ترجمہ: عقیلہ منصور جدون (راولپنڈی)
پہلی دفعہ جب فرانز کافکا کی آواز میرے دماغ میں داخل ہوئی، تو مَیں اُس وقت پندرہ سال کا تھا۔ اَدب میں مشترکہ دلچسپی رکھنے کی بنیاد پر جو دو نئے دوست بنائے تھے، انھوں نے مجھے فرانز کافکا کے فکشن سے متعارف کروایا ۔ ہم باری باری "Willa” اور "Edwin Muir” کے تراجم ہائی سکول کی لائبریری میں پڑھتے رہے۔ مجھے اَب بھی ہم تینوں کا "The Judgment” اُونچی آواز میں پڑھنا اور اس پیرا گراف پر ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہونا یاد ہے،جب مرکزی کردار کو اپنے باپ کے انڈر ویئر کے گندے ہونے کا علم ہوتا ہے اور پھر اُس وقت جب اُس کا باپ بستر پر کھڑا ہو کر اُسے گالیاں دیتا ہے۔
ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ خود کافکا بھی دوستوں کو اپنی کہانیاں سناتے ہوئے قہقہے لگاتا تھا…… اور مجھے اس بات پر حیرت ہوئی تھی کہ اس پر حیرت کا اظہار کیا جاتا تھا۔ ان ڈراؤنے خوابوں، جنھوں نے کافکا کے نام کو جدید بیگانگی اور اضطراب کے مترادف بنا دیا تھا، سے اُس کے کام کی دوسری جہتیں بشمول مزاح گہنا گئیں۔
اُس کا مِزاح اور کافکا سے متعلق مزید بہت کچھ، کہیں بھی اتنا آشکار نہیں ہوتا، جتنا اس کی سب سے ذاتی نوعیت کی تخلیقات اس کی ’’ڈائریوں‘‘ سے ہوتا ہے۔ لیکن دہائیوں سے انگریزی زبان دان اس کی مکمل زرخیزی سے واقف نہ ہوسکے۔
بطورِ قاری ہم عموماً نہیں سوچتے کہ اصل متن کے مختلف ورژن تک رسائی کی بنیاد پر تراجم کتنے مختلف ہوسکتے ہیں۔ کافکا کی ڈائریوں کے معاملے میں تو یہ بہت اہم سبب رہا ہے۔ وہ واحد ترجمہ جو اُس وقت میسر تھا، وہ 49-1948ء میں شائع ہوا تھا۔ اُس کی بنیاد تحریف شدہ اور ترمیم شدہ جرمن ایڈیشن پر تھی، جسے کافکا کے ادبی نگران میکس بروڈ "Max Brod” نے تیار کیا تھا۔ جس نے اس کی بطورِ مصنف اور انسان، پیچیدگیوں کو کم کرنے کے لیے کانٹ چھانٹ کر دی تھی۔
جرمن زبان سیکھنے کے بعد مَیں واپس گیا اور کافکا کے ہاتھ سے لکھی مکمل بغیر تحریف کے اصل متن والی ڈائریاں پڑھیں، تو مجھے ایک مختلف صورتِ حال نظر آئی۔ ڈھیلی، کم رسمی تحریر جو مجھے بہت زیادہ زندہ، مجسم اور متحرک لگی…… تحقیقی، ادبی خود تخلیقی کے جاری و ساری عمل میں ڈوبی ہوئی۔
مجھے اُس وقت علم نہیں تھا کہ کافکا کو پڑھنے کی ناقابلِ تلافی کثیر الجہتی تجربے کی بازیافت میری زندگی کا بہت اہم حصہ بن جائے گی۔ اس عمل میں 8 سال لگیں گے اور اس میں سے وہ بہت کچھ ہٹ جائے گا، جس نے اُس کے مقبولِ عام تاثر کی تشکیل میں ایک صدی لگائی۔ اُس نے مصنف اور ترجمے کی بحالی اور تجدید کے لیے میرے احساس کو گہرائی دی ۔
ایک اَن مول مصنف اور نقاد، میکس بروڈ، کافکا کا بہترین دوست تھا اور یونیورسٹی کے دنوں سے ہی اس کی تحریروں کا سب سے بڑا حمایتی / چمپئن تھا۔1924ء میں دق کی پیچیدگیوں کے باعث کافکا کی بے وقت موت کے بعد بروڈ نے اس کی وصیت، جس میں اُس نے اپنے تمام کاغذات کو جلانے کا کہا تھا، کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اُس کی موت کے بعد اس کی تحریروں کو شائع کروانے کی ایک دھائی پر پھیلی طویل ذمے داری قبول کی۔
ہم بروڈ کے ممنون ہیں کہ اس کی وجہ سے جدید ادب میں کچھ بہت اہم، بصیرت انگیز اور بااثر اضافہ ہوا۔ خاص طور پر کافکا کے تین نامکمل ناول ’’دی ٹرائل‘‘ (مقدمہ)، ’’دی کاسل‘‘ (قلعہ) اور امریکہ (یہ عنوانات براڈ نے رکھے) اور اس کی ڈائریاں اور خطوط۔ تاہم کافکا کے چھوڑے گئے بے ترتیب مواد کو منظم و مربوط پڑھنے کے قابل بناتے وقت اُس نے بہت آزادانہ کام کیا۔ اُس کی سخت گیر اشاعتی مداخلت نے کافکا کی جو تصویر کشی کی، وہ ایک صدی تک اگلی نسل میں اُسی سے پہچانی جاتی رہی۔ جس میں کافکا ادب کا ایک پاکیزہ، خالص اور مقدس شہید متھ بن گیا۔
بروڈ کی کوششوں کا شکریہ، جن کے باعث کافکا کو دنیا بھر میں وہ شہرت ملی، جو اُس کی زندگی میں حاصل کی گئی شہرت سے بہت زیادہ تھی۔ لیکن قاری چاہے جرمن، انگریزی یا کسی بھی زبان کا ہو…… اس کی پہنچ کافکا کے ادبی ورثے کی براڈ کی اصل سے ذرا ہٹی ہوئی تحریر تک ہی تھی۔ بروڈ کی موت 1968ء تک اس کے ورژن ہی کافکا کی ہر تحریر کے ترجمے کے لیے استعمال ہوتے رہے۔ انھی میں وہ بھی شامل تھے جو مَیں اور میرے دوستوں نے سکول لائبریری میں پڑھے تھے۔
بروڈ کی موت کے بعد کافکا کے کام کے نئے جرمن ایڈیشن شائع ہوئے۔وہ کافکا کے اصل مسودوں کے قریب تر تھے…… جن میں اُن کے کھردرے کناروں، محاورات، بہاؤ اور عدم استحکام کو قائم رکھا گیا۔ اس میں ڈائریوں کے بحال شدہ ورژن شامل ہیں جو مجھے مسحور کر دیتی ہیں۔
یہ ڈائریاں، اُس کا یہ کہنا کہ میرے دماغ میں زبردست دنیا ہے، کو کاغذ پر منتقل کرنے کی ناکام کوششوں کا ریکارڈ ہے۔ ان میں بہت کچھ ہے جو بکھرا ہوا اور بے ربط ہے۔ جن میں لڑکھڑا ہٹ اور ہکلاہٹ ہے۔ اسی ایک نوٹ بک میں وہ لکھنے کے مختلف متبادل طریقے استعمال کرتا ہے۔ وہ اپنے مشاہدات اور غور و فکر بیان کرتا، خطوط اور افسانے کا مسودہ تیار کرتا، اپنے خواب لکھتا اور کہیں کہیں تصویریں اور خاکے بنائے ہوتے کچھ چیزوں کو کاٹ دیتا، اصلاح کرتااور کہیں اضافہ کرتا۔ وہ وقفے وقفے سے لکھتا۔ ہمیشہ لکھ کر چھوڑ دیتا اور پھر دوبارہ شروع کر دیتا۔ ڈائری لکھنے کی عجلت اور بے ساختگی میں با لکل سادہ سی نثر لکھتا۔
ڈائری کی یہ زرخیزی بمشکل بروڈ کے ایڈیشن اور انگریزی تراجم میں نظر آتی ہے۔ بعض اوقات جہاں کافکا کی منفرد اور مختصر لکھنے کی کوشش ناکام ہوئی اور نیا آغاز کیا، جس کا رُخ مختلف سمتوں کو ہوگیا، تو بروڈ نے ان منقطع ٹکڑوں کو دوبارہ ترتیب دے کر انھیں آپس میں جوڑ کر ایسا مرکب تیار کیا جس کے ٹکڑوں کا الگ وجود بالکل نظر نہ آتا تھا، بلکہ جو ٹکڑا مکمل طور پر نہ جڑتا، اُسے رد کر دیا۔ جس سے کافکا کے غلط ہجے، قلم کی پھسلن، منتشر اور غیر روایتی علامات و اوقاف، کبھی کبھار الجھے اور گڈ مڈ نحو، تکرار، اختصار، مخففات، علاقائیت اور دوسرے اسلوباتی فقرہ بازی اور پھبتیاں بھی ختم ہوگئیں۔
بروڈ کی عیوب (خرابیاں) جو اسے دکھائی دیں کو دور کرنے کی کوشش، تکنیکی خامیاں دور کرنے سے آگے نکل گئی۔ مثال کے طور ہر ایک طوائف کو بیان کرتے ہوئے بروڈ نے یہ فقرہ کاٹ دیا ’’بال اس کی ناف سے لے کر شرم گاہ تک گھنے تھے۔‘‘
نمبر2 ’’سویڈن کے خوب صورت لمبی ٹانگوں والے لڑکے جو اتنی سخت اور تنی ہوئی تھیں کہ ان پر صرف زبان ہی پھیری جا سکتی ہے۔‘‘ ایسے پیراگراف جو اُسے کافکا کے حوالے سے یا اپنے اور دوسروں کے لیے ناشائستہ محسوس ہوئے، بروڈ نے کاٹ دیے۔
ڈائریاں زندگی اور ادب کی درمیانی دہلیز پر کھڑی ہوتی ہیں۔ اور کافکا کی ڈائری اس محاورے اور حساسیت کے لیے آزمایشی میدان تھی جسے وہ وجود میں لانے کے لیے کوشاں تھا۔ 1990ء سے یہ کافکا، بطورِ بے آرام، خود پر نظر رکھنے والا،ناقابلِ روک تھام جرمن زبان دانوں میں جانا جاتا رہا…… لیکن انگریزی دانوں کے لیے ایسا نہیں تھا۔ جو کچھ مَیں نے ڈائری کے ان بغیر کانٹ چھانٹ کیے گئے مواد میں انوکھا، اہم اور دل کش محسوس کیا۔ اسے اپنے ہم زبانوں تک پہنچانے کی خواہش نے مجھے اس کی درستی کی طرف مائل کیا۔
میرا ترجمہ جو مَیں نے چالیس سال کی عمر، کافکا کی عمر تک جب وہ فوت ہوا، کو پہنچ کر اپنے پبلشر کے حوالے کیا۔ اُس پر 8 سال تلاش اور تناو میں گزارے، تاکہ مَیں کافکا کی تلاش اور تناو کو سمجھ سکوں۔ خود مجھے کبھی کبھار شک ہوتا ہے کہ آیا مَیں وہ جانتا ہوں جو کافکا کہنا چاہتا ہے…… لیکن مَیں یہ بھی نہیں جانتا کہ کسی خاص وقت میں وہ خود بھی جانتا ہے کہ وہ کیا کَہ رہا ہے!
ڈھیر ساری ڈائریوں کی طرح وہ خود بھی اپنے نامکمل شعور سے آگاہ نہیں ہوتا۔ لاشعور کی تو بات ہی نہیں ہوسکتی…… لیکن وہ اکثر ذہنی شارٹ ہینڈ یا متعلقہ لاجک پر انحصار کرتے ہوئے محض الفاظ اور نحو میں اشارہ دیتا۔
مَیں عام طور پر غیر حل شدہ مسائل کے ترجمے کو بار بار دیکھتا ہوں، جب تک مجھے اپنے انتخاب کا یقین نہیں ہو جاتا…… لیکن کافکا کے جسمانی مضحکہ خیز/ منفرد احساس کا پیچھا کرتے ہوئے مجھے اسی پریشانی کا سامنا ہوتا ہے، جس سے اُس کے کردار دوچار ہوتے ہیں۔ جتنی زیادہ سختی سے یقین حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اتنی ہی شدت سے شک اور مایوسی سر اٹھاتے ہیں۔ یہ خود بخود قائم رہنے والا طاقت ور، قوی اور کبھی ختم نہ ہونے والا چکر ہے۔
مجھے احساس ہو ا کہ اپنی وضاحت اور ہم آہنگی کے مطالبات کو ایک طرف رکھ کر کیا مَیں کافکا کی تحریر میں موجود عجیب، پریشان کُن اور حیران کُن مواد کے ساتھ انصاف کر سکتا ہوں…… یا پھر کہیں ہم ترغیب میں آکر غیر مستحکم/ غیر معین، کوئی تنگ نظر وضاحت یا نظریۂ تخفیف اس پر مسلط کر دیتے ہیں۔ کافکا کی ناقابلِ مزاحمت کشش برقرار ہے۔ درحقیقت، میرے خیال سے اس میں صرف اضافہ ہی ہوا ہے…… جتنا ممکن ہو اُس کی تحریر کو اپنے لیے خود بولنے دیا جائے۔
نہ جانے کیوں، مَیں دوسروں کی طرح کافکا کی آواز کو اتنا حوصلہ افزا پاتا ہوں جب یہ تواتر سے اتنی مایوسی اور اذیت کا اظہار کرتی ہے؟
اُس کا تعلق اُس اختراعیت کے ساتھ ہونا چاہیے جو اُس نے متعارف کرایا، جیسا کہ وہ ڈائریوں میں لکھتا ہے، اپنی خوابوں جیسی اندرونی زندگی کا بیان۔ ٹوٹے ریکارڈ سے بہت پرے وہ مستقل اپنی حالتِ زار کو کبھی جانوروں کی کہانی میں، کبھی پُراَسرار کہاوت یا مقولے سے یا دل کش مزاحیہ خط کے ذریعے دوبارہ تصور میں لاتا ہے۔
ڈائریوں کے میرے تراجم میں، مَیں نے اس کی ذہانت کو کسی عجائب گھر کے لیے مکمل تشکیل شدہ، حنوط شدہ اور مناسب چیز کے طور پر ظاہر کرنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ ایک رحم/ فراخ دل، خود احتساب اور لامحدود ادبی تجربات کے ایک رجحان کے طور پر ظاہر کیا ہے،جس نے اس کے سارے کام کو متحرک رکھا ہے۔
(نوٹ:۔ مصنف "Ross Benjamin” جرمن ادب کا امریکی مترجم ہے۔ ان کے ترجموں میں فرانز کافکا کی ڈائریوں کے تراجم بھی شامل ہیں۔ یہ مضمون "The New York Times International Edition” میں 4 اور 5 فروری 2023ء کو شائع ہوا، جس کا ترجمہ عقیلہ منصور جدون (راولپنڈی) نے کیا ہے۔ بہ شکریہ ’’عالمی ادب کے اُردو تراجم‘‘، فیس بک صفحہ)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
