گیم تھیوری کے بانی اور عظیم ریاضی دانوں کے آخری نمایندے ’’نیومن‘‘ کہتے ہیں: ’’اگر لوگ یہ نہیں مانتے کہ ریاضی آسان ہے، تو یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ انھیں اندازہ نہیں ہوتا کہ زندگی کتنی پیچیدہ ہے۔‘‘
نیومن جیسے عظیم اور ذہین ریاضی دان کے یہ الفاظ ہم اوسط درجے کی ذہنی سطح رکھنے والوں کے لیے مایوس کن ہیں۔
ناسا میں ایسٹروناٹ کی جاب کے لیے ہر سال ہزاروں درخواستیں موصول ہوتی ہیں، جن میں بمشکل چند افراد کا سلیکشن ہوتا ہے، جو یقینا ہر لحاظ سے (جسمانی و ذہنی) پرفیکشن کے قریب ہوتے ہیں۔ لیزا ناوک بھی ان خوش قسمت لوگوں میں سے ایک تھیں جو ’’ایسٹروناٹ‘‘ بنیں…… لیکن اپنے بوائے فرینڈ کی بے وفائی کو برداشت نہ کرتے ہوتے انھوں نے اپنے بوائے فرینڈ کی محبوبہ کو اِغوا کرنے کا پلین بنایا۔ عین اِغوا کے وقت لیزا کا ایموشنل بریک ڈاؤن ہوگیا…… اور انھیں حراست میں لے لیا گیا۔ یوں ان کا کیرئیر ان کی ایک غلطی کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے برباد ہوگیا۔ شاید نیومن بالکل درست بات کَہ گئے ہیں۔ اتنے اسمارٹ اور جینئس لوگ ایسی بے وقوفانہ غلطیاں کیوں کر کر سکتے ہیں؟
اس کی وجوہات کو گن کر بتانا تو ممکن نہیں، لیکن سرسری طور پر اس پر ایک تبصرہ کیا جاسکتا ہے۔
چند لفظوں میں کہا جائے، تو ان ذہین اور اسمارٹ لوگوں کے غلط فیصلوں کی وجہ ایموشنل انٹیلی جنس نہ ہونا ہے۔ انسان صرف ’’لاجک‘‘ (Logic) اور ’’ریزن‘‘ (Reason) سے زندگی نہیں گزار سکتا۔ اپنے احساسات کو ’’پراسس‘‘ کرنا اور اپنے رویے اور ’’ری ایکشنز‘‘ پر غور کرنا اور انھیں سمجھنا ضروری ہے۔ صرف اپنے ہی نہیں بلکہ دوسروں کے رویوں اور ان کے ’’ری ایکشن‘‘ کا جایزہ لینا بھی بہت اہم ہے۔ لوگ اپنے رویوں، ایکشن اور ری ایکشنز سے ہمیں ان کی سوچ اور شخصیت کو سمجھنے کا موقع دیتے ہیں۔ اگر ہم ’’اٹینشن‘‘ دیں، تو بہت سی بری صحبت اور تجربوں سے بچ سکتے ہیں۔ ایموشنل انٹیلی جنس نہ ہونا آپ کو بہت گھمبیر نقصان پہنچا سکتا ہے۔
ابھی پچھلے دنوں کی بات ہے، ایک سفیر کی بیٹی (نور مقدم)کا اس کے دوست نے بے دردی سے قتل کیا۔ دونوں ہی پڑھے لکھے اور اچھے گھرانوں سے تھے۔ موجودہ تصویروں اور خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ قاتل اور مقتولہ کا تعلق روشن خیال ایلیٹ گھرانوں سے ہے، تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر بے دردی سے اپنی دوست کا قتل کیوں کیا اس شخص نے……؟ جو آدمی اتنے جارحانہ انداز میں کسی انسان کو قتل کرسکتا ہے، وہ نارمل ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کی بزدلی اور جھوٹی انا اس کے روزمرہ کے معاملات میں یقینا ظاہر ہوتی ہوگی۔ نور نے وہ ’’کلیوز‘‘ کیوں کر نظر انداز کیے ہوں گے، نور نے کیوں اُس دوست کے ساتھ باؤنڈریز نہیں بنائیں؟ اس بات کا جواب موجود نہیں۔ اس آدمی کو سزا مل بھی جائے، تو بھی نور واپس زندہ نہیں ہوسکتی اور نہ اس آدمی کو سزا ملنے سے معاشرے میں ایسے بے درد لوگوں کا خاتمہ ہوسکے گا (اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ اس شخص کو قانونی طور پر سزا نہ ہو) لیکن میری خواتین سے گزارش ہے کہ کچھ ذمے داری کا مظاہرہ خود بھی کریں اور ایسے دوست ہرگز نہ بنائیں۔ اس لیے کہ وہ ہینڈسم، امیر، چارمنگ اور اعلا عہدے پر ہے، لیکن آپ کو برے طریقے سے ٹریٹ کرتا ہے، وہ دوست/ بوائے فرینڈ/ شوہر آپ کی عزت نہیں کرتا، لیکن چوں کہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ دونوں ساتھ میں کول لگتے ہیں، اور آپ نے کبھی اپنے اور دوسری پارٹی کی ویلیوز اور رویوں پر غور نہیں کیا، اس لیے آپ خود سے کہتے ہیں کہ سب ٹھیک ہے، مرد تو ایسے ہی ہوتے ہیں…… لیکن سب ٹھیک نہیں ہوتا۔ کبھی کبھار ہم اپنی زندگی میں موجود مردوں کا ابیوز اس لیے بھی برداشت کرتے ہیں کہ ان کے بغیر زندگی مشکل اور تکلیف دِہ ہے۔ صرف معاشرے کا خوف نہیں، اکثر مہنگی گاڑی، جیولری، پیسے، اسٹیٹس بھی ہمیں ابیوز برداشت کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ کیوں کہ فیمنزم کا راستہ بہت کٹھن ہے ، اس میں ذمے داری ہے، تکلیف ہے اور درد ہے۔ اگر اعلا ویلیوز حاصل کرنی ہیں، تو اعلا قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ اگر آپ کی ویلیوز محض لپ سٹک لائنر، اسٹیٹس اور دیگرمہنگی اشیا ہیں، تو آپ کو ان اشیا کی مانند ہی ٹریٹ کیا جائے گا۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔