وکی پیڈیا کے مطابق مسرور انور (Masroor Anwar) نام ور شاعر، گیت نگار، سکرپٹ رائٹر اور مکالمہ نگار، 1 اپریل 1996ء کو لاہور میں انتقال کرگئے۔
نگار ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔ 6 جنوری 1944ء کو شملہ(بھارت) میں پیدا ہوئے۔ اصل نام انور علی تھا۔ اوائلِ عمری سے شعروشاعری سے رغبت ہو گئی۔ جب فلمی گیت لکھنے شروع کیے، تو اُن کی پہلی فلم ’’بنجارن‘‘ (1962ء) نے باکس آفس پر شان دار کامیابی حاصل کی۔ فلم کے گیتوں نے ہر طرف دھوم مچا دی۔
ہدایت کار پرویز ملک جب امریکہ سے اعلا تعلیم حاصل کرکے واپس آئے، تو انھوں نے اپنے دوست وحید مراد سے پاکستان میں سینما کی نئی لائن پر بات شروع کی۔ دونوں اس بات پر متفق ہو گئے کہ سماجی اور رومانی موضوعات پر فلمیں بنائی جائیں، جن کی موسیقی اعلا درجے کی ہو۔ اس مقصد کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے انھوں نے ’’فلم آرٹس‘‘ کے نام سے ایک نیا پروڈکشن ہاؤس بنایا۔ اسی اثنا میں مسرور انور بھی اس پروڈکشن ہاؤس سے وابستہ ہو گئے۔ پھر موسیقار سہیل رعنا بھی اس ٹیم کے رکن بن گئے۔ مسرور انور کی سہیل رعنا سے دوستی ہو گئی، جس کی وجہ ذہنی ہم آہنگی تھی۔ فلم آرٹس کی پہلی فلم ’’ہیرا اور پتھر‘‘ کا سکرپٹ اور نغمات مسرور انور نے لکھے اور موسیقی سہیل رعنا نے ترتیب دی۔ یہ فلم سندھ کے ماحول پر بنائی گئی اور اس نے زبردست کامیاب حاصل کی۔ اس کے بعد اس پروڈکشن ہاؤس کی دوسری فلم ’’ارمان‘‘ نے بھی عدیم النظیر کامیابی حاصل کی۔ یہ پاکستان کی پہلی اردو پلاٹینم جوبلی فلم تھی۔ ’’ارمان‘‘ کی خاص بات یہ تھی کہ اس کا گانا ’’اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم‘‘ لازوال مقبولیت سے ہم کنار ہوا۔ اس کے بعد ایک کلب سانگ بھی بے انتہا مقبول ہوا اوراس کی مقبولیت 48 برس گزرنے کے بعد بھی کم نہیں ہوئی۔ اس کلب سانگ کے بول تھے : ’’کو کوکورینا‘‘ اسے وحید مراد پر پکچرائز کیا گیا تھا، جسے احمد رشدی نے بڑی خوب صورتی سے گایا تھا۔ اس کے بعد اسی ادارے کی فلم ’’احسان‘‘ کے گیت بھی بڑے متاثر کن تھے۔
مسرور انور نے جن فلموں کے سکرپٹ اور مکالمے تحریر کیے وہ درجِ ذیل ہیں:
’’ہیرا اور پتھر‘‘، ’’ارمان‘‘، ’’احسان‘‘، ’’دوراہا‘‘، ’’دل میرا دھڑکن تیری‘‘، ’’عشقِ حبیب‘‘، ’’پھول میرے گلشن کا‘‘، ’’جب جب پھول کھلے‘‘ ، ’’محبت زندگی ہے‘‘ ، ’’صاعقہ‘‘، ’’قربانی‘‘، ’’تلاش‘‘ اور ’’ہم دونوں‘‘۔
1968ء میں مسرور انور کو فلم ’’صاعقہ‘‘ کے شان دار مکالمے لکھنے پر نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ بھی کئی بار نگار ایوارڈ دیا گیا۔ 1986ء میں ایک فلم بھی پروڈیوس کی جس کا نام تھا ’’شادی میرے شوہر کی‘‘۔
مسرور انور کے کچھ بے مثال فلمی نغمات ذیل میں دیے جا رہے ہیں:
مجھے تم نظر سے گرا تو رہے ہو (دوراہا)
بیتے دنوں کی یادوں کو (آگ)
اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم (ارمان)
کو کو کورینا (ارمان)
اک ستم اورمیری جاں (صاعقہ)
یوں زندگی کی راہ میں ٹکرا گیا کوئی (صاعقہ)
اک نئے موڑ پہ لے آئے ہیں حالات مجھے (احسان)
مجھے تم سے محبت ہے (ہیرا اور پتھر)
دنیا والو تمھاری دنیا میں (سوغات)
دل دھڑکے میں تم سے یہ کیسے کہوں (انجمن)
مسرور انور نے کچھ شہرہ آفاق ملی نغمے بھی لکھے، جن کی فہرست میں ذیل میں دی جاتی ہے:
سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد
اپنی جاں نذر کروں اپنی وفا پیش کروں
جگ جگ جیے میرا پیارا وطن
وطن کی مٹی گواہ رہنا
مسرور انور غزل بھی کہتے تھے۔ ان کی ایک مشہور غزل کا مقطع ملاحظہ ہو:
ہم کو کس کے غم نے مارا یہ کہانی پھر سہی
کس نے توڑا دل ہمارا یہ کہانی پھر سہی