وہ اپنے کام کا سفید یونیفارم تبدیل کرکے بلیو سکرٹ میں ملبوس تھی۔بلیو رنگ بعض لوگوں پر بہت جچتا ہے۔مجھے لگا شایدیہ رنگ کیکو کی شخصیت کے لیے ہی بنا تھا۔ اس کے چہرے پر میک اَپ نہیں تھا، مگر پھر بھی اس کے گا ل تازہ گلاب کی طرح کھل رہے تھے۔ تاہم اس کے چہرے پر معمول کے مطابق مسکراہٹ نہیں تھی۔ باہر نکل کر اس نے مجھے اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔ ’’روپونگی ہلز‘‘ سے گزرتے ہوئے وہ مجھے ’’ایسے سویوشی‘‘ نامی ریسٹورنٹ لے گئی، جو ’’سی فوڈ‘‘ کے لیے مشہور ریسٹورنٹ تھا۔ اس نے مینو منگوایا اور کھانا آرڈر کیا، جس میں سوشی، سلمون فش اور جاپان کی روایتی سوپ شامل تھے۔ آرڈر دینے کے بعد اس نے دھیمی آواز میں بات شروع کی۔ ’’تو کل آپ یہاں سے چلے جائیں گے۔ ٹوکیو میں میری زندگی ایک بار پھر ویران کھنڈ ر کی طرح سنسان ہوجائے گی۔دن کو سٹور، رات کو گھر، سونا اور کام پھر سے میری روٹین بن جائیں گے۔‘‘
اس نے کہا، آپ کے آنے سے مجھے پہلی دفعہ زندگی سے پیار ہوگیا تھا۔ کیو ں کہ آپ زندگی کو سماجی و تمدنی طریقے سے گزارنے کا فن جانتے ہیں اور دوسروں کو سکھاتے ہیں۔ ہم جاپانی اجنبی لوگوں کے ساتھ کبھی بے تکلف نہیں ہوتے اور نہ ہی کبھی کوشش کرتے ہیں۔
’’مجھے آپ کے لائف سٹائل پہ رشک آتا ہے۔ کیو ں کہ آپ کام کرتے ہیں، دوستوں سے گھل ملتے ہیں، سیرو سیاحت کے لیے جاتے ہیں، لکھتے پڑھتے ہیں اور اپنے شوق پورے کرتے ہیں۔‘‘ اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا،’’ مگر ہم ٹوکیومیں ایسے نہیں ، ہم بس خاموشی سے زندگی بسر کرتے ہیں، کام اور گھر کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔ اس لیے ہم اندر ہی اندر اپنے آپ کو کھا جاتے ہیں اور ایک دن خاموشی سے رخصت ہوجاتے ہیں۔‘‘ ہم کافی دیر تک باتیں کرتے گئے، جس میں زیادہ تر وہ ہی بول رہی تھی۔ اس نے کہا کہ مختصر وقت کے لیے ہی سہی، مگر آپ میرے بہترین دوست بن گئے ہیں۔ مگر اس کے بعد میں ایک بار پر اکیلی ہوجاؤں گی، کسی کے ساتھ اپنی خوشیاں اور غم شریک نہیں کرسکوں گی۔
کھانا کھانے کے بعد گو کہ میرا دل نہیں چاہ رہا تھا مگر مجھے اے ایل ایف پی اور جاپان ہاؤس کی جانب سے الوداعی ڈنر میں جانا تھا۔ اس لیے میں نے کیکو کو چلنے کا کہا ۔ بل ادا کرنے کے بعد ہم پیدل ہی واپس آئے۔ کیکو میرے ساتھ آئی ہاؤس تک آئی اور رسماًہاتھ ملانے کے بعد چلی گئی۔ میں کچھ دیر تک آئی ہاؤس کے بیرونی گیٹ کے ساتھ کھڑا رہا اور کیکو کو واپس جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ جب وہ دور میری نظروں سے اوجھل ہوئی، تو میں اندرچلا گیا۔
رات کو ہمارے لیے الوداعی ڈنر کا پروگرام رکھا گیا تھا، جس کے لیے ہم تمام فیلوز اور ایشیا لیڈر شپ فیلو پروگرام اور جاپان ہاؤس کا انتظامی عملہ ’’آبو جوبان‘‘ میں ایک جاپانی رسیٹورنٹ میں گئے، جہاں ہمارے لیے جاپان کی روایاتی خوراک کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اے ایل ایف پی کے سٹاف نے ہمیں پروگرام کے دوران میں لی گئی تمام تصویریں ڈی وی ڈیز میں دیں اور اختتامیہ کلمات کے ساتھ ہم سے رخصتی لی۔ ڈنر اور رخصتی کے بعد ہم آئی ہاؤس جا کراپنے اپنے کمروں میں گئے۔
تین نومبر کو دن کے دو بج کر پچیس منٹ پر میری فلائٹ تھی جب کہ تقریباً بارہ بجے انڈین فیلو سمیتا کی بھی فلائٹ تھی۔ اس لیے رات کو ہی ہم نے ایک ساتھ’’ نریتا‘‘ ائرپورٹ جانے والی صبح نو بجے کی شٹل بس کی بکنگ کی۔ اس لیے میں صبح سویرے اٹھا اور ناشتہ کیا۔ آئی ہاؤس کے ریسٹورنٹ میں چوں کہ میری سب سٹاف سے علیک سلیک تھی، اس لیے ان سب سے اجازت لی اور کمرے سے سامان نیچے لایا، تو ریسپشن پر موجود عملہ سے بھی خوشگوار ماحول میں الوداعی ملاقات کی۔ اس دوران میں ہماری جاپانی فیلو ’’آیاکو‘‘ نیچے آئی اور ہمیں وہاں سامان سمیت دیکھ کر سیدھی ہمارے پاس آئی اور باری باری گلے مل کر رونے لگی۔ دو مہینوں کے ساتھ میں ہم نے بہت اچھا وقت گزارا تھا۔ بالکل ایسے جیسے ایک ہی خاندان کے افراد ہوں۔ ان دو مہینوں میں ہم نے بہت سی چیزیں سیکھنے کے ساتھ ساتھ کئی قہقہے لگائے تھے، ساتھ کھانا کھایا تھا اور ساتھ گھومے پھرے تھے۔ اس لیے ایک دوسرے سے جدا ہونا مشکل تھا۔ جب ’’آیاکو‘‘ ہمارے جداہونے پر روئی، تو مجھے بھی رونا آیا۔ اس لیے وہاں موجود لوگوں سے نظریں چراکر میں نیچے ہی دیکھ رہا تھا۔ کچھ ہی دیر میں ہماری ٹیکسی آئی۔ اس لیے ہم نے’’آیاکو‘‘ سے اجازت لی اور باہر چلے گئے۔ ٹیکسی ہمیں شٹل بس کے سٹاپ لے گئی، تو ہم بس میں بیٹھ گئے اور کچھ دیر بعد ٹوکیو کے نریتا ائرپورٹ روانہ ہوئے۔ مجھے چوں کہ ٹرمینل 2 اور سمیتا کو ٹرمینل 1 پر اترنا تھا، اس لیے بس ٹرمینل ٹو پر پہلے رُکی، میں نے سمیتا سے اجازت لی اور نیچے اترا ۔ بس سے سا مان وصول کیا اور اندر جانے لگا، توکیا دیکھتا ہوں کہ کیکو پھولوں کا گلدستہ لیے سامنے کھڑی میرا انتظار کر رہی تھی۔ اسے دیکھ کر میں حیرانی کے ساتھ بہت خوش بھی ہوا۔ وہ جلدی سے میرے قریب آئی اور سلام کرنے کے بعد مجھ سے ایک بیگ لیا اور میرے ساتھ اندر چلی گئی۔ میری پرواز میں کافی وقت تھا، اس لیے ہم اندر جا کر ایک طرف بیٹھ گئے۔ کیکو کے چہرے پر معمول کے مطابق مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی جس میں اس کا گلابی گالوں والا رخسار خوبصورت اور پرکشش لگ رہا تھا۔ وہ ہر بات پر اسی طرح مسکراتی اور ہنستی تھی جس طرح ہم اول اول ملے تھے۔ تقریباً ایک گھنٹا ہم ائیرپورٹ کے بیرونی لاؤنچ میں بیٹھ کر گپ شپ لگا رہے تھے۔ آخر میں نے کیکو سے کہا کہ مجھے امیگریشن اور دوسرے لوازمات کے لیے اندر جانا ہے۔ میں اُٹھا سامان پکڑا اور سامنے پی آئی اے کے کاؤنٹر کی طرف گیا، جب کہ کیکو وہی پر میرا انتظار کرنے لگی۔ جب میں نے بورڈنگ پاس لیا، اپنا سامان جمع کرایا، تو اندر لاؤنچ جانے سے پہلے اورآخری رخصتی کے لیے کیکو کے پاس گیا، جو مجھ سے گلے ملی اور کافی دیر تک مجھ سے چپٹی رہی۔’’اگر ہوسکے، تو ایک بار پھر جاپان آجانا، میں آپ کا انتظار کروں گی اور اپنی ماں سے ملواوں گی۔‘‘ اس نے کہا ۔ میں اس کے دل کی تیز دھڑکن محسوس کرسکتا تھا۔ میرا دل چاہا کہ سب کچھ چھوڑ کر کیکو کے ساتھ واپس ٹوکیو شہر چلا جاؤں، مگر یہ سب اب ممکن نہیں تھا۔ اردگرد پاکستانی مسافر ہمیں دیکھ رہے تھے جب کہ جاپانی عملہ معمول کے مطابق اپنے کام میں مصروف تھا۔ کچھ دیر بعد کیکو کی گرفت ڈھیلی پڑگئی۔وہ خاموشی سے نیچے دیکھتی رہی۔کیکو کو خدا حافظ کہا اور اُسے بغیر دیکھے وہا ں سے چل دیا۔ امیگریشن سے ہوتے ہوئے جب میں نے پیچھے دیکھا، تو کیکو غائب تھی۔
جہاز نے جب اڑان بھری، تو جدید ٹوکیو شہر میں حسبِ معمول گاڑیوں کی ریل پیل اونچی اونچی عمارتوں کے درمیان کشادہ سڑکوں پر دیکھی جاسکتی تھی۔ میں ٹوکیو شہر کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھ رہا تھاکہ کچھ لمحوں بعد دیوقامت عمارتیں چھوٹی اور گاڑیاں کیڑے مکوڑوں کی طرح لگنے لگیں اور آخرِکار سب کچھ غائب ہوگیا۔
…………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔