طویل عرصے سے جاری سنگین سیاسی کشمکش، حصولِ اقتدار کی جنگ میں سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کے ایک دوسرے پر الزامات…… اور ملکی اداروں کے درمیان تناو کی صورتِ حال نے معاشرے کا سکون تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ بے روزگاری کا شکار اور مہنگائی کے مارے عوام پاکستان کو سمجھ نہیں آرہی کہ آخر انھیں کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے۔ چپقلش کی اس صورتِ حال میں ملکی ترقی شدید مثاتر ہوئی ہے۔ غربت و مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔ بیرونی قرضوں کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔ ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔
اس صورتِ حال میں سب سے زیادہ نقصان غریب پاکستانی کا ہوا ہے، جو بھرپور محنت و مشقت کے باوجود خوش حالی کی بجائے مہنگائی کا شکار ہورہا ہے۔
اس صورتِ حال کے باعث معاشرے میں بے سکونی اور بے چینی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ جب حکم ران بار بار ’’مَیں، مَیں‘‘ کرنے لگیں، تو یہ ان کی گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ کا اعلان ہوتا ہے۔ عمران خان ہر دو تین روز کے بعد ایسا شوشا چھوڑتے ہیں جس سے ان کے بارے میں یہ تاثر قایم ہوچکا ہے کہ وہ غیر ذمے دارانہ بیان بازی کے ماہر ہیں۔
ہمارے معاشرے میں موجود بے سکونی اور بے چینی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستانی معاشرہ غیرمنطقی طور پر بہت زیادہ سیاست زدہ بن چکا ہے۔ سکون کے متلاشی ہمارے معصوم لوگوں کو کوئی جمہوریت میں سکون کے سبز باغ دکھاتا ہے، تو یہ اس کے پیچھے چلنے لگتے ہیں۔ جب جمہوریت میں سکون نہیں ملتا، تو آمر ان کو اپنے پیچھے لگا لیتے ہیں…… اور جب کوئی نظر نہیں آتا، تو یہ انقلاب کا نعرہ لگانے والے ہر ایرے غیرے کے پیچھے بھاگنے لگتے ہیں۔ دنیا کا کوئی معاشرہ ہمیں اپنے ملک کی طرح سیاست زدہ نظر نہیں آتا۔
جب ہمارے ملک میں انتخابات ہوتے ہیں، تو عوام اپنے نمایندوں کو پانچ سال کے لیے منتخب کرکے اسمبلی میں بھیج دیتے ہیں۔ اس کے بعد یہ منتخب نمایندوں کا کام ہوتا ہے کہ اسمبلی میں عوام کی نمایند گی کریں اور اپنے سیاسی اور ملکی مسایل کو اسمبلی میں زیرِ بحث لاکر انھیں حل کریں۔ تمام سیاسی جماعتوں کے نمایندے اسمبلی میں موجود ہوتے ہیں، اس کے باوجود یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ کسی بھی چھوٹے یا بڑے سیاسی یا ملکی مسئلے پر عام لوگوں کا سیاست پر بحث مباحثے کرنااور ضرورت سے زیادہ دلچسپی لینا کیا معنی رکھتا ہے؟
ہمارے ملک میں ایک عام شہری بھی ملکی سیاست پر بڑی بڑی باتیں کرتا نظر آتا ہے۔ گھر ہو یا دفتر، تعلیمی ادارے ہوں یا کاروباری ادارے، بازار ہوں یا تفریح گاہ…… الغرض کہ ہر جگہ ملکی سیاست زیرِ بحث رہتی ہے۔ جن لوگوں کو سیاست کا مفہوم تک نہیں معلوم، وہ اپنا کام چھوڑ کر سیاسی مباحث میں الجھے نظر آتے ہیں۔
سنگین سیاسی مسایل کا حل عوام کے پاس کب ہے؟ سیاسی جماعتوں کے آئے دن دھرنوں اور جلسے اور جلوسوں نے سارے معاشرے کو سیاست زدہ بنا کر رکھ دیا ہے…… جب کہ دوسری جانب اراکینِ اسمبلی و حزبِ اختلاف ملک و قوم کی تعمیر و ترقی اور عوامی مسایل کے حل میں مثبت تجاویز پیش کرنے کی بجائے ذاتی اور پارٹی مسایل پر زیادہ توجہ دیتے نظر آتے ہیں۔ ان حالات میں جب بظاہر ملکی صورتِ حال تصادم اور انارکی کی طرف جاتی محسوس ہوتی ہے، مگر جمہوری رویے اور سیاسی بصیرت بروئے کار لاکر اس کیفیت میں بھی بہتری اور استحکام کے راستے نکالے جاسکتے ہیں۔
حکومت کی جانب سے موجودہ صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے عوامی مسایل حل کرنا بہت ضروری ہے، جو حکم ران دور اندیش اور عوامی مزاج کو سمجھتے ہیں، وہ سب سے پہلے عوام کو درپیش مسایل حل کرنے پر توجہ دیتے ہیں۔
خاص طور پر ان کے لیے ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کو آسان بناتے ہیں۔ وہ کسی صورت بھی اشیائے خور و نوش کی قلت اور گرانی کو برداشت نہیں کرتے اور طلب و رسد کا ایسا مضبوط نظام قایم کرتے ہیں کہ عوام کو کوئی دشواری نہ ہو۔ بس یہی چیز حکومت کا پلہ بھاری کردیتی ہے اور اپوزیشن کی طرف سے حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی ساری کوششیں ناکام ہوجاتی ہیں۔
عوام پاکستان بیرونی قرضوں سے نجات اور مہنگائی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ایک طویل عرصے سے امیر افراد ، امیر تر اور غریب، بے چارے غریب سے غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس صورتِ حال نے نہ صرف معاشرے میں بے چینی اور مایوسی کو جنم دیا ہے، بلکہ مختلف جرایم کو پیشے کی شکل بھی دے دی ہے اور لاقانونیت کے مظاہرے اکثردیکھنے میں آتے رہتے ہیں۔ اسی صورتِ حال نے معاشرے سے سکون اور چین کو ختم کردیا ہے…… جب کہ آج اس امر کی شدید ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ ملک کے نصابِ تعلیم میں ایسے موضوعات اور علمی مباحثوں کو شامل کیا جائے جس سے پاکستانی طالب علموں اور نوجوانوں میں حب الوطنی، ایثار اور پاکستانی قومیت کے جذبات میں زیادہ سے زیادہ نکھار پیدا کیا جاسکے اور انھیں بلند کردار پاکستانی بنایا جاسکے، تاکہ جب وہ عملی زندگی میں داخل ہوں، تو جرایم اور ملک دشمن سرگرمیوں سے محفوظ رہیں…… اور غیر ضروری سیاسی جماعتوں کے آلہ کار نہ بن سکیں۔
قارئین! موجودہ سنگین سیاسی حالات میں ضروری ہے کہ ملک میں سیاسی و معاشی استحکام آئے۔ جب بے چین انسانوں کو سیاسی و معاشی تحفظ ملنے لگے گا، تو ان کی سب سے بڑی بنیادی ضرورت پوری ہوجائے گی۔
یہ بھی واضح رہے کہ حقیقی جمہوریت اس وقت قایم ہوگی، جب کوئی جماعت مارچ کی دعوت دے کر انسانوں کا ہجوم اکٹھا نہیں کر پائے گی…… اور کسی جمہوری حکومت کو کسی ’’غیر جمہوری قدم‘‘ سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔
خدا کرے کہ مری ارضِ پاک پر اُترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔