پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتیں کوہِ قاف کی پہاڑی پر چڑھ چکی ہیں اور عام آدمی کے پاؤں حیرت سے زمین میں گڑھ چکے ہیں۔ مہنگائی اور قیمتوں میں بے پناہ اضافے کے باوجود حکومت ’’اشرافیہ‘‘ کو مفت بجلی اور پٹرول مہیا کر رہی ہے۔
عجب منطق ہے۔ غریب کا نعرہ لگا کر ایوانوں تک پہنچنے والے غریب کے خون پسینے کی کمائی پراشرافیہ کو نوازتے ہیں۔ سہولیات کے حق دار عوام ہیں، نہ کہ ایک مخصوص طبقہ…… جو عام آدمی کی کمائی سے تنخواہ لیتا ہے، مراعات لیتا ہے، مفت علاج کرواتا ہے، مفت بیرونِ ملک کے دورے کر تا ہے، مفت تعلیم حاصل کر تا ہے، مفت گیس، بجلی، پانی، پٹرول، گاڑیاں، فون، رہایش، مہمان الاؤنس، مہنگائی الاؤنس، سفری الاؤنس اور اس طرح کی بے شمار مراعات سے لطف اندوز ہوتا ہے…… اور یہ سب اخراجات غریب آدمی کے ٹیکسوں سے ادا کیے جاتے ہیں۔
ہم نے ایسا ’’یزیدی نظام‘‘ ترتیب دے رکھا ہے…… جس میں غریب کی کمائی پر اشرافیہ کو پالا جاتا ہے۔ستم بالائے ستم یہ کہ غریب آدمی اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر، اپنے بچوں کو اَن پڑھ رکھ کر، اپنے خاندان کا علاج روک کر، اپنی بیٹیوں کا جہیز بیچ کر، روکھی سوکھی کھا کر بھی ذکر شدہ طبقے کی سہولیات اور مراعات کے لیے ٹیکس ہر صورت دیتا ہے۔ یہ طبقہ اس غریب کے مسایل حل کرنے کی بجائے اس پر آقا بن کر مسلط ہو جاتا ہے۔ سہولیات اور مراعات تو اُس شہری کو ملنی چاہئیں…… جو انہیں حاصل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا…… مگر یہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے۔
ایک مزدور جس کی دیہاڑی لگے یا نہ لگے…… وہ کوئی بھی چیز خریدتا ہے، تو ٹیکس ادا کر تا ہے۔ صبح جب گھر سے نکلتا ہے، تو 400کا ایندھن (پٹرول) خرچ کرکے جب دیہاڑی کے بغیر شام کو واپس پلٹتا ہے، تو اس کے پاس واپس جانے کے ایندھن کے پیسے نہیں ہوتے۔ عام آدمی یا چھوٹا سرکاری یا پرائیویٹ ملازم اب مزدور بن کر رہ گیا ہے۔ جس مزدور کو دیہاڑی ہی 600 روپے ملتی ہے، وہ گھی لے گا تو آٹا نہیں خرید سکے گا، آٹا لے گا، تو گھی نہیں خرید پائے گا۔
دوسری جانب ان غریبوں کے خون پسینے کی کمائی پر پلنے والے ’’پسو‘‘ مفت میں بجلی، پٹرول، گیس، پانی، علاج اور تعلیم جیسی کئی مراعات سے مستفید ہو رہے ہیں۔
ایک عام شہری کی حیثیت سے میرا یہ سوال ہے کیا مہنگائی صرف عام آدمی اور غریب طبقے کے لیے ہے…… اشرافیہ کے لیے کیوں نہیں ہے؟ اگر ایک مزدور صبح210 روپے کا ایک لیٹر پٹرول ڈلوا کر دیہاڑی لگانے نکلتا ہے، تو یہ جج، یہ بیوروکریٹ، یہ جنرل، یہ سیکریٹری، آئی جی، ڈی آئی جی، وزیر، مشیر، ایم این ایز، ایم پی ایز، وزیرِ اعظم اور صدرکس بات کا مفت پٹرول اور بجلی استعمال کر رہے ہیں؟ کیا یہ مزدور سے زیاد ہ پس ماندہ اور بدحال ہیں، کیا یہ یتیم مسکین ہیں، کیا یہ بے بس و بے آسرا ہیں، کیا یہ اپاہج و محتاج ہیں جو غریب ایک لیٹر پٹرول 210کا لے اور یہ ماہانہ سیکڑوں لیٹر پٹرول مفت میں استعمال کریں اور اس کی قیمت بھی عام آدمی ادا کرے۔
کیا یہ انصاف ہے کہ غریب آدمی پنکھا چلانے سے بھی قاصر ہو چکا ہے…… اور اشرافیہ اے سی سے یخ بستہ کمروں میں کمبل اُوڑھ کر خوابِ خرگوش کے مزے لیں اور ان کے بجلی بلوں کے پیسے بھی عام آدمی ادا کرے۔
ایک جانب غریب آدمی اپنے بچوں کو سکول چھڑوا کر محنت مزدوری پر مجبور کر رہا ہے، بیٹوں کو موٹرسائیکل میکینک کی منتیں کرکے دکان پر کام پر لگوا رہا ہے، گلی کی درزن کی منتیں کرکے بیٹی کو سلائی پر لگا رہا ہے…… جب کہ دوسری جانب اشرافیہ کی اولاد اسی عام آدمی کی دن رات کی کمائی سے مہنگے ترین سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نہ صرف مفت تعلیم حاصل کر رہی ہے…… بلکہ یہ نظام عام آدمی کی آنے والی نسلوں کے لیے نئے آقا بھی تیار کر رہا ہے۔
غریب آدمی کے پاس علاج کروانے کے پیسے نہیں، خود اور اس کا خاندان بیماریوں سے بلک بلک کر جان دے دیتا ہے، مگر یہ غریب آدمی اس حال میں بھی اس یزیدی اشرافیہ کی سہولیات اور مراعات کے لیے ٹیکس ادا کر تا ہے۔ غریب کی کمائی پر امیر کا علاج، غریب کی کمائی پر امیر کی پڑھائی، غریب کی کمائی پر امیر کے سیر سپاٹے، غریب کی کمائی پر امیر کے مفت دورے، غریب کی کمائی پر امیر کی عیش و عشرت کی زندگی۔ یہ ظلم کا نظام ہے اور اس ظلم کا بدلہ اس دنیا میں بھی ملے گا اور آخرت میں بھی۔
غریب سائیکل پر جاتا ہے، مگر اس غریب کے پیسوں سے اشرافیہ کو شیفرڈ کار لے کر دی جاتی ہے…… غریب پنکھا چلانے کی بجائے چھت پر کھلی آسمان تلے سوتا ہے، مگر اسی غریب کی کمائی سے اشرافیہ اے سی سے یخ بستہ کمروں میں کمبل اوڑھ کر سوتی ہے، غریب گیس کی بجائے گوبر، لکڑی یا کوئی متبادل سستا ذریعہ استعمال کرتا ہے، تو امیر کو غریب کے پیسوں سے مفت گیس فراہم کی جاتی ہے۔
غریب بیماری سے مر جاتا ہے، مگر اسی غریب کی کمائی سے اشرافیہ کا بیرونِ ملک مفت علاج کر وایا جاتا ہے۔ غریب سال بعد اپنے رشتہ داروں سے ملنے کے لیے جانے کا کرایہ بھی جمع نہیں کر پاتا…… مگر اشرافیہ اسی غریب کی کمائی سے بیرونِ ملک دورے، عمرے اور حج کر تی ہے۔
غریب اپنے بچوں کو قریبی پارک تک لے کر جانے کی سکت نہیں رکھتا…… جب کہ اشرافیہ اسی غریب کے پیسوں سے مری، سوات، کالام، ناراں، کاغاں، گلگت بلتستان اور ملک اور بیرونِ ممالک کے کونے کونے میں گھومتا ہے۔
غریب اپنے بچوں کی سرکاری سکول کی فیس بھی ادا نہیں کرسکتا، مگر اسی غریب کی کمائی سے امیر اشرافیہ کے بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ اس یزیدی، فرعونی، قارونی اور نمرودی نظام نے غریب کو اتنا پیس کررکھ دیا ہے کہ اب اس کے اندر امید تک ختم ہوچکی ہے۔ یوں لگتا ہے غریب اس بات کو کلے کے ساتھ بندھے ہاتھی کی طرح ذہن نشین کرچکا ہے کہ یہ چھوٹا ساطبقہ جسے ہم اشرافیہ کہتے ہیں، ان کے چنگل سے نکلنا محال ہے…… جیسے ہاتھی یہ بات ذہن نشین کر چکا ہے کہ یہ چھوٹا سا لکڑی کا کلا اس سے کئی گنا مضبوط ہے اور وہ اسے اُکھاڑ نہیں سکتا۔
ظلم کی زنجیریں چاہے کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہوں…… آزادی، حق، سچ اور اپنے حقوق کی جد و جہد کے آگے کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ جج انصاف دینے میں تو مکمل ناکام ہوچکے ہیں…… مگر غریب کی خون پسینے کی کمائی سے مفت پٹرول، بجلی، تعلیم، علاج، گیس پانی اور دیگر مراعات لینے میں کامیاب ترین ہیں۔
ہمارے ایم این ایز اور ایم پی ایز، وزرا اور مشیر جو غریب کے نام پرغریب آدمی کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ایوانوں تک پہنچے ہیں…… وہ اپنے اپنے خاندان اور رشتہ داروں کے لیے مفت پٹرول، بجلی، گیس، پانی، تعلیم، علاج و دیگر مراعات لے رہے ہیں…… جب کہ غریب آدمی کے لیے جینا محال کر دیا گیا ہے۔
ہماری سول سروس کے افسران غریب کے ٹیکسوں سے مراعات سے تو لطف اندوز ہو رہے ہیں، مگر غریب آدمی کی خدمت کرنے کی بجائے ان کے لیے سب سے بڑی زحمت بن چکے ہیں۔ عجب تماشا ہے، جس کی کمائی سے تنخواہ لیتے ہیں اس کا احسان مند اور شکر گزار ہونے کی بجائے اس کے آقا بن بیٹھے ہیں۔ اگر عام آدمی پٹرول، بجلی، گیس، پانی، تعلیم، علاج، سفر، مواصلات، رہایش اور دیگر ضروریاتِ زندگی کے لیے پیسے ادا کر تا ہے، تو یہ جج، یہ آرمی افسران، یہ سول سرونٹ، یہ بیورو کریٹس، یہ پولیس افسران، یہ ایم این ایز، ایم پی ایز، وزرا، مشیران اور دیگر اشرافیہ کیوں مفت میں پٹرول، بجلی، گیس، پانی، تعلیم، علاج، سفر، موبائل فون، مہنگائی الاونس، سفری الاونس، گاڑیاں، رہایش اور دیگر مراعات مفت میں لے رہے ہی؟
کیا ہم نے پارلیمنٹ اس لیے بنائی ہے کہ وہ غریب کے خون پسینے کی کمائی پر اشرافیہ کو نوازنے کے قوانین بنائے؟ کیا ہم نے عدلیہ اس لیے بنائی ہے کہ وہ غریب کو انصاف دینے کی بجائے اشرافیہ کو تحفظ فراہم کرے اور انصاف کی بجائے غریب آدمی کی کمائی پر ناانصاف بلکہ ظلم کرتے ہوئے مفت مراعات لے؟ جب غریب آدمی پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں کے پہاڑ تلے دب گیا ہے، تو اس وقت ’’سوموٹو‘‘ لینے کی بجائے امرا، وزرا، اشرافیہ اور دیگر طاقت ور حلقوں کے ساتھ مل کر غریب کو مہنگائی کی اس چکی میں پیسنے میں معاون و مددگار بن جائے۔
اگر اس ملک میں مہنگائی کم کرنی ہے، تو اشرافیہ کو دی جانے والی مراعات بند کی جائیں…… وہ بھی بجلی کا بل دے…… وہ بھی پٹرول خریدے…… وہ بھی گیس کا بل دے…… وہ بھی سکول کی فیسیں دے…… وہ بھی علاج کے پیسے دے…… وہ بھی فون کالز کے پیسے دے…… نہ کہ 22 کروڑ عوام کواشرافیہ کی بھینٹ چڑھایا جائے۔
……………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔