ملک اس وقت شدید ترین آئینی بحران اور ’’پولی ٹیکل کیاس‘‘ (Political Chaos) کا شکار ہوچکا۔ جو حلقے قومی اسمبلی کے خالی ہوئے، ان پر جو ضمنی انتخابات ہوں گے اس کی خاص اہمیت نہیں…… اور اگر بالفرض یہ تھوڑی تاخیر کرکے قومی انتخابات سے وابستہ کر دیے جائیں، تو سیاسی حوالے سے اس پر شاید تحریکِ انصاف بھی اس طرح کا ردِعمل نہ دے…… لیکن اصل مسئلہ ان دو اسمبلیوں کے انتخابات ہیں کہ جن کو ختم کرنے کا مقصد ہی ملک میں ایک خاص قسم کا آئینی و سیاسی بحران پیدا کرنا تھا۔
اب اگر آپ ایک منٹ کے لیے اس کو عملی سیاست سے علاحدہ بھی کر دیں، تب بھی ایک مستقل آئینی بحران پیدا ہوچکا ہے…… اور کچھ نئی پیچیدگیاں وقوع پذیر ہوگئی ہیں۔ سیاسی حد تک بے شک حکومت کی پٹاری میں کچھ بھی نہیں اور انتخابات کی تاخیر کا سادہ سیاسی ترجمہ یہی ہے کہ اس وقت عمران خان عوامی سطح پر بہت مقبول ہیں…… اور بے شک اتحادی حکومت کو شکست کا یقینی خطرہ ہے۔ سو اس وجہ سے عوام یہ کَہ سکتی ہے کہ حکومت سیاسی طور غلط کر رہی ہے۔ گو کہ حکومت کے حمایتی حلقے بے شک یہ دلیل دیتے ہیں کہ آج ہماری مقبولیت کی تباہی کی بڑی وجہ ملک میں مہنگائی کا ایک نا قابلِ برداشت طوفان ہے…… لیکن اس کی براہِ راست ذمے دار حکومت نہیں، بلکہ عمران خان ہے اور عمران خان کی خرابی کی سیاسی قیمت ہم کیوں دیں؟ سو اس وجہ سے ہم اکتوبر 2023ء سے پہلے انتخابات بالکل نہیں کروائیں گے…… بلکہ ممکن ہوا، تو شاید ہم اس کو اپریل 2024ء تک لے جائیں گے۔ سو اس کی خاطر ان کے پاس ہزار قسم کے دلائل اور جواز ہیں۔
دوسری طرف تحریکِ انصاف جو کہ اب سخت پچھتا رہی ہے کہ اس نے استعفوں اور خصوصاً اسمبلیاں توڑنے کا یہ ’’بلنڈر‘‘ کیوں کیا؟ کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ اس طرح سیاسی دباو بنا کر وہ عام انتخابات کروا لے گی۔ اب اس کو یہ پیغام ملا کہ عام انتخابات کہاں…… بلکہ اب تو وہ دو اسمبلیوں کے لیے بھی انتظار کریں۔
تحریکِ انصاف مسلسل یہ دہائی دے رہی ہے کہ انتخابات لازمی ہوں…… اور اگر انتخابات نہ ہوئے، تو یہ آئین کی کھلی خلاف ورزی ہوگی۔ اس پر حکومت کے اربابِ اختیار بشمول الیکشن کمیشن پر آئین سے غداری کی شق لگ سکتی ہے کہ جس کی سزا موت ہے۔
لیکن حکومت کو پروا ہی نہیں۔اگر آپ غیر جانب داری سے غور کریں، تو کسی کے سیاسی فائدے نقصان سے ہٹ کر دلائل دو طرفہ مضبوط ہیں۔ سچ یہ ہے کہ غلطی عمران خان کی اپنی ہے۔ تحریکِ انصاف نے دو اسمبلیاں توڑ کر بلکہ قومی اسمبلی سے بھی مستعفی ہوکر اپنا سیاسی نقصان تو کیا ہی کیا، لیکن بہرحال پورے ملک کو ایک سیاسی اور خاص کرآئینی بحران کا شکار کردیا ہے۔
اب صورتِ حال یہ بن چکی ہے کہ اگر آپ الیکشن نہیں کرواتے، تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہے…… بلکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر آپ ان حالات میں انتخابات کرواتے ہیں، تو یہ بھی آئین کی خلاف ورزی ہو گی۔ کیوں کہ آئین کے مطابق بنا تازہ مردم شماری کے آپ نئے انتخابات نہیں کروا سکتے…… اور نئی مردم شماری کے نتائج اپریل کے آخر تک آئیں گے۔ پھر اس بنیاد پر نئی حلقہ بندیاں تشکیل پائیں گی کہ جس کے لیے مذید چند ماہ مطلوب ہیں۔ پھر نئی حلقہ بندیوں کے خلاف اپیلیں یعنی یہ تمام عمل شاید مزید چھے ماہ مکمل نہ ہو۔ گویا دونوں صورتوں میں آئین خطرے میں ہے۔
اس کے علاوہ اب دو اسمبلیوں کے انتخابات پانچ سال کے لیے منعقد ہوں گے، جب کہ آئین کا تقاضا ہے کہ انتخابات کے وقت ملک پر غیر جانب دار حکومت ہو۔ اب بالفرض اگر دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوجاتے ہیں اور جب اکتوبر میں قومی اسمبلی کے عام انتخابات ہوں گے، تو دو صوبوں یعنی پنجاب اور خیبر پختون خوا میں تو نگران حکومتیں نہ ہوں گی، تو اس صورت میں آئین پر عمل در آمد کیسے ہوگا؟ کیوں کہ آئین اس کا نہ تو کوئی حل دیتا ہے اور نہ راستہ۔
پاکستان میں چوں کہ آئین پر مسلسل نظام چلا نہیں…… یا چلنے نہیں دیا گیا، تو اس وجہ سے نئی نئی پیچیدگیاں پیدا ہوگئیں اور بے شک ہمارے قوانین بنانے والے ادارے مستقبل میں اس پر یقینی غور کریں گے اور اس قسم کی پیچیدگیوں کو ختم کرنے کے لیے کوئی موثر نظام تشکیل دیں گے…… لیکن مسئلہ تو اب کا ہے، سو اس کا بہتر حل کیا ہوسکتا ہے؟ یہ بلین ڈالر سوال ہے۔
سو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس پر اگر دونوں بڑے سیاسی گروہ یعنی حزبِ اختلاف کہ جس کی قیادت تحریکِ انصاف کے ہاتھ میں ہے اور دوسری حکومت اگر اس معاملے پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرتے رہے اور محض ایک دوسرے کو تنگ کرنے اور چڑھانے واسطے بیان بازی کرتے رہے۔ میڈیا اور عوام میں اکھاڑا بناتے رہے، تو عین ممکن ہے کہ پوری بساط ہی لپیٹ دی جائے اور پھر دونوں کے ہاتھ کچھ نہ رہے۔
ماضی میں سنہ 58ء اور اس سے بھی زیادہ واقعاتی یکسانیت سنہ 1977ء کی ہے۔ سنہ 77ء میں بھی حالات ایسے ہی بن گئے تھے…… اور دونوں سیاسی دھڑے محض ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف رہے۔ حالاں کہ ان کے درمیان مذکرات بھی ہوتے رہے…… مگر دونوں متوازی سیاسی قوتیں مسئلہ حل کرنے کی بجائے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے چکر میں اس طرح الجھ گئیں کہ پھر پوری بساط ہی الٹ دی گئی۔ حتمی نتیجہ یہ نکلا کہ محض چار سال کے اندر اندر دونوں ایک ہی میز پر بیٹھ کر مارشل لا کے خاتمے کی جد و جہد میں ’’ایم آر ڈی‘‘ کے نام سے یکجا ہوگئے۔ اس کے بعد جاودانی آسمان نے دیکھا کہ جمہوریت کی بحالی 11 سال بعد ہوئی۔
اُن 11سالوں میں سیاسی قیادت کو بہت زیادہ قربانیاں دینا پڑیں۔ اس وقت بھی کچھ جمہوریت پسند حلقوں نے دونوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
وقت ریت کی طرح مٹھی سے تیزی سے پھسل رہا ہے۔ سو مہربانی کر کے کسی فارمولے پر پہنچ جائیں اور بنا وقت ضائع کیے فیصلہ کرلیں، لیکن تب بھی جہاں اس کی وقت کی حزبِ اختلاف بھٹو صاحب کی مقبولیت سے خوف زدہ تھی، وہاں حکومت بھی محض اس بات پر سمجھوتا کرنے کے لیے تیار نہ تھی کہ ہم بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے۔ بالکل یہی بات آج بن رہی ہے۔
سو ہم بحیثیت ایک عام پاکستانی کے اپنی قومی سیاسی قیادت کو یہ مشورہ دیں گے کہ وہ پہلے خود ایک میزکے گرد بیٹھ جائیں اور آپس میں چند بنیادی امور طے کرلیں۔ اس کے بعد تمام پیچیدہ و متنازعہ معاملات کو ایک ریفرنس کی شکل میں بنا کر پاکستان کی سب سے بڑی عدالت یعنی سپریم کورٹ آف پاکستان میں داخل کر دیں۔
البتہ آپ کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنے سیاسی مفادات اور مستقبل کی امید کے لیے مکمل تیاری سے وکلا کا پینل تیار کریں…… اور سپریم کورٹ میں دلائل کا وزن بڑھاتے جائیں، لیکن حتمی فیصلہ خدا کے بعد پاکستان کی سب بڑی عدالت یعنی عدالتِ عظمیٰ پر چھوڑ دیں اور جو فیصلہ عدالت عظمیٰ دے، اس کو من و عن تسلیم کرکے خود کو اس کے رحم کرم پرچھوڑ دیں۔ تب ان شاء ﷲآپ کا کوئی نقصان نہ ہوگا۔ کیوں کہ اگر کوئی بھی صاحبِ شعور شخص اس کی گہرائی میں جائے، تو سارا مسئلہ تو بس چند ماہ کی مدت کا ہے…… یعنی اگر سپریم کورٹ تحریک انصاف کا موقف تسلیم کرلیتی ہے، تو حکومت متعین مدت سے چند ماہ قبل جاتی ہے اور اگر فیصلہ حکومت کے حق میں آتا ہے، تو پھر تحریکِ انصاف کے لیے بس چند ماہ کا صبر ہے۔
اس کے بعد فیصلہ تو بہرحال عوام نے عام انتخابات میں کرنا ہے…… اور جس کو عوام نے ووٹ کی پرچی سے اقتدار دیا، اسی نے آئندہ پانچ سال تک اقتدار کے سنگھاسن میں بیٹھنا ہے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ نہایت ہی معقول انصاف پر مبنی اور قابلِ عمل طریقہ ہے کہ جس کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں اور نہ اس کا کوئی متبادل ہے۔ دونوں اطراف کی سیاسی قیادت کے لیے وِن وِن (win win) پوزیشن ہے…… یعنی عوام میں اس کو بطور ایک آئینی حل اور بہتر سیاسی فیصلہ کے لیا جائے گا، نہ کہ کسی ایک فریق کی ہار اور جیت سے تشبیہ دی جائے گی۔
قارئین! آخر میں ہم حکومت سے یہ اپیل کریں گے کہ وہ مقدمات وغیرہ پر ہاتھ ہولا رکھیں اور وہی کام نہ کرے جو عمران حکومت کی ناکامی اور بدنامی کا باعث بنا تھا۔
اس طرح خان صاحب سے بھی یہ گزارش کریں گے کہ وہ بھی ذرا خوابوں اور جذبات سے ہٹ کر ٹھنڈے دل سے غور کریں اور اپنے رویے کو جارحانہ کی بجائے مفاہمانہ بنائیں…… اور جلد از جلد حکومت سے مذاکرات کا ڈول ڈالیں۔
اس کے علاوہ ہم اسٹیبلشمنٹ بشمول اعلا عدلیہ سے بھی یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ بطورِ ریاست ان تمام حالات میں ایک سمجھ دار بڑے کا کردار ادا کرے…… اور بین الفریقین اپنے رویے میں بہتری اور سیاسی ماحول میں گرمی کی جگہ ذرا ہلکی سی خنکی لانے پر متفق کرے، تاکہ نظام آگے فطری عمل کے تحت چلتا رہے۔
اگر ایسا نہ ہوا اور حالات خدا نخواستہ سنہ 77ء کی نہج پر پہنچ گئے، تو پھر اس میں سیاست و سیاسی جماعتوں کا نقصان تو جو ہونا ہے ہوگا…… لیکن ریاست کی بنیادیں بھی حل جائیں گی۔ معاشی حالات زیادہ اور تیزی سے خراب ہوجائیں گے۔
اس طرح فوج بحیثیتِ ادارہ تنزل کا شکار ہوسکتا ہے اور پھر اس کی وجہ سے (اﷲمعاف کرے) دہشت گردوں کو کھلی چھٹی اور دوسرے ریاستی باغی جتھے خصوصاً جن کو باہر سے مدد ملتی ہے، وہ مضبوط سے مضبوط تر ہوسکتے ہیں۔ اس تمام تر صورتِ حال کا منطقی نتیجہ کسی بہت بڑے سانحہ کا بھی باعث بن سکتا ہے۔
بہرحال ایک عام اور لے مین پاکستانی کی حیثیت سے ہم نے جو سمجھا، وہ مکمل نیت نیتی سے اربابِ اختیار کے گوش گزار کر ادیا۔ باقی مرضی ہے صاحبِ اقتدار و اقتدار کی بندر بانٹ کرنے والے کچھ خفیہ ہاتھوں کی۔
اس کالم کے خاتمے پر یہ اچھی خبر ملی کہ سپریم کورٹ نے اس بحران پر سیو موٹو لے کر فل بنچ بنا دیا ہے۔ امید ہے اب مسلہ حل ہونے جا رہا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔