وکی پیڈیا کے مطابق امیرمینائی (Amir Meenai)، اُردو کے معروف شاعر اور ادیب، 21 فروری 1828ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔
1828ء میں شاہ نصیر الدین شاہ حیدر نواب اَودھ کے عہد میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ شاعری میں اسیرؔ لکھنوی کے شاگرد ہوئے۔ 1852ء میں نواب واجد علی شاہ کے دربار میں رسائی ہوئی اور حسب الحکم دو کتابیں ’’شاد سلطان‘‘ اور ’’ہدایت السلطان‘‘ تصنیف کیں۔ 1857ء کے بعد نواب یوسف علی خاں کی دعوت پر رام پور گئے۔ ان کے فرزند نواب کلب علی خاں نے اُن کو اپنا استاد بنایا۔ نواب صاحب کے انتقال کے بعد رام پور چھوڑنا پڑا۔ 1900ء میں حیدرآباد گئے، وہاں کچھ دن قیام کیا تھا کہ بیمار ہوگئے اور وہیں 13 اکتوبر 1900ء کو انتقال کیا۔
ادبی خدمات:
متعدد کتابوں کے مصنف تھے ۔ ایک دیوان ’’غیرتِ بہارستان‘‘ 1857ء کے ہنگامے میں ضائع ہوا۔ موجودہ تصانیف میں دو عاشقانہ دیوان ’’مراۃ الغیب‘‘، ’’صنم خانۂ عشق‘‘ اور ایک نعتیہ دیوان ’’محمد خاتم النبیین‘‘ ہے ۔ دو مثنویاں ’’نورِ تجلی‘‘ اور ’’ابرِکرم‘‘ ہیں۔ ذکرِ شاہِ انبیا بہ صورتِ ’’مسدسِ مولود شریف‘‘ ہے۔ ’’صبحِ ازل‘‘ آنحضرت کی ولادت اور ’’شامِ اَبد‘‘ وفات کے بیان میں ہے۔ چھے واسوختوں کاایک مجموعہ بھی ہے۔ نثری تصانیف میں ’’انتخابِ یادگارِ شعرائے رام پور کا تذکرہ‘‘ ہے، جو نواب کلب علی خان کے ایما پر 1890ء میں لکھا گیا۔ لغات کی تین کتابیں ہیں۔ ’’بہارِ ہند‘‘ ایک مختصر نعت ہے۔ سب سے بڑا کارنامہ ’’امیر اللغات‘‘ ہے جس کی دو جلدیں الف ممدودہ و الف مقصورہ تک تیار ہو کر طبع ہوئی تھیں کہ انتقال کرگئے۔