مطالعۂ پاکستان کھول کر پڑھنے لگ جائیں، تو پاکستان ایک زرعی ملک ہے جو وافر مقدار میں گندم پیدا کرتا ہے…… جب کہ حقیقی صورتِ حال یہ ہے کہ ایوب خان کے ’’سنہرے دور‘‘ میں بھی امریکہ نے گندم کی امداد دی تھی۔ اب تو اس ’’زرعی ملک‘‘ کی حالت یہ ہے کہ گندم، دالیں، سویابین، ٹماٹر، چینی اور دیگر خوراکی اشیا برآمد کرنا پڑ رہی ہیں۔
یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ برآمدات کے لیے ڈالرز کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیوں کہ عالمی تجارت ڈالرز میں کی جاتی ہے۔ وطنِ عزیز میں چوں کہ برآمدات کے مقابلے میں درآمدات کا حَجم زیادہ ہے، جس سے تجارتی خسارہ جنم لیتا ہے اور ڈالرز کی کم یابی ہوجاتی ہے۔ آج کل یہ صورتِ حال کچھ زیادہ سنگین ہے۔ کیوں کہ ’’ڈار صاحب‘‘ کی تشریف آوری کے بعد بھی ڈالر نے نیچے آنے سے انکار کیا ہوا ہے۔
ویسے جملۂ معترضہ ہی سہی مگر ڈار صاحب کے واپس آنے سے ڈالر نیچے آیا یا نہیں، لیکن میڈیائی خبروں کے مطابق نیب کے نئے قوانین کا سہارا لے کر جنابِ ڈار نے اپنے خلاف تمام کیس ختم کر دیے ہیں اور نیب کی تحویل میں موجود اپنی لاہور والی رہایش گاہ بھی واگزار کرادی ہے۔
خیر، بات ہورہی تھی مطالعۂ پاکستان والے پاکستان اور حقیقی پاکستان کی، تو حقیقی صورتِ حال تو یہ ہے کہ آج ملک بھر میں آٹا انتہائی مہنگا ہوگیا ہے۔ پنجاب اور سندھ کے مقابلے میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں آٹے کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔ ایسا کیوں ہے، کیا یہ دو صوبے پاکستان کا حصہ نہیں؟ ہم تو اب بھی ’’اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں!‘‘ والا نغمہ ترنم سے گاتے پر مامور ہیں۔
مطالعۂ پاکستان میں تسلسل کے ساتھ اس کہانی کا بھی ذکر کیا جاتا ہے کہ پاکستان کے پاس پانی کا وسیع ذخیرہ موجود ہے، تربیلا ڈیم دنیا میں مٹی سے بنا سب سے بڑا ڈیم ہے اور پاکستان کے پاس دنیا کا بہترین نہری نظام ہے، و علی ہذاالقیاس۔ بالکل ایسا ہے، مگر کیا ہمیں یہ بھی پتا ہے کہ پنجاب میں موجود یہ بہترین نہری نظام پاکستان کا نہیں بلکہ تقسیمِ ہند سے قبل گوروں کا بنایا ہوا ہے۔ ہم نے اس نظام سے اتنا فایدہ بھی نہیں لیا کہ کم از کم گندم تو درآمد نہ کرتے۔
اس طرح تربیلا اور منگلا ڈیمز کی بات کی جائے، تو یہ بھی ایوبی آمریت میں امریکی پشت پناہی اور امداد سے بنے ہیں۔ اگر ہم خود کچھ کرسکنے کے قابل ہوتے، تو اب تک کالا باغ ڈیم بنا دیا گیا ہوتا، مگر ہم بحیثیتِ قوم صرف باتیں ہی کرسکتے ہیں۔ پانی کے کافی ذرایع موجود ہیں، مگر باوجود اس کے پاکستان میں ’’فرنس آئل‘‘ سے مہنگی بجلی بنائی جاتی ہے۔ یعنی ہم اپنے بجلی گھر چلانے کے لیے تیل درآمد کرتے ہیں اور اس کے عوض لاکھوں کروڑوں ڈالر ادا کرتے ہیں۔
ہمارے ’’کرتا دھرتاؤں‘‘ نے تو اس مد میں کچھ نہیں کیا۔ خیر سے اب قومی سلامتی کمیٹی نے نیا آرڈر جاری کیا ہے کہ ’’ارلی ٹو بیڈ، ارلی ٹو ورک‘‘ یعنی جلدی سونا اور جلدی کام پر نکل جانا۔ اس کا آسان سا مطلب یہ ہے کہ دن کے وقت سورج کی روشنی سے زیادہ فایدہ حاصل کیا جائے اور مصنوعی توانائی پر انحصار کم سے کم کیا جائے، جیسا کہ ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔ یعنی تمام کاروباری سرگرمیاں شام ہوتے ہی ختم اور فجر ہوتے ہی شروع ہوں۔ یہ پالیسی قابلِ ستایش ہے…… مگر سوال پھر وہی ہے کہ یہاں صرف باتیں ہوں گی اور عمل کوئی نہیں۔ اس لیے اس پالیسی پر بھی عمل کا امکان کم تر نظر آتا ہے۔ اگرچہ اس معاملے میں ریاست اور حکومت کو کوئی رعایت نہیں کرنی چاہیے۔ یہ کوئی طریقہ نہیں کہ آدھے دن کو دکانیں کھلیں اور نیم شب تک بازاروں میں ریل پیل رہے۔ ویسے بھی دن معاش اور رات آرام کے لیے ہے، تو کاروبار دن کے آغاز سے اس کے اختتام تک ہی بہتر ہے…… مگر جیسا کہ کہا گیا کہ کتابی اور حقیقی باتوں میں بہت فرق ہوتا ہے۔ کتابوں میں ہم پاکستانیوں جیسی کوئی قوم دنیا میں موجود نہیں۔ یہ اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی قوت ہے۔ ہوگی، مگر بھیک مانگنے میں بھی شاید پوری اسلامی دنیا میں کوئی ہم جیسا نہ ہو۔
یوں حقیقی طور پر ہم بھیک منگے اور مطالعۂ پاکستان میں دنیا کی عظیم قوم ہیں۔ کیا ایسی چلتی ہیں ریاستیں؟ کیا اس حالت میں قومی عزت، وحدت اور نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت ممکن ہے؟ ’’کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا!
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔