈنے کے لیے کارواں کا حصہ بنتا ہے۔ سینتیاگو کے ساتھ وہ اس لیے مراسم قائم کر لیتا ہے کہ اُسے بھی ہسپانوی زبان آتی ہے اور سینتیاگو اب عربی بھی بول لیتا ہے اور اُسے محسوس ہوتا ہے کہ الکیمسٹ کو ڈھونڈنے میں وہ اُس کی مدد کرے گا۔
کاروان کی روانگی سے پہلے عرب مسلمان لیڈر انتہائی سیکولر تقریر کرتا ہے، جو اُس کتاب کی جان ہے ۔
’’آپ سب کے ساتھ اپنے اپنے خدا ہیں، لیکن مَیں صرف ایک خدا پر یقین رکھتا ہوں اور میرا خدا اللہ ہے۔ آپ سب اپنے اپنے خدا کی قسم کھا کر کہیں کہ لیڈر کی فرماں برداری کریں گے۔ صحرا میں لیڈر کی بات کو نہ ماننے کا مطلب موت ہے۔‘‘
٭ سینتیاگو، انگریز اور اونٹ سوار:۔ سینتیاگو سوچتا ہے کہ انسان جیسے جیسے اپنے خواب کے نزدیک ہوتا جاتا ہے، ساری کائنات اس کی مدد کرنا شروع ہو جاتی ہے۔ اگر وہ تارنگا کے بازار میں اپنی رقم نہ کھوتا اور کرسٹل مرچنٹ سے نہ ملتا، تو آج وہ اس کارواں کا حصہ نہ بنتا۔
اس ناول میں بار بار دُہرایا جانے والا ڈائیلاگ ’’جب تم کسی چیز کو پانے کی دل سے کوشش کرلو، تو کائنات کا ذرا ذرا تمھیں اُس سے ملانے کی سازش میں مصروف ہو جاتا ہے۔‘‘
اسی طرح انگریز شخص بھی اُسے یہی سکھاتا ہے کہ زندگی میں قسمت اور اتفاق دونوں بہت معنی رکھتے ہیں۔
دورانِ سفر انگریز اپنی کتابوں میں کھویا رہتا ہے جب کہ سینتیاگو صحرا کی خاموش زبان کو سنتا ہے۔ ہر لمحے کو محسوس کرتا ہے اور اس پہ غور کرتا ہے اور یہیں سے اس کی روحانی نشو و نما شروع ہوتی ہے جو اسے مکمل بدل کر رکھ دیتی ہے۔ ایک مختلف انسان بناتی ہے۔
٭ سینتیاگو اور الکیمی:۔ انگریز اسے الکیمی کے بارے میں مفصل کتاب دیتا ہے۔ اُسے سمجھاتا ہے اور جسے سمجھنے کے بعد وہ اسے انتہائی آسان الفاظ میں بتاتا ہے جس کی وجہ سے انگریز چڑ جاتا ہے۔ وہ اُسے بتاتا ہے کہ الکیمی ایک سنجیدہ مضمون ہے۔ ہر قدم پر بالکل اسی طرح عمل کرنا پڑتا ہے جیسا کہ ماسٹرز نے کیا تھا۔
سینتیاگو نے سیکھا کہ ماسٹر ورک کے مائع حصے کو زندگی کا امرت (Exilir of Life) کہا جاتا ہے، اور یہ تمام بیماریوں کا علاج کرتا ہے۔ اس نے کیمیا دان کو بوڑھا ہونے سے بھی روکا…… اور ٹھوس حصہ کو فلاسفر کا پتھر (Philospher’s Stone)کہا جاتا تھا۔
انگریز نے کہا کہ فلاسفر کے پتھر کو تلاش کرنا آسان نہیں۔ ’’کیمیا دانوں نے اپنی تجربہ گاہوں میں برسوں گزارے۔ اس آگ کا مشاہدہ کرتے ہوئے جو دھاتوں کو پاک کرتی ہے۔
آہستہ آہستہ انھوں نے دنیا کی منفی چیزوں کو چھوڑ دیا۔ انھوں نے دریافت کیا کہ دھاتوں کی پاکیزگی نے خود ان کو صاف کیا ہے ۔
سینتیاگو نے کرسٹل کے تاجر کے بارے میں سوچا۔ اُس نے کہا تھا کہ لڑکے کے لیے کرسٹل کے ٹکڑوں کو صاف کرنا اچھی بات ہے، تاکہ وہ خود کو منفی خیالات سے آزاد کرسکے۔ لڑکے کو زیادہ سے زیادہ یقین ہوتا جا رہا تھا کہ کیمیا روزانہ کی زندگی میں سیکھی جا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ،انگریز نے کہا، فلاسفر کے پتھر میں ایک دلکش خاصیت ہے۔
یہ سن کر سینتیاگو الکیمی میں اور زیادہ دلچسپی لینے لگا۔ اُس نے سوچا کہ کچھ صبر کے ساتھ، وہ ہر چیز کو سونے میں بدل دے گا۔ اُس نے مختلف لوگوں کی زندگیوں کا مطالعہ کیا جو ایسا کرنے میں کامیاب ہوئے تھے: ہیلویٹیئس، الیاس، فلکینیلی، اور گیبر۔ وہ دلچسپ کہانیاں تھیں۔ اُن میں سے ہر ایک آخر تک اپنی تقدیر کے مطابق زندہ رہا۔ انھوں نے سفر کیا۔ دانش مندوں سے بات کی۔ ناقابلِ یقین لوگوں کے لیے معجزے دکھائے اور فلسفی کا پتھر اور زندگی کے امرت کے مالک تھے ۔
لیکن جب سینتیاگو نے ماسٹر ورک حاصل کرنے کا طریقہ سیکھنا چاہا، تو وہ مکمل طور پر بن گیا۔ وہاں صرف ڈرائنگ، کوڈڈ ہدایات اور غیر واضح تحریریں تھیں۔
سینتیاگو انگریز سے سوالات پوچھ پوچھ کر اسے بے زار کر دیتا ہے…… اور اُسے غصہ آتا ہے کہ سینتیاگو کو الکیمی بالکل بھی متاثر نہیں کر رہی…… جبکہ سینتیاگو چیزوں کو سمجھ کر آسان بناتا ہے۔
یہاں انگریز اسے ایک بہترین بات سے آگاہ کرتا ہے کہ اس دنیا کی ایک روح ہے (The Soul of World) اور جو اس کو سمجھ لیتا ہے، وہ ہر شے کی زبان سمجھ سکتا ہے۔ وہ سمندر کی زبان ہو، ریت کی، ہوا کی یا سورج کی…… اور یہی بات اس کتاب کا نچوڑ ہے۔
انگریز سینتیاگو سے اپنی کتاب واپس لے لیتا ہے اور اُسے صحرا پر ہی غور جاری رکھنے کا مشورہ دیتا ہے۔ یہاں سینتیاگو اپنے قرب میں چلنے والے اونٹ سوار سے باتیں کرنے لگ جاتا ہے جو بیشتر بار صحرا کا سفر کر چکا ہوتا ہے اور صحرا کی زبان سمجھتا ہے۔ وہ سینتیاگو کو بتاتا ہے کہ زندگی میں آپ کے پاس جو کچھ بھی ہو، وہ آپ کو ایک دن کھونا ہی پڑتا ہے…… اور جو لوگ اپنی ضرورت یا چاہت کو پانے کے اہل ہوں، وہ کسی بھی شے سے خوف زدہ نہیں ہوتے۔ یہاں وہ اسے ایک اہم بات بتاتا ہے کہ ہماری زندگیوں کی کہانی اور اس دنیا کی تاریخ لکھنے والا ہاتھ ایک ہی ہے۔
یہ وہ سبق ہے جو سینتیآگو کو ہمیشہ کام آتا ہے ۔
٭ سینتیاگو ، نخلستان اور فاطمہ:۔
صحرا کے کچھ قبیلوں میں جنگ شروع ہوچکی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے قافلہ کو ایک نخلستان فیوم میں اترنا پڑتا ہے۔ یہ وہ جگہ ہوتی ہے جہاں پناہ گزین (Refugees) آ سکتے ہیں، لیکن فوجیں اس علاقے میں داخل نہیں ہوسکتیں۔
اس نخلستان میں پہنچ کر انگریز کو الکیمسٹ سے ملنے کی جلدی ہوتی ہے۔ وہ سینتیاگو کو لے کر ایک کنویں کے پاس آ جاتا ہے، جہاں خواتین پانی بھرنے کے لیے آتی ہیں۔ وہ سینتیاگو کو ان سے الکیمسٹ کے بارے میں پتا لگانے کا کہتا ہے۔ دو تین خواتین کی طرف سے ملنے والی مایوسی کے بعد وہ ایک اور لڑکی سے وہاں ملتے ہیں۔ سینتیاگو اُس کو دیکھتے ہی کھو جاتا ہے۔ اس کی آنکھیں انتہائی پُرکشش ہوتی ہیں۔ سینتیاگو اُس سے اُس کا نام پوچھتا ہے، تو معلوم ہوتا ہے کہ فاطمہ ہے۔
انگریز اُسے الکیمسٹ کا پوچھنے کا کہتا ہے لیکن سینتیاگو وہاں اپنا دل ہار بیٹھتا ہے اور فاطمہ کی آنکھیں بھی دو طرفہ محبت کی گواہی دے رہی ہوتی ہیں۔
خیر، ایک دن انگریز کو کسی طرح الکیمسٹ کا پیغام مل جاتا ہے کہ جاؤ اور کوشش کرو لیڈ کو سونا بنانے کی۔ سینتیاگو افسوس کرتا ہے کہ ہزاروں میل ریت کا کٹھن سفر کرکے انگریز یہ سننے آیا تھا؟ لیکن اس کے برعکس انگریز خوش ہوتا ہے۔ اُسے سَمت مل جاتی ہے۔ وہ ڈر کی وجہ سے مشق نہیں کرتا اور اب یہ سننے کے بعد ہی وہ فیوم میں اپنے خیمے میں دھاتوں کو پگھلانے کا کام شروع کر دیتا ہے۔
دوسری جانب سینتیاگو پھر کنویں پہ جاتا ہے، اور فاطمہ سے اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے، اور اُسے اپنے خزانے والے خواب کے بارے میں بتاتا ہے۔ اُسے بتاتا ہے کہ اُس کو دیکھنے کے بعد اب اُسے کسی خزانے کی تلاش نہیں رہی۔ کائنات اُس کو فاطمہ سے ملانے کے لیے سازش کر رہی تھی۔ اُس وقت اُسے ایسا لگ رہا تھا کہ وقت ساکت ہے، اور دنیا کی روح اُس کے اندر اُبھری ہے۔ جب اُس نے اُس کی سیاہ آنکھوں میں دیکھا، اور دیکھا کہ اُس کے ہونٹ ہنسی اور خاموشی کے درمیان جمے ہوئے ہیں، تو اُس نے اُس زبان کا سب سے اہم حصہ سیکھا، جسے ساری دنیا بولتی ہے، جسے زمین پر ہر کوئی سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے…… اُن کا دل…… یہ محبت تھی۔ انسانیت سے پرانی چیز، صحرا سے زیادہ قدیم۔ ایسی چیز جس نے ایک ہی طاقت کا استعمال کیا…… جب بھی اُن کی آنکھوں کے دو جوڑے یہاں کنویں پر تھے۔ وہ مسکرائی اور یہ یقینا ایک شگون تھا، جس کا وہ انتظار کر رہا تھا…… یہ جانے بغیر کہ وہ ساری زندگی ہے۔ وہ شگون جو اُس نے اپنی بھیڑوں کے ساتھ اور اپنی کتابوں میں، کرسٹلز اور صحرا کی خاموشی میں ڈھونڈا تھا۔ یہ دنیا کی خالص زبان تھی۔ اس کے لیے کسی وضاحت کی ضرورت نہیں تھی، بالکل اسی طرح جیسے کائنات کو کسی بھی چیز کی ضرورت نہیں…… جب یہ لامتناہی وقت سے گزرتی ہے۔ اس لمحے سینتیاگو نے جو محسوس کیا، وہ یہ تھا کہ وہ اپنی زندگی کی واحد عورت کی موجودگی میں تھا اور وہ، لفظوں کی ضرورت نہیں، اُس نے وہی بات پہچان لی تھی۔ اُسے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ یقین تھا۔ اُسے اُس کے والدین اور دادا دادی نے بتایا تھا کہ اُسے پیار ہو جانا چاہیے۔
لیکن شاید وہ لوگ جنھوں نے ایسا محسوس کیا، انھوں نے کبھی عالمی زبان نہیں سیکھی تھی۔ کیوں کہ، جب آپ اُس زبان کو جانتے ہیں، تو یہ سمجھنا آسان ہے کہ دنیا میں کوئی آپ کا انتظار کر رہا ہے، چاہے وہ صحرا کے بیچ میں ہو یا کسی عظیم شہر میں۔ اور جب دو ایسے لوگ آپس میں ملتے ہیں، اور ان کی آنکھیں مل جاتی ہیں، تو ماضی اور مستقبل غیر اہم ہوجاتے ہیں۔ صرف وہی لمحہ ہے، اور ناقابلِ یقیں…… یقیں ہے کہ سورج کے نیچے سب کچھ صرف ایک ہاتھ سے لکھا گیا ہے۔ یہ وہ ہاتھ ہے جو محبت کو جنم دیتا ہے، اور دنیا کے ہر فرد کے لیے ایک جڑواں روح پیدا کرتا ہے۔ ایسی محبت کے بغیر، کسی کے خوابوں کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ اسے کرسٹل مرچنٹ کا بولا گیا لفظ مکتب یاد آگیا…… شاید یہی وہ عالم گیر درس گاہ تھی۔
٭ سینتیاگو، فاطمہ اور سینتیاگو کا خواب:۔
سینتیاگو فاطمہ پر اپنے خواب کو قربان کرنا چاہتا ہے لیکن پاولو کویلہو نے اپنے ناول کی ہیروئن کا کیا خاکہ تراشا ہے کہ پڑھنے والے کو ایسی عورت پہ رشک آئے۔ وہ سینتیاگو سے کہتی ہے کہ وہ اُسے اُس کا خواب پورا کرنے سے نہیں روکنا چاہتی۔ وہ اُس کے لوٹنے کا ہمیشہ انتظار کرے گی۔ کیوں کہ وہ صحرائی لڑکی ہے اور اُس نے اپنی عورتوں کو اپنے مردوں کا ایسے ہی انتظار کرتے دیکھا ہے۔ اُس نہیں کہا کہ اگر وہ لوٹ نہ پایا، تو وہ سمجھ جائے گی کہ وہ اِس دنیا کی روح کا حصہ بن گیا ہے۔ وہ اُسے بتاتی ہے کہ جب سے اُس نے اُسے عالم گیر زبان اور دنیا کی روح کی باتیں سکھائی ہیں، اور اپنے خواب کا ذکر کیا ہے، تو وہ تب سے اُس کے خواب کا حصہ بن گئی ہے اور وہ چلی جاتی ہے ۔ سینتیاگو اُداس ہو جاتا ہے۔
٭ سینتیاگو اور عقاب:۔
سینتیاگو جو کئی ماہ سے صحرا کے سفر پہ ہوتا ہے، وہ ہر شے کی زبان کو سمجھنے لگتا ہے۔ ایک روز وہ دیکھتا ہے کہ دو عقاب اُس کے سر پر سے گزر رہے ہیں اور ایک نے دوسرے پہ حملہ کر دیا ہے۔ اُسے وژن بھی آتا ہے کہ دشمن کی آرمی نخلستان پر چڑھائی کرنے آ رہی ہے۔وہ یہ بات قبیلے کے سرداروں کو بتاتا ہے، تو وہ حیراں ہو جاتے ہیں کہ نیوٹرل جگہ پر فوج کیسے حملہ کرسکتی ہے، لیکن وہ حملے کی تیاری کرلیتے ہیں۔ وہ اجنبی کی بات پر یقیں نہیں کرنا چاہتے تھے، لیکن اُن کو ہزاروں سال پہلے مصر کی زمین پہ موجود حضرت یوسف کا قصہ یاد آ جاتا ہے۔
سینتیاگو یہ بتا کر صحرا میں جا بیٹھتا ہے، تو وہاں اُسے ریت کا طوفان گھیر لیتا ہے اور ایک گھوڑا اس کے سیکڑوں پہ چڑھنے کو ہوتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ اُس پر ایک شخص سوار ہے جس کے کندھے پر عقاب ہے۔ وہ دریافت کرتا ہے کہ کس کی جرات ہوئی کہ وہ اللہ کے کاموں میں مداخلت کرتا ہے۔ سینتیاگو اُسے بتاتا ہے کہ اُس نے جو دیکھا وہ بتایا۔ وہ شخص اس کے ماتھے میں تلوار کی نوک چبھو دیتا ہے۔ سینتیآگو کو سامنے اپنی موت نظر آ رہی ہوتی ہے، لیکن وہ بے خوف ہوچکا ہوتا ہے۔ وہ اس شخص کو بتاتا ہے کہ مَیں تو دنیا کی روح کی زبان سمجھ رہا تھا۔ وہ اُسے یہ کَہ کر چھوڑ دیتا ہے کہ میں صرف تمھارا حوصلہ پرکھ رہا تھا، کیوں کہ دنیا کی روح کو سمجھنے کے لیے حوصلہ ہونا سب سے اہم ہے۔ اور وہ اُسے شمال کی جانب آنے کا کہتا ہے۔ وہ سینتیاگو سے وہی باتیں کر رہا تھا، جو مکتب کی باتیں تھیں۔
سینتیاگو کا وژن سچ نکلتا ہے۔ فوج نخلستان پر چڑھائی کر دیتی ہے، لیکن اُسے شکست سے دو چار ہونا پڑتا ہے اور سینتیاگو کو سونے سے نوازا جاتا ہے اور نخلستان کا کاونسلر مقرر کر دیا جاتا ہے۔
٭ سینتیاگو اور الکمیسٹ:۔
جھڑپ ختم ہونے کے بعد وہ شمال کی جانب اُس کی تلاش میں جاتا ہے، تو اُسے راستے میں کوئی بتاتا ہے کہ جس طرف تم جا رہے ہو، وہاں جنات رہتے ہیں…… لیکن وہ پھر بھی جاتا ہے اور اس شخص کو ڈھونڈ لیتا ہے۔ وہ شخص الکیمسٹ ہوتا ہے جس کی انگریز کو تلاش ہوتی ہے۔ سینتیاگو اُسے بتاتا ہے کہ انگریز کو اُس کی تلاش ہے۔ الکیمسٹ اُسے کہتا ہے کہ وہ اپنا کام کر رہا ہے اور صحیح سمت میں جا رہا ہے۔ مجھے شگون اور ہواؤں نے بتایا کہ تم آ رہے ہو اور تمھیں میری ضرورت ہے۔
پھر وہ اُسے اہرامِ مصر کی طرف سفر کے لیے ساتھ لے جانے کی بات کرتا ہے، تو سینتیاگو کا دل ڈوب جاتا ہے اور وہ وہاں نہیں جانا چاہتا۔ وہ الکیمسٹ کو بتاتا ہے کہ وہ فاطمہ کو چھوڑ کے نہیں جاسکتا۔ الکیمسٹ اُسے سمجھاتا ہے کہ وہ صحرائی لڑکی ہے اور تمھارا انتظار کرلے گی۔ اگر آج تم اپنا خواب پورا کرنے کے لیے نہیں گئے، تو مستقبل میں تم اس سے پیار نہیں کر پاؤ گے اور اپنے خواب کو یاد کرو گے۔
وہ جانے سے پہلے فاطمہ سے ملتا ہے۔ فاطمہ اُسے خدا حافظ کہنے کے بعد رو دیتی ہے۔ یہاں انتہائی خوب صورتی سے عورت کی فطرت کی تعریف کرتے ہوئے فاطمہ کہتی ہے کہ مَیں ایک صحرائی عورت ہوں……لیکن اس سب سے بڑھ کر میں ایک عورت ہوں۔ یقینا اگر محبوب کی جدائی میں عورت کی آنکھوں سے آنسو نہ نکلیں، تو وہ عورت نہیں ہو سکتی۔
٭ سینتیاگو ، الکمیسٹ اور امتحانات:۔
اہرامِِ مصر کے سفر میں جب صحرا میں جنگ جاری ہوتی ہے، یہ دونوں نکلے ہوتے ہیں۔ یہ راستے میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ سینتیاگو الکیمسٹ سے لمحہ بہ لمحہ نئی اور آفاقی چیزیں سیکھ رہا ہوتا ہے۔ راستے میں ان کو قبیلے کے فوجی روک لیتے ہیں، تو یہ باتیں بنا کر نکل آتے ہیں…… لیکن ایک جگہ دوسرے قبیلے کے لوگ اُن کو پکڑ لیتے ہیں اور اُن کی جان خطرے میں ہوتی ہے۔ الکیمسٹ اُن کو سینتیاگو کا سونا دے دیتا ہے، جس کا سینتیاگو کو بہت برا لگتا ہے اور الکیمسٹ قبیلے کے سردار سے تین دن کی مہلت اس لیے مانگ لیتا ہے کہ سینتیاگو خود کو آندھی میں بدلنے کی طاقت رکھتا ہے اور اگر یہ ایسا نہ کر پایا، تو ہماری جان لے سکتے ہیں۔
سینتیاگو الکیمسٹ کی اس بات سے بہت پریشان ہوتا ہے اور اُس سے بارہا پوچھتا ہے کہ وہ آندھی میں تبدیل کیسے ہو؟ لیکن وہ اُسے کچھ نہیں بتاتا۔
آخری دن وہ "Eternity” کے اُس درجے پہ پہنچ جاتا ہے کہ وہ صحرا سے، ہوا سے اور سورج سے ہم کلام ہوتا ہے۔ اس جگہ عقلِ انسانی دنگ رہ جاتی ہے کہ کیسا فکشن لکھ دیا پاولو نے جب کہ دل اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ یہ ناممکن نہیں۔ یہ روح کی بالیدگی کا وہ درجہ ہے، جو کائنات سے ہم کلام ہونے کا ہنر دیتا ہے۔
سینتیاگو آخر آندھی کا سبب بننے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد الکیمسٹ اسے لے کر ایک مذہبی پیشوا کے ہاں جاتا ہے اور اس کا باورچی خانہ استعمال کرنے کی اجازت لیتا ہے۔ وہاں سینتیاگو کے سامنے لیڈ سے سونا بنا کر دکھاتا ہے۔ وہ اس کے چار حصے کر دیتا ہے۔ ایک حصہ پیشوا کو دیتا ہے۔ دوسرا سینتیاگو کو دیتا ہے اور تیسرا خود رکھتا ہے۔ چوتھا حصہ پیشوا کو دے دیتا ہے کہ سینتیاگو ایک بار پھر اگر اپنا مال لٹا بیٹھے، تو یہ اُسے دے دیا جائے اور پھر وہ یہاں سے سینتیاگو کو الوداع کہتا ہے۔
قارئین! مَیں اِس مقام پر اُداس ہو جاتی ہوں۔ الکیمسٹ بہت پُراَسرار کردار تھا۔
سینتیاگو الکمیسٹ سے سونا بنانے کا طریقہ سیکھنا چاہتا ہے، لیکن وہ یہ کَہ کر منع کر دیتا ہے کہ یہ اس کی قسمت ہے اور سینتیاگو کو اپنی قسمت ، اپنا مقصد تلاش کرنا ہے۔
٭ سینتیاگو اور اہرامِ مصر:۔
جب سینتیاگو اہرامِ مصر پہنچتا ہے اور خزانہ ڈھونڈنے کے لیے زمین کھودنا شروع کر دیتا ہے، تو وہاں رو پڑتا ہے…… اور رب کا شکر ادا کرتا ہے کہ اُس نے ایک چرواہے کو کیا کچھ سکھا دیا۔ وہ اپنے روحانی سفر پہ مشکور ہو رہا ہوتا ہے۔
اتنے میں دو چور اُسے پکڑ لیتے ہیں۔ اُس کا سونا چھین لیتے ہیں اور اُسے بہت مارتے ہیں۔ وہ اُن کو بتاتا ہے کہ اُسے خواب آتا تھا کہ یہاں خزانہ ہے۔ وہ اُس کا مذاق اُڑاتے ہیں اور اُسے چھوڑ جاتے ہیں ۔ یہ نیم بے ہوش لیٹا ہوتا ہے، تو ایک چور اُس کے کان میں آ کر کہتا ہے کہ اُسے بھی خواب آتا تھا کہ ایک ویرانے میں شامی انجیر کا درخت ہے، اُس کے نیچے خزانہ دبا ہوا ہے…… لیکن میں تمھاری طرح بے وقوف نہیں ہوں کہ اُسے کھودنے چلا جاؤں ۔ اُس کے جانے کے بعد سینتیاگو مسکراتا ہے اور اُسے شگون/ اشارہ مل جاتا ہے کہ خزانہ کہاں ہے؟ وہ اپنے ملک واپس جاتا ہے۔ اُسی ویران چرچ میں جاتا ہے اور وہاں انجیر کے پاس زمین کو کھودنے لگ جاتا ہے۔ پھر وہ الکیمسٹ کو پکار کر چیختا ہے کہ تمھیں سب معلوم تھا۔ تم نے اس لیے میرے لیے سونا چھوڑا کی مَیں یہاں چرچ واپس آؤں اور وہ پیشوا مجھے واپس نڈھال لوٹتے ہوئے دیکھ کر ہنس رہا تھا۔ تمہھیں سب معلوم تھا، تو مجھے اِس سے بچایا کیوں نہیں ؟
ہوا سے آواز آتی ہے کہ نہیں…… اگر میں تمھیں یہ سب پہلے بتا دیتا، تو تم اہرامِ مصر کیسے دیکھتے…… کیا وہ خوب صورت نہیں تھے……؟
وہ ہنسنے لگ جاتا ہے اور دوبارہ زمین کھودنے لگ جاتا ہے ۔ اور پھر اُسے بے شمار خزانہ ملتا ہے اور ایک ویسی پلیٹ بھی جو بادشاہ کے پاس تھی۔ وہ اُس میں یورم اور تھمم کو جوڑ دیتا ہے، تاکہ اُسے بادشاہ کی یاد آتی رہے ۔ وہ جپسی خاتون کو دس فی صد دینے کے لیے جانے کا ارادہ کر لیتا ہے۔
آخر وہ اپنی قسمت کو پا لیتا ہے۔ اُسے افریقہ سے ہوائیں آتی محسوس ہوتی ہیں۔ ان ہواوں میں ایک خاص عطر کی خوش بو ہوتی ہے، جو دھیرے دھیرے اس کے لبوں کو چھو لیتی ہیں…… اور وہ اُس خوشبو کو پہچان سکتا تھا۔ وہ فاطمہ کو لینے افریقہ روانہ ہو جاتا ہے۔
الکمیسٹ اپنی نوعیت کا ایک منفرد شاہ کار ہے، جو خوابوں کی اہمیت، محبت کی آفاقی قوت، عالم گیر زبان اور کائنات کی روح کو کہانی کی صورت میں پیش کرتا ہے۔
اس میں یہ گرہ بھی کھولی جاتی ہے کہ کائنات کی وہ روح، خدا کی روح ہے جو سب میں پائی جاتی ہے…… بس صرف کچھ لوگ ہی اسے سمجھ پاتے ہیں۔
تمت بالخیر!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔