محسنِ پاکستان، پاکستانی سائنس دان اور ایٹم بم کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان یکم اپریل 1936ء کو بھارت کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے دنیا بھر کے ممتاز تعلیمی اداروں سے اعلا تعلیم حاصل کی۔
روحیل اکبر کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/akbar/
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے انتہائی نامساعد حالات میں وطنِ عزیر پاکستان کو دنیا بھر میں ناقابلِ تسخیر بنا دیا، جس کے نتیجے میں پاکستان مسلم دنیا کی پہلی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بن گیا۔
وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کے سابقہ دورِ حکومت میں 28 مئی 1998ء کو پاکستان نے کامیاب ایٹمی تجربے کرکے خود کو دنیا میں ایٹمی طاقت منوا لیا تھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں انھیں دیگر اعزازات کے ساتھ ساتھ دو مرتبہ نشانِ پاکستان کے اعزاز سے بھی نوازا گیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان پچھلے برس 10 اکتوبر کو جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ مجھے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ کام کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ہونے والی ملاقاتیں میری زندگی کا خوش گوارحصہ ہیں، جو ہمیشہ تازہ پھولوں کی طرح میری من کے آنگن میں مہکتی رہتی ہیں۔ ان کی یادوں کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھنے کے لیے اپنے فیس بک پربھی وہ تصویر لگا رکھی ہے جو ایک یادگار اور اَن مول ہے۔ اُس تصویر میں ڈاکٹر صاحب نام ور عالمِ دین مولانا سمیع الحق، ڈاکٹر رفیق غنچہکے ساتھ مَیں بھی موجود ہوں۔ مذکورہ تصویر 2013ء کے الیکشن سے پہلے کی ہے۔ اُس الیکشن میں ہم نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی سربراہی میں ’’تحریکِ تحفظِ پاکستان‘‘ کے پلیٹ فارم سے میزائل کے نشان پر الیکشن میں حصہ لیا۔ اُس الیکشن سے پہلے تقریباً سبھی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کروانا بھی میری ذمے داری تھی۔
’’تحریکِ تحفظِ پاکستان‘‘ (ٹی ٹی پی) جب بنی، تو اُس میں ڈاکٹر صاحب کے بعد چوہدری خورشید زمان خان سب سے اہم شخصیت تھے، جنھوں نے پارٹی کو نیا خون دیا، جوش اور ولولہ دیا۔ انھوں نے دن رات محنت بھی کی۔
پارٹی کے قیام کے بعدجب سیکریٹری اطلاعات کا مرحلہ آیا، تو اُس کام کے لیے مجھے منتخب کیا گیا۔ مَیں اُن خوش قسمت پارٹی ورکروں میں سے ایک تھا، جو ابتدائی ایام میں ہی پارٹی کے ساتھ منسلک ہوگئے تھے۔ شروع شروع میں پارٹی کا دفتر چوہدری خورشید زمان خان کے گھر بنایا گیا۔شروع شروع میں مجھے ڈاکٹر صاحب نے پارٹی کا ایڈیشنل سیکریٹری اطلاعات بنایا، لیکن کچھ عرصہ بعد انھوں نے مجھے پارٹی کا مرکزی سیکریٹری اطلاعات بنانے کے ساتھ ساتھ انچارج میڈیا سیل پنجاب بھی بنا دیا۔ الیکشن کے قریب ڈاکٹر صاحب نے مجھے اپنا ترجمان بھی نام زد کردیا۔ یہ بہت بڑی ذمے داری تھی۔ کیوں کہ جو الفاظ ادا کرنے ہوتے تھے، وہ ایک طرح سے ڈاکٹر صاحب کے الفاظ ہوتے تھے۔ اس لیے پھر اُن سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی بڑھتا چلا گیا۔
الیکشن کے قریب آکر ہمیں سپر مارکیٹ میں ایک خالی کوٹھی مل گئی، جہاں ہم نے الیکشن آفس بنا لیا۔ یہ کوٹھی ڈاکٹر صاحب کے دوست نواب کیفی نے دی تھی، جو الیکشن کے بعد تک ہمارے پاس رہی۔ ڈاکٹر صاحب چوں کہ پابندیوں کی زد میں تھے…… اور گھر سے بہت کم باہر نکلتے تھے، لیکن لاہور میں پارٹی ورکروں سے ملاقات کے لیے ہر حال میں جاتے تھے۔ الیکشن کی صورتِ حال اور ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب اور چوہدری خورشید زمان کی مشاورت بھی چلتی رہتی تھی۔
الیکشن میں حصہ لینے کے لیے تقریباً پورے پاکستان سے امیدواروں نے درخواستیں جمع کروائیں، جنھیں ڈاکٹر صاحب کی مشاورت سے پارٹی کے سیکریٹری جنرل چوہدری خورشید زمان خان نے پارٹی ٹکٹس جاری کیے۔ مہینوں نہیں بلکہ چند دنوں میں ہی پارٹی نے پورے ملک میں اپنی جڑیں پھیلائیں۔
ڈاکٹر صاحب اُن دِنوں بھی پابندیوں کی زد میں تھے اور ان کا گھر سے باہر نکلنا مشکل ہوتا تھا، لیکن اس کے باوجود وہ لاہور میں پارٹی ورکروں سے ملاقات کے لیے ہر حال میں تشریف لاتے۔ 2013ء کے الیکشن میں ڈاکٹر صاحب نے حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن بعد میں انھوں نے اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کرتے ہوئے خود الیکشن نہ لڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ جب الیکشن ہوگئے، تو اس کے بعد پارٹی بھی انھوں نے ختم کردی۔
لاہور میں ہمارے پارٹی کے ساتھی شوکت ورک کے ساتھ مل کر ڈاکٹر صاحب نے مینارِ پاکستان کے قریب ایک ہسپتال کی بنیاد رکھی۔ ان کے ہاتھوں سے لگایا جانے ولا پودا آج ایک تن آور درخت بن چکا ہے، جہاں لاکھوں مستحق مریض مفت علاج کی سہولت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
جب پارٹی ختم ہوئی، تو پھر ڈاکٹر صاحب کے پاس فراغت کے بہت سے لمحات تھے۔ مَیں جب بھی ڈاکٹر صاحب سے ملنے ان کے گھر جاتا، تو اکثر شام کا وقت ہی ہوتا تھا اور ہم اکثر برآمدے میں کرسیاں رکھ کر بیٹھ جاتے تھے، جہاں ڈاکٹر صاحب اپنی زندگی کے بہت سے واقعات بھی بتاتے رہتے۔ ڈاکٹر صاحب کی باتوں سے وطن کی مٹی کی جو خوش بو آتی تھی، وہ ناقابلِ بیاں ہے۔ اُن کے اندر پاکستان کا درد اور عوام کا دکھ موجود تھا جس کا انھوں نے متعدد بار ذکر بھی کیا۔
وہ پاکستان کی حالت ایٹمی قوت بنا کرتو بدل چکے تھے، ساتھ میں وہ پاکستان کے لوگوں کی تقدیر بھی بدلنا چاہتے تھے۔ اُس دور میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ناقابلِ برداشت تھی اور انہوں نے اس کے خاتمے کے لیے سستے منصوبوں کا اعلان بھی کیا تھا، مگر حکومتِ وقت نے پوچھا تک نہیں۔ اُلٹا اُن پرمزید پابندیاں لگا دی گئیں۔ انھیں ایک طرح سے گھر میں نظر بند رکھا گیا اور ان کی سرگرمیاں محدود کردی گئیں۔
ان سے ملاقاتوں پر بھی پابندی تھی۔ اسی دوران میں جب مَیں انھیں ملنے جاتا، تو وہ پہرے داروں کو سختی سے کَہ دیتے کہ روحیل کو آنے دواور پھر ہم کافی دیر بیٹھ کر باتیں کرتے رہتے۔ اُسی دوران میں سامنے والی دیوار سے بندر بھی آجاتے، جو ڈاکٹر صاحب کے قدموں سے لپٹ جاتے۔ ڈاکٹر صاحب انہیں مونگ پھلیاں ڈالتے اور پھر وہ واپس چلے جاتے۔
ڈاکٹر صاحب جیسا عظیم انسان پاکستان کی تقدیر میں تو تھا، لیکن ہم نے اُس عظیم انسان کی قدر نہیں کی۔ ایسے افراد صدیوں بعد بھی پیدا نہیں ہوتے اور ہم نے لمحوں میں انہیں اپنے سے جدا کردیا۔
میرا ڈاکٹر صاحب کے ساتھ گزرا ہوا وقت ایک خواب سا لگتا ہے جسے میں کبھی بھولنا نہیں چاہتا۔
محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان 10 اکتوبر 2021ء کو کورونا وائرس کے باعث انتقال کرگئے۔ اللہ تعالا انھیں جنت الفردوس میں اعلا و ارفع مقام اور ہمیں ان کی طرح کے باقی رہنے والے لوگوں کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
