ترجمہ: شگفتہ شاہ (ناروے)
(نوٹ:۔ محترمہ شگفتہ شاہ نے ناروے کی لوک کہانیوں کو ترجمہ کرنے کا سلسلہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’’فیس بُک‘‘ کے ایک صفحہ ’’عالمی ادب کے اُردو تراجم‘‘ پر شروع کر رکھا ہے۔ ’’ننھا فریک اور اُس کا وائلن‘‘ مذکورہ سلسلے کی پانچویں کڑی ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
بہت سال پہلے کی بات ہے کہ ایک غریب آدمی کا اکلوتا بیٹا اس قدر بیمار اور کم زور تھا کہ اُس میں محنت مزدوری کرنے کی بالکل سکت نہ تھی۔ اُس کا نام فریک تھا، مگر اُس کے چھوٹے قد کی وجہ سے سب اسے ’’ننھا فریک‘‘ کَہ کر پکارتے تھے۔ اُن کے گھر میں کھانے پینے کی اشیا کی ہمیشہ قلت رہتی۔ اس لیے ایک روز ننھے فریک کا باپ گاؤں والوں کے پاس گیا کہ کوئی اس کے بیٹے کو چرواہے یا پیغام رساں کے طور پراپنے ہاں ملازم رکھ لے…… مگر کوئی بھی اُس کے بیٹے کواپنے ہاں ملازم رکھنے کے لیے تیار نہ تھا۔ بالآخر وہ پولیس آفیسر کے پاس پہنچا اور وہ اُس کے بیٹے کو ملازمت دینے پر آمادہ ہوگیا۔ پولیس آفیسر نے حال ہی میں اپنے پیغام رساں لڑکے کو ملازمت سے نکال دیا تھا…… اور اب کوئی بھی اس کے پاس نوکری کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اس لیے کہ اُس کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ وہ بہت کنجوس ہے…… مگر کچھ بھی نہ ہونے سے تھوڑا بہت ہونا ہی بہتر ہوتاہے۔ پس غریب آدمی نے سوچا کہ یہاں اُس کے بیٹے کو کم از کم دو وقت کی روٹی تو ملتی رہے گی۔ یوں ننھے فریک کو کھانے کے عوض پولیس آفیسرکے ہاں ملازمت مل گئی…… مگر تنخواہ اور کپڑوں کے بارے میں کوئی معاہدہ طے نہ کیا گیا۔
جب لڑکے کو وہاں ملازمت کرتے ہوئے تین سال کاعرصہ بیت گیا، تو ایک روز اُس نے ملازمت سے رخصت لینی چاہی اور پولیس آفیسر نے اسے تین سالوں کی تنخواہ یک مشت ادا کر دی۔
’’مَیں تمھیں ایک سال کا معاوضہ ایک شیلنگ ادا کروں گا…… اس سے کم نہیں دوں گا۔‘‘ پولیس آفیسر نے کہا۔ اور یوں لڑکے کو معاوضہ کے طور پرتین شیلنگ ادا کر دیے گئے۔
ننھے فریک نے اس سے قبل کبھی اتنے پیسے نہیں دیکھے تھے۔ اس لیے اس کا خیال تھا کہ یہ ایک بڑی رقم ہے…… مگر اُس نے پھر بھی پولیس آفیسر سے مزید پیسوں کا تقاضا کیا۔
’’مَیں نے پہلے ہی تمھیں جو دینا تھا، اس سے زیادہ ادا کردیا ہے۔‘‘ پولیس آفیسرنے کہا۔
’’کیا مجھے کپڑے خریدنے کے لیے کوئی پیسے نہیں ملیں گے؟‘‘ ننھے فریک نے پوچھا۔ ’’جو کپڑے میں ساتھ لے کر آیا تھا، وہ اب بہت پرانے ہوچکے ہیں اور مجھے اب تک کوئی نئے کپڑے نہیں دیے گئے۔‘‘ اس کے پھٹے پرانے کپڑے اس کے جسم پر چیتھڑوں کی صورت لٹک رہے تھے۔
’’معاہدہ کے مطابق جو طے پایا تھا، وہ تمھیں مل چکا ہے……بلکہ تین شیلنگ اضافی دیے گئے ہیں۔ اب تمھیں مزید کچھ نہیں مل سکتا۔‘‘ پولیس آفیسرنے کہا۔
البتہ پولیس آفیسر نے لڑکے کو باورچی خانے میں جا کر راستے کے لیے کچھ کھانا ساتھ لے جانے کی اجازت دے دی۔ چناں چہ ننھے فریک نے کھانا ساتھ لیا اورنئے کپڑے خریدنے کی غرض سے شہر کی جانب روانہ ہوگیا۔ وہ بے حد خوش اور ہشاش بشاش تھا۔ اُس سے قبل اُس نے کبھی پیسوں کی شکل تک نہیں دیکھی تھی۔ پھر اُس نے یہ جاننے کے لیے کہ سارے پیسے اُس کے پاس موجود ہیں، انھیں ہاتھ لگا کر محسوس کیا۔
دور، بہت دورجانے کے بعد اُس نے دیکھا کہ وہ چاروں طرف سے اونچے اونچے پہاڑوں میں گھری ایک تنگ وادی میں پہنچ چکا ہے۔ اب اُس نے غور کیا کہ یہاں سے باہر نکلنے اور آگے جانے کا کوئی راستہ نہیں۔ سو وہ سوچ میں ڈوب گیا کہ ان پہاڑوں کو کیسے عبور کر ے گا اور ان کی دوسری جانب کیا ہوگا؟ بہرحال اُسے ان پہاڑوں کو عبور کرنا تھا۔ سو وہ آگے بڑھنے لگا۔ چوں کہ وہ کم زور اور لاغر تھا، اس لیے سستانے کے لیے وقتاً فوقتاً زمین پر بیٹھ جاتا اور تب وہ ایک بار پھر اپنے پیسے بھی گن لیتا۔ جب وہ سب سے بلند پہاڑ پر پہنچ گیا، تو اُس نے دیکھا کہ وہاں کائی کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔وہ نیچے بیٹھ گیا۔ اُس نے سوچا کہ اُسے ایک بار پھر اپنے پیسے گن لینے چاہئیں، مگر اس سے پہلے کہ وہ پیسے باہر نکالتا، ایک فقیر اُس کے پاس آکھڑا ہوا۔ وہ اس قدر اونچا اور لمباتھا کہ اُسے دیکھ کر لڑکے کی چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔
’’ڈرو مت!‘‘ غریب آدمی نے کہا۔ ’’مَیں تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ خدا کے نام پر مجھے ایک شلینگ دے دو!‘‘
’’آپ مجھ پر رحم کریں!‘‘ لڑکے نے کہا۔ ’’میرے پاس صرف تین شلینگ ہیں اور مَیں شہر جا کر ان سے اپنے لیے کپڑے خریدنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’مَیں تم سے زیادہ خستہ حالت میں ہوں!‘‘ غریب آدمی نے کہا۔ ’’میرے پاس تو پھوٹی کوڑی بھی نہیں اور میرے کپڑے بھی تمھارے کپڑوں کی نسبت زیادہ پھٹے پرانے ہیں۔‘‘
’’اچھا ،تو پھر آپ یہ لے لیں!‘‘ لڑکے نے ایک سکہ اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔
تھوڑی دور آگے جانے کے بعد وہ پھرتھک گیا اور سستانے کے لیے زمین پر بیٹھ گیا، مگر نیچے بیٹھنے کے بعد جب اس نے نگاہ اُٹھا کر دیکھا، تو سامنے ایک اور فقیر کھڑا تھا، جب اس نے دیکھا کہ وہ تو پہلے والے فقیر سے بھی زیادہ بلند قامت اور بدوضع تھا، تو وہ چیخنے چلانے لگا۔
’’ڈرو مت! میں تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ خدا کے نام پر مجھے ایک شلینگ دے دو!‘‘ غریب آدمی نے کہا۔
’’آپ واقعی مجھ پر رحم کریں!‘‘ لڑکے نے کہا۔ ’’میرے پاس اب صرف دو شلینگ ہیں اور مَیں شہر جا کر ان سے اپنے لیے کپڑے خریدنا چاہتا ہوں۔ اگر آپ مجھے پہلے ملتے تو……! ‘‘
’’مَیں تم سے زیادہ خستہ حالت میں ہوں! ‘‘ غریب آدمی نے کہا۔ ’’میرے پاس ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں، جب کہ میرا جسم تم سے زیادہ بڑا ہے اور میرے پاس تم سے بھی کم کپڑے ہیں۔‘‘
’’اچھا، تو پھر آپ بھی ایک سکّہ لے لیں۔‘‘ لڑکے نے کہا۔
وہ پھر آگے بڑھنے لگا۔ یہاں تک کہ وہ تھک گیا اور دَم لینے کے لیے ایک بار پھرزمین پر بیٹھ گیا۔ مگر جوں ہی وہ نیچے بیٹھا۔ ایک فقیر اس کے پاس آ کھڑا ہوا۔ وہ بے حد بدصورت اور اس قدر لمبا تڑنگا تھا کہ لڑکا اسے دیکھنے کے لیے اوپر اور اوپر دیکھتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ اس کو آسمان دکھائی دینے لگا اور جب اس نے فقیر کی بدصورتی اور بدحالی دیکھی، تو وہ چیخنے چلانے لگا۔
’’میرے بچے، ڈرو نہیں!‘‘ غریب آدمی نے کہا۔ ’’مَیں تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ خدا کے نام پر مجھے ایک شلینگ دے دو!‘‘
’’آپ واقعی مجھ پر رحم کریں!‘‘ ننھے فریک نے کہا۔ ’’میرے پاس صرف ایک شیلنگ باقی بچا ہے، اور مَیں شہر جا کر اس سے اپنے لیے کپڑے خریدنا چاہتا ہوں۔ اگر میری آپ سے پہلے ملاقات ہوجاتی تو……!‘‘
’’ہاں، مگر میرے پاس ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں، اور میرا جسم بہت بڑا اور کپڑے بہت کم ہیں۔ مَیں تم سے زیادہ خستہ حالت میں ہوں!‘‘ غریب آدمی نے کہا۔
’’اچھا، پھر تو آپ کوبھی ایک سکّہ ملنا ہی چاہیے۔ اس کے سوا تو کوئی چارہ نہیں۔‘‘ ننھے فریک نے کہا۔ اس طرح ہر ایک فقیر کو ایک ایک سکہ دینے کے بعد ننھا فریک بالکل خالی ہاتھ ہوگیا۔ تب فقیر نے اس سے کہا: ’’چوں کہ تم اس قدر رحم دل ہو کہ تمھارے پاس جو کچھ بھی تھا، وہ سب تم نے مجھے عطا کر دیا۔ اس لیے میں ہر سکے کے بدلے میں تمھاری ایک خواہش پوری کروں گا۔‘‘ یہ وہی غریب آدمی تھا،جس کو لڑکے نے تینوں شیلنگ دے دیے تھے۔ وہ بار بار اپنا حلیہ بدل کر اس کے سامنے آتا رہا اور لڑکا اسے بالکل بھی پہچان نہ سکا۔
’’میری ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ میں وائلن پر ایک ایسی دھن بجاؤں، جسے سن کر دوسرے لوگ خوشی سے رقص کرنے لگیں!‘‘ لڑکے نے کہا۔ ’’لہٰذا اگر آپ میری یہ خواہش پوری کرسکتے ہیں، تو مجھے ایک ایسا وائلن دے دیجیے، جس کی دھن پر ہر ذی روح جھوم جھوم کر رقص کرنے لگے۔‘‘
اس کی یہ خواہش پوری کردی گئی، مگر یہ ایک ادنا سی خواہش تھی۔ اس لیے غریب آدمی نے کہا: ’’تمھیں دوسرے سکوں کے عوض کوئی بڑی خواہش کرنی چاہیے۔‘‘
’’میری ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ میں نشانہ بازی اور شکار کرسکوں!‘‘ ننھے فریک نے کہا۔ ’’لہٰذا اگر مَیں اپنی پسند کی خواہش کا اظہار کرسکتا ہوں، تو میری خواہش ہے کہ مجھے ایک ایسی بندوق مل جائے کہ جس کے ساتھ میں جس چیز پر بھی نشانہ باندھوں، وہ چاہے کتنی ہی دور کیوں نہ ہو۔ میرا نشانہ سیدھا اُسی چیز پر جاکر لگے۔‘‘
اس کی یہ خواہش بھی پوری کر دی گئی، مگر یہ بھی ایک حقیر سی خواہش تھی۔ اس لیے غریب آدمی نے کہا: ’’تمھیں آخری سکے کے عوض کوئی بہت بڑی خواہش کرنی چاہیے۔‘‘
’’میری ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ میرے ارد گرد ایسے لوگ ہوں، جو بہت مہربان اور رحم دل ہوں!‘‘ ننّھے فریک نے کہا۔ ’’لہٰذا اگر مَیں اپنی پسند کی خواہش کا اظہار کرسکتا ہوں، تو میری خواہش یہ ہے کہ مَیں جس سے جو چیزبھی مانگوں، وہ میری پہلی فرمایش پر مجھے عطا کر دی جائے۔‘‘
’’ ہاں، تمھاری یہ خواہش، معمولی خواہش نہیں!‘‘ غریب آدمی نے کہا اور پھر فوراً ہی وہاں سے غائب ہوگیا۔ لڑکا اسی جگہ پر لیٹ کر سوگیا۔
اگلے دن وہ اپنی وائلن اور بندوق اٹھائے پہاڑی علاقوں سے نیچے اُترا اور سب سے پہلے شہر کے تاجر کے پاس گیا اور اس سے اپنے لیے لباس طلب کیا۔ پھر ایک زمین دار کے ہاں گیا اور اس سے ایک گھوڑے کا تقاضا کیا۔ تیسرے شخص سے ایک بگھی اور چوتھے آدمی سے قطبی ہرن کی کھال سے بنا جبہ طلب کیا۔ کوئی شخص بھی اس کی خواہش کو رَد نہیں کرسکتا تھا۔ لڑکا جس سے جو مانگتا، وہ اس کے حوالے کر دیتا۔ بالآخر ننھا فریک ایک ایسے معزز شخص کی طرح شہر میں داخل ہوا، جو گھوڑے اور بگھی کا مالک تھا۔
اور پھر تھوڑی دور جانے کے بعد لڑکے کی اُسی پولیس آفیسر سے مڈ بھیڑ ہوگئی، جس کے ہاں وہ ملازم رہ چکا تھا۔
’’صبح بخیر، جناب،‘‘ ننھا فریک ہاتھ میں وائلن تھامے رُکا اور آداب عرض کیا۔
’’صبح بخیر!‘‘ پو لیس آفیسر نے کہا۔ ’’تم تو میرے ہاں ملازمت کرچکے ہو ناں؟‘‘ اُس نے پوچھا۔
’’جی ہاں، کیا آپ کو یاد نہیں کہ میں تین شیلنگ کے عوض تین سال تک آپ کی خدمت کرتا رہا ہوں؟‘‘ ننھے فریک نے کہا۔
’’باپ رے باپ……! اور اب تمھارے پاس ایک گھوڑا بھی ہے۔ تم اتنی کم مدت میں اتنے امیر کیسے ہوگئے؟‘‘ پو لیس آفیسر نے حیرانی سے پوچھا۔
’’بس کچھ نہ کچھ ہو ہی گیا!‘‘ ننھے فریک نے جواب دیا ۔
’’کیا اب تم اس قدر خوش ہو کہ وائلن لیے گھوم رہے ہو؟‘‘ پو لیس آفیسرنے پوچھا۔
’’ہاں، میری ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ مَیں لوگوں کو رقص پر آمادہ کرسکوں!‘‘ لڑکے نے کہا۔’’ لیکن میرے پاس سب سے عجوبہ چیزتو یہ بندوق ہے۔ مَیں اس کے ساتھ جس کسی پر بھی نشانہ باندھتا ہوں، وہ وہیں ڈھیر ہو جاتا ہے۔ چاہے وہ مجھ سے کتنے ہی فاصلہ پر کیوں نہ ہو۔ آپ وہاں شاخ پر بیٹھے اُس کوے کو دیکھ رہے ہیں ناں……! ‘‘ ننھے فریک نے پوچھا۔’’ اگر مَیں اپنی جگہ پر کھڑا رہ کر نشانہ باندھوں اور اُسے گرا دوں، تو آپ مجھے کیا دیں گے؟‘‘ اُس نے کہا۔
پولیس آفیسر اپنا گھوڑا، کھیت اور نقدی داؤ پر لگانے کو تیار تھا۔ کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ لڑکا اچھا نشانہ باز نہیں؛ مگر اُس کی خواہش تھی کہ لڑکا بھی اپنی تمام نقدی داؤ پر لگادے، تاکہ اس کے ہارنے کی صورت میں وہ اس کے سارے مال پر قابض ہو جائے۔ اس بات کا تو وہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ کسی بندوق سے اتنی دور نشانہ لگایا جاسکتا ہے……مگر جوں ہی گولی چلی، کوا جنگلی گلاب کی جھاڑیوں میں آ گرا۔ پولیس آفیسر تیزی سے وہاں پہنچا اور کوے کو جھاڑیوں سے اُٹھا کر لڑکے کے حوالے کر دیا۔ عین اسی لمحے ننھے فریک نے اپنا وائلن بجانا شروع کر دیا اور پولیس افسر ناچنے لگا۔ لڑکا وائلن بجاتا رہا اور پولیس افسر ناچتا رہا۔ یہاں تک کہ اس کے پاؤں زخمی ہوگئے اور وہ رونے، گڑگڑانے اور معافیاں مانگنے لگا۔ ناچتے ناچتے اس کے کپڑے بھی تار تار ہوگئے۔
’’ہاں، میرے خیال میں اب آپ کے جسم پر بھی ایسے ہی چیتھڑے لٹک رہے ہیں، جیسے آپ کی ملازمت کو خیر باد کہتے وقت میرے جسم پر لٹک رہے تھے۔‘‘ لڑکے نے کہا۔ ’’آپ کو صرف ایک شرط پر معافی مل سکتی ہے۔‘‘ اور وہ شرط یہ تھی کہ پہلے وہ داو پر لگائی گئی نقدی اور اشیا لڑکے کے حوالے کر دے۔
شہر پہنچ کر ننھے فریک نے ایک سرائے میں قیام کیا۔ وہاں وہ وائلن بجاتا اور سرائے میں آنے والے مہمان اُس کی دھنوں پر رقص کیا کرتے۔ اب وہ بے حد خوش وخرم تھا۔ اُسے کوئی غم نہیں تھا۔ کیوں کہ کوئی بھی اس کی کسی بات کو رد نہیں کرتا تھا۔
پھر ایک روز ایک عجیب واقعہ رونما ہوا۔ چند سپاہی اُسے پکڑ کر ضلع کچہری لے جانا چاہتے تھے۔ اس لیے کہ پولیس آفیسر نے اُس کے خلاف شکایت درج کرائی تھی کہ لڑکے نے اس پر حملہ کرکے اس کا سب مال و اسباب لوٹ لیا ہے اور وہ اس کی جان لینے کے بھی درپے ہے۔ اس لیے اسے پھانسی دی جانی چاہیے۔ اس کا جرم ناقابلِ معافی ہے۔
لیکن ننھے فریک کے پاس تو ہر مشکل کا حل موجود تھا…… اور وہ تھا اس کا وائلن۔ چناں چہ اس نے اپنا وائلن بجانا شروع کر دیا اور وہ سپاہی جو اُسے پکڑنے آئے تھے، وہ بھی ناچنے لگے…… اور ناچتے ناچتے وہیں زمین پر لیٹ کر ہانپنے لگے۔ اب اُسے گرفتار کرنے کے لیے فوجی جوانوں اور محافظوں کو بھیجا گیا…… مگر ان کا بھی وہی حال ہوا جو سپاہیوں کا ہوا تھا۔ جب ننھے فریک نے وائلن بجانا شروع کیا، تو وہ بھی ناچنے لگے اور جب تک لڑکا دھنیں بجاتا رہا، وہ تب تک ناچتے رہے۔ اگرچہ وہ بہت دیر پہلے سے ہی نڈھال ہوچکے تھے۔
بالآخر انھوں نے چالاکی سے ننھے فریک کو رات اس وقت گرفتار کرلیا، جب وہ سو رہا تھا اور پھر جلد ہی اُسے پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ اُسے فوراً پھانسی کے تختے تک لے جایا جانا تھا اور اس حیران کن واقعے کو دیکھنے کے لیے لوگوں کا ایک ہجوم وہاں جمع ہوچکا تھا۔ پولیس آفیسر بھی ان سب کے درمیان موجود تھا اور وہ بے حد خوش تھا کہ اب لڑکے کو پھانسی دے دی جائے گی اور اس کی جان اور پیسے دونوں بچ جائیں گے۔
مگر یہ مرحلہ بہت تیزی سے انجام نہ پاسکا۔ کیوں کہ ننھا فریک بہت نڈھال تھا اور بڑی مشکل اور سست روی سے قدم اُٹھا رہا تھا۔ پھر وائلن اور بندوق اپنے ساتھ گھسیٹنے کی وجہ سے وہ اور بھی نقاہت محسوس کر رہا تھا…… اور وہاں موجود لوگوں میں سے کوئی بھی اتنا بہادر نہیں تھا کہ اس سے وہ اشیا چھین سکتا۔ تختۂ دار کے قریب پہنچ کر جب اُس نے اوپر جانے کے لیے سیڑھیاں عبور کرنا شروع کیں، تو ہر بار ایک سیڑھی چڑھنے کے بعد وہ دَم لینے کو رُک جاتا۔ آخری سیڑھی پر پہنچ کر اُس نے نیچے بیٹھتے ہوئے سوال کیا کہ کیا وہ اس کی آخری خواہش کو رَد کرنے کے بدلے میں اس کی ایک بات مان سکتے ہیں؟ وہ چاہتا تھا کہ پھانسی پر لٹکائے جانے سے قبل اُسے وائلن پر ایک دھن بجانے کی اجازت دی جائے۔
اُ س کی اس خواہش کو رَد کرنا قابلِ شرم اور قابلِ مذمت ہے۔ انھوں نے کہا؛ اور یوں اس کی بات مان لی گئی…… لیکن پولیس آفیسر نے اُن سے التجا کی کہ خدا کے واسطے اُس کو وائلن کے ایک بھی تار کو چھونے کی اجازت نہ دی جائے، ورنہ کسی کی خیر نہیں ہوگی؛ اور اگر لڑکے کو وائلن بجانے کی اجازت دی جائے، تو پہلے اُسے درخت کے تنے سے باندھ دیا جائے۔
مگر ننھے فریک نے وائلن پر دھن چھیڑنے میں ذرا بھی دیر نہ کی اور جوں ہی اُس نے دھن بجائی، وہاں موجودہر ذی روح نے ناچنا شروع کر دیا۔ انسان، حیوان، بشپ اور پادری، مصنف اور مجسٹریٹ، پولیس آفیسر اور حاکمِ شہر، کتے اور سؤر…… سب ناچنے لگے۔ وہ سب دیر تک ناچتے، ہنستے اور چیخ و پکار کرتے رہے؛ یہاں تک کہ نڈھال ہو کر مردوں کی مانندزمین پر لیٹ گئے۔ چند ایک تو رقص کرتے کرتے بے ہوش بھی ہوگئے۔ وہاں موجود تمام لوگوں کا برا حال تھا…… مگر سب سے بدتر حالت تو پولیس آفیسرکی تھی، اس لیے کہ وہ درخت کے تنے سے بندھا تھا اور ناچتے ناچتے اس کی پیٹھ زخمی ہو چکی تھی۔
اب ننّھے فریک کا کوئی بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ وہ اپنی بندوق اور وائلن کے ساتھ جہاں چاہتا چلا جاتا اور کوئی بھی اس کی کسی خواہش کو رد نہیں کرتا تھا۔
یوں اس نے اپنی باقی زندگی ہنسی خوشی بسر کر دی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔