اس میں دو رائے نہیں کہ جنگ نے ہر دور میں ممالک کی سرمایہ کاری، لین دین کے معاملات، روزگار، سیاست اور تجارت کو نقصان پہنچاتے ہوئے مجموعی طور پر ان کی معیشت کو تباہ کیا ہے۔ جنگِ عظیم دوم کے موقع پر بھی ایک بار پھر سے یہی روایت دہرائی گئی، مگر اس مرتبہ اس کی زد میں دنیا کی تمام بڑی طاقتیں اور ریاستیں آئیں۔ چناں چہ حالات کے پیشِ نظر عالمی طور پر شدید ضرورت محسوس کی گئی ایک ایسے ادارے کی جو تباہی کے دہانے پر کھڑے ان ممالک کو معاشی استحکام کے ذریعے سہارا دے سکے…… اور مستقبل میں بھی اس قسم کی مشکلات سے ان کی نجات کا باعث بن سکے۔
اسی تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے 22 جولائی 1944ء کو ’’بریٹن ووڈز کانفرنس‘‘ (Bretton Woods Confrence) کے دوران میں ریاستوں کی بہتری و ترقی اور اس راستے میں آنے والی تمام الجھنوں کو سلجھانے کے لیے ایک بین الاقوامی ادارے ’’انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ‘‘ (آئی ایم ایف) کو وجود میں لایا گیا۔
اس تنظیم کی بنیاد کھڑی ہوتے ہی چالیس ممالک نے فوری طور پر اس کی نمایندگی کا اعلان کر دیا…… اور عہدِ حاضر میں یہ تعداد 190 تک پہنچ چکی ہے۔
’’آئی ایم ایف‘‘ کا واحد مقصد مالی قوت کے توسط سے اپنے تمام ممبران کو پائیدار ترقی اور خوش حالی حاصل کرنے میں مدد فراہم کرنا ہے…… اور اس کے سوا کچھ نہیں۔ ان کی کرنسی کی شرحِ تبادلہ کو بہتر بنانے اور اتار چڑھاو کے بجائے ایک مستقل سمت کا تعین کرنے میں یہ ادارہ اپنا ہر ممکن کردار ادا کرنے کا دعوا کرتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک ریاست کا معاشی طور پر غیر مستحکم ہونا اس کی قومی سلامتی کے لیے خطرے کی گھنٹی بجنے کے مترادف ثابت ہوسکتا ہے، جس کی عملی مثال حال ہی میں ہم نے سری لنکا کی شکل میں پڑھی، سنی اور دیکھی۔
اب سوال یہ اُٹھتا ہے کہ ’’آئی ایم ایف صاحب‘‘ کے پاس خود کہاں سے پیسے آتے ہیں…… جو یہ پس ماندہ ممالک کو قرض کی سہولت دیتا پھرتا ہے۔ اصل میں ان کے اپنے ممبران ہی اپنے سالانہ بجٹ میں سے اس تنظیم کو فنڈ فراہم کرتے ہیں اور ان فنڈز ہی کی بدولت ادارہ ایک ساتھ ایک کھرب ڈالر تک کا قرض دینے کی قوت رکھتا ہے۔ ہر وہ ممبر جو فنڈ دیتا ہے، اسے بدلے میں ووٹ کا مکمل اختیار دیا جاتا ہے۔
’’آئی ایم ایف‘‘ کا قانون ہے کہ آپ جتنا بھاری فنڈ دیں گے، اتنا ہی آپ کے ووٹ میں وزن ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کو اس حوالے سے سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ کیوں کہ اسے اپنا سترہ فی صد فنڈ وہیں سے ملتا ہے۔ اس لیے اس چار دیواری کے اندر امریکہ کا اثر و رسوخ بھی زیادہ اور رائے کی اہمیت بھی۔ شاید اسی وجہ سے اکثر و بیشتر یہ آواز ہمارے کانوں میں گونجتی رہتی ہے کہ ’’غلام ہے غلام ہے ، آئی ایم ایف امریکہ کا غلام ہے۔‘‘
یہ تمام چیزیں اس بات کو باقاعدہ واضح کر دیتی ہیں کہ آئی ایم ایف میں جمہوری اقدار کا کس قدر خیال رکھا جاتا ہے……!
اب اگر ان کی سیاست میں مداخلت کی جانب نظر ڈالی جائے، تو جتنی باتیں ہوں، اتنی کم ہیں۔
1997ء میں جب تمام ایشیا اقتصادی بحران کا شکار ہوا، تو سارے ممالک نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم سب مل کر اپنے لیے سو ارب ڈالر کا فنڈ بنائیں گے۔ اس خبر کے پھیلتے ہی امریکی ماہرِ افتصادیات ’’لیری سمرس‘‘(Larry Sumers) ہنگامی طور پر تھائی لینڈ پہنچے، جہاں اس معاملے پر بات کی جارہی تھی۔ وہاں انھوں نے اُن ارادوں کی مذمت کرتے ہوئے یہ کہا کہ انھیں اس طرح کے تمام معاملات کے لیے آئی ایم ایف سے ہی رجوع کرنا ہوگا۔ اس کے سوا ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ بالکل نہیں۔
قارئین! موقع مناسبت سے ایک اور چیز بھی یہاں شامل کرتا چلوں کہ آئی ایم ایف کی طرف سے ایک خصوصی سہولت دی جاتی ہے اپنے ممبرز کو جسے”Extened Fund Facility” (ای ایف ایف) کا نام دیا گیا ہے۔ ’’ای ایف ایف‘‘ پاکستان سمیت کئی ممالک میں سب سے زیادہ استعمال کی جانے والی سہولت ہے۔ کیوں کہ یہ قرض کی ادائی کا دورانیہ بڑھانے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ تاہم کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی جس سے یہ کہا جا سکے کہ ’’ای ایف ایف‘‘ کسی ریاست کے حق میں بہتر ثابت ہوئی ہو۔ البتہ حقائق یہ وضاحت ضرور پیش کرتے ہیں کہ اس کی وجہ سے ممالک قرض ادا کرنے کی جگہ معاشی طور پر مزید بدحال بلکہ بحران کا شکار ہوئے ہیں۔
قارئین! ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے ہاں پٹرول، بجلی اور گیس سمیت تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ’’ای ایف ایف‘‘ ہی کی کرامات کا نتیجہ ہے۔
بظاہر تو یہ سب بہت مثبت اقدام دکھائی دیتے ہیں۔ ایک ملک کو اپنی معیشت سنبھالنے کے لیے اگر قرض مل جائے، تو اس کے لیے بھلا اس سے بہتر اور کیا بات ہوگی…… مگر درحقیقت معاملہ کچھ اور ہے۔ سب سے پہلا نقطہ جو اس حوالے سے سامنے آتا ہے وہ ’’شرائط‘‘ (Conditions) کا ہے۔ آئی ایم ایف جب بھی کسی ملک کو اُدھار دیتا ہے، تو اس کے ساتھ چند شرائط بھی سامنے رکھتا ہے۔ اُن شرائط میں سب سے پہلی شرط جو سامنے آتی ہے اس کے لیے لفظ ’’آسٹیریٹی‘‘ (Austerity) کا استعمال کیا جاتا ہے۔ گذشتہ حکومت کے ابتدائی مراحل میں بھی ہمیں یہ اصطلاح بار بار سننے کو ملی تھی۔ اس کا آسان مفہوم یہ ہے کہ قرض حاصل کرنے کے لیے حکومت کو اپنے اخراجات کم کرکے عام مصنوعات پر ٹیکس بڑھانا پڑے گا۔ یہاں سے مسائل کی اصل شروعات ہوتی ہے۔
اگر کوئی شخص کسی کے پاس قرض مانگنے کے لیے جائے، تو اس کا واحد مطلب یہی ہے کہ وہ فرد معاشی طور پر استحصال کا شکار ہے…… اور ایسے میں قرض دینے والا اس کو اس طرح کی شرائط کا پابند کردے، تو وہ بے چارہ کسی صورت استحقاق حاصل نہ کر پائے گا…… بلکہ مزید پستی کی طرف جاتا چلا جائے گا۔ یوں قرض دینے والے کے لیے کچھ بہتر ہوگا اور نہ لینے والے کے لیے۔
کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ ان شرائط میں اس طرح کی کئی چیزیں ہیں جن میں سرمایہ کاری پر قبضہ کرنا، کرنسی کی ہیر پھیر کرنا اور نجی معاملات میں دخل دینے جیسے تمام کھیل شامل ہیں۔
ان سب کی وضاحت کے لیے آپ ’’ارجنٹینا‘‘ (Argentina)ہی کی مثال لے لیجیے۔ انھیں آئی ایم ایف نے اپنی تاریخ کا سب سے بڑا قرض دیا تھا، جس کی مالیت پچاس ارب ڈالر سے بھی زیادہ تھی۔ اس فیصلے پر کافی تنقید کی گئی، مگر قرض دے دیا گیا…… لیکن اس کے باوجود بھی ان کے ہاں بے روزگاری کی شرح بڑھتی رہی۔ غربت پھیلتی رہی اور حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید بدتر ہوتے گئے۔
ارجنٹینا کے علاوہ بھی یورپ اور افریقہ کے اَن گنت ممالک کی مثالیں بھری پڑی ہیں، جنھیں قرض لینے کے بعد بھی سکھ کا سانس نصیب نہ ہوا۔
اس کے بعد جس بنا پر انھیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، وہ یہ کہ ادارے کے تمام اعلا سطح کے ذمے داران، مختلف ممالک کے وہ سیاست دان ہیں جن کے ہر عمل کے پیچھے کوئی نہ کوئی ایجنڈا لازماً پوشیدہ ہوتا ہے۔ ان لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے لوگ مناسب الفاظ کا استعمال کرنا کسی حال میں پسند نہیں کرتے۔ اگر آپ ورلڈ بینک کے سابقہ چیئرمین ’’جوزف سٹِگلیٹز‘‘(Joseph Stiglitz) کا مطالعہ کریں، تو آپ کو یہ معلوم ہوگا کہ انھوں نے کس قدر خوب صورت انداز میں حقائق کی بنیاد پر آئی ایم ایف کی خامیوں کو طشت از بام کیا ہے۔
اپنے سرچارجز کو حد سے زیادہ بڑھا دینا بھی ان کے لیے خیر کا باعث نہ بن سکا۔ کورونا کے دوران 2019ء سے 2021ء تک ان کے سر چارجز میں ایک ارب ڈالر سے دو ارب ڈالر تک یعنی 100 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ وائرس سے نجات حاصل کرتے ہی اس قدر بڑے جھٹکے نے ممالک کو شدید پریشان کر رکھا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کا پاکستان پر جو مجموعی قرض ہے، اس میں چار ارب ڈالر تو صرف سر چارجز ہی ہیں۔
ان سے یہ بھی منسوب کیا جاتا ہے کہ یہ اپنی حدود سے باہر نکل کر کام کرنے کے عادی ہیں۔ جس میں ممالک کے سیاسی، سماجی، معاشی اور نظریاتی اقدار کو ٹھیس پہنچانے تک کا ان کو قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے۔
ان تمام چیزوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے باآسانی یہ تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ یہ ادارہ کسی صورت، کسی حال میں بھی کسی کے حق میں بہتر ثابت نہ ہوسکا۔
معاشی استحکام کے لیے صرف پاکستان ہی نہیں…… بلکہ تمام ریاستیں اور طاقتیں اگر کوئی اور مگر جامع راستہ اختیار کریں، تو امید ہے کہ کچھ بہتری کی فضا اور خوش حالی کا سماں دیکھنے کو ملے۔
بہرحال، آئی ایم ایف کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ انھوں نے کوئی ایک بار نہیں بلکہ بار بار اور ہر بار اس بات کی بھرپور انداز میں تصدیق کی ہے
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
کیوں کہ وہ ممالک جو اس کے قرضوں کی زد میں آئے ہیں…… وہ غلام، ابنِ غلام، ابنِ غلام بن کر رہ گئے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔