تبصرہ: م الف عباس
مجھے ادیبوں کی زندگیوں اور ان کے تخلیقی عمل کو جاننے کا بہت شوق ہے۔ وہ کیوں، کیسے ، کس وقت، کس طرح لکھتے ہیں اور کیا چیز انھیں لکھنے کی تحریک دیتی ہے؟ ان تمام سوالوں کے جوابات جاننا میرے لیے بڑی دلچسپی کا باعث ہیں۔
اس خواہش کی تکمیل کی خاطر میں انٹرنیٹ پر ممتاز ادیبوں کے انٹرویوز ڈھونڈ کر پڑھتا رہتا ہوں اور اسی سلسلے کی کچھ انگریزی کتابیں پڑھ رکھی ہیں جن میں چند ایک تو انٹرویوز کی ہیں اور باقی یادداشتوں یا سوانحی خاکوں پر مبنی ہیں۔
’’فنِ فکشن نگاری‘‘ کے عنوان سے اُردو ادب کے مشہور سکالر، مترجم و افسانہ نگار جناب عمر میمن نے ’’دی پیرس ریویو‘‘ میں شایع ہونے والے ممتاز ادیبوں کے انٹرویوز کے اُردو تراجم کیے…… جنھیں مکتبۂ دانیال نے تین جلدوں میں شایع کیا۔
اس سلسلے کی تیسری کتاب میں دس مغربی اور غیر مغربی ادیبوں سے مکالموں کے تراجم موجود ہیں، اور گیارہویں ادیب کے طور پر عمر میمن نے جناب انتظار حسین کا ایک بہت دلچسپ اور تفصیلی مکالمہ شامل کیا ہے…… جو 1975ء کے ’’شب خون‘‘ کے شمارے میں ’’انتظار حسین اور عمر میمن کے درمیان ایک بات چیت‘‘ کے عنوان سے شایع ہوا تھا۔ اس انٹرویو میں انتظار صاحب نے مختلف ادبی اور معاشرتی موضوعات پر سیر حاصل گفت گو کی ہے۔
کتاب میں موجود عرب دنیا کے مشہور و معروف اور نوبیل انعام یافتہ ادیب ’’نجیب محفوظ‘‘ کا مکالمہ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
ان دو مکالموں کے بعد اس کتاب کا سب سے اہم حصہ سامر نقاش اور شمعون بلاص کے انٹرویوز ہیں۔ ان دونوں عرب یہودی ادیبوں کا تعلق عراق سے ہے…… اور یہ بچپن میں اسرائیل/ فلسطین ہجرت کرگئے تھے۔ چوں کہ یہ سفید فام یہودی نہیں ہیں، اس لیے ان کی ادبی سرگرمیوں اور ان کی زندگیوں کے بارے میں اسرائیل اور نہ مغرب ہی میں دلچسپی لی گئی۔
سامر نقاش اس حوالے سے بہت اہم ہے کہ وہ آخری یہودی ادیب ہے…… جو اَب تک عربی میں لکھ رہا ہے اور اپنے اُسلوبِ نگارش کے ذریعے مسلسل اور نہایت ثابت قدمی سے اسرائیلی حکمت عملیوں کے خلاف احتجاج کرتا رہتا ہے ۔
٭ نقاش کا بیان ہے :
’’مجھے بہت سی وجوہ کی بنا پر اپنے ساتھ تفریق کا سلوک کیے جانے کا احساس ہوتا ہے۔ اول تو یہی کہ عربی لکھنے والے یہودی کو پڑھا نہیں جاتا اور نہ اسے کسی ادارے کی اعانت حاصل ہوتی ہے۔ دوسرے مجھ جیسے ادیب کے بارے میں عمومی رویہ مثبت نہیں ہے۔‘‘
دیگر ادیبوں میں مغرب کے ممتاز اُدبا ’’میلان کنڈیرا‘‘، ’’ڈورس لیسنگ‘‘ اور ’’سوزن سونٹاگ‘‘ سرِفہرست ہیں…… جنھوں نے اپنی زندگی اور فنِ تخلیق سے متعلق بہت عمدہ باتیں کی ہیں جو کسی بھی لکھنے والے کے لیے معاون ثابت ہوسکتی ہیں۔
(کتاب ’’فن فکشن نگاری (جلد 3)‘‘، مترجم ’’محمد عمر میمن‘‘ سے مقتبس)
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔