فاطمہ بنت عبداللہ ایک عرب لڑکی تھی، جو طرابلس کی جنگ میں غازیوں کو پانی پلاتے پلاتے شہید ہوئی تھی۔ فاطمہ کی اس قربانی، ایثار اور ہمت نے شاعرِ مشرق علامہ اقبال کو بے حد متاثر کیا۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ نے فاطمہ بنت عبداللہ کے نام ایک نظم لکھی ہے، جو اقبال کے شہرہ آفاق مجموعے ’’بانگِ درا‘‘ میں شامل ہے۔ فاطمہ کے نام علامہ کی اس خوبصورت نظم کا ایک شعر جو آج کے کالم کا عنوان بھی ہے، کچھ یوں ہے:
یہ کلی بھی اس گلستانِ خزاں منظر میں تھی
ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی
فاطمہ کے نام علامہ کی یہ نظم اور اس نظم کا یہ مشہور شعر اس لیے یاد آیا اور کالم کا عنوان بنا کہ چند دن قبل سندھ کے علاقے کشمور میں چند بدمعاشوں نے ایک ماں اور بچی کو اغوا کرکے نہ صرف تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ ان کی عزت بھی لوٹی۔ تشدد زدہ عورت کسی طریقے سے مقامی تھانے پہنچ کر پولیس والوں کی منت کرنے لگی کہ میری بچی کو بچاؤ! جو ابھی تک درندوں کے قبضے میں تھی۔ تھانے کے اکثر پولیس اہلکار روایتی غفلت کے مرتکب اور بے فکر رہے، لیکن وہاں خدائی مدد انسانی شکل میں موجود تھی۔ جی ہاں، یہ تھے سب انسپکٹر محمد بخش! جن سے ایک فریادی ماں کے آنسو برداشت نہ ہوسکے اور سیدھا گھر جاکر ملزموں کو پکڑنے کے لیے اپنی جواں سال بیٹی کو داؤ پر لگانے کا فیصلہ کرلیا۔ ملزموں کو جھانسا دینے کے لیے بہادر باپ کی بہادر بیٹی بھی کچھ سوچے سمجھے بغیر تیار ہوگئی۔ اگرچہ اس معاملے میں جان اور عصمت دونوں جانے کا خطرہ تھا، لیکن جو دوسروں کی جان و آبرو کی حفاظت کے لیے نکلتے ہیں، ان کی جان اور آبرو کا محافظ پھر اللہ ہی ہوتا ہے۔ اور ایسا ہی ہوا۔ یوں محمد بخش کی بیٹی نے ملزموں کو جال میں پھنسا لیا۔ نتیجتاً ملزم گرفتار ہوگئے اور فریادی ماں کو ننھی بچی کا تشدد زدہ وجود مل گیا۔ بچی اب تک زیرِ علاج ہے۔
سب انسپکٹر محمد بخش کی اس بے باکانہ اور بروقت کارروائی نے اس کو اور اس کی بیٹی اور بیوی کو ملک بھر میں شہرت دی۔ سندھ حکومت اور وزیرِاعظم نے محمد بخش اور اس کی بیٹی کی بہادری کو سراہا۔ ملک کے طول و عرض سے لوگوں نے محمد بخش کو سلام پیش کیا اور اسی ایک چنگاری نے پورے ملک باالخصوص سندھ پولیس کی روایتی سستی اور غفلت کو گویا بھسم کرکے رکھ دیا۔
قارئین، محمد بخش اور اس کی بیٹی وہ ہستیاں ہیں جو مایوسی میں لپٹے اس ماحول کو امید اور خوشحالی کا گلستان بنا چکے ہیں۔ پاکستان میں ایسی چنگاریوں کی کمی نہیں۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرے کی اکثریت ان چنگاریوں کے ساتھ مل کر بدحالی کی اس ٹھٹھرتی سردی میں خوشحالی کا الاؤ روشن کرنے میں مدد دیں۔
ذکر شدہ چنگاریوں میں سے ایک قاضی منان ہیں، جو غربت کے مارے کراچی سے امریکہ مزدوری کے لیے گئے ہوئے تھے۔ وہاں محنت کی اور اب واشنگٹن میں ایک ریسٹورنٹ چلا رہے ہیں۔جہاں روزانہ سیکڑوں محتاجوں کو مفت کھانا مل رہا ہے۔ ان محتاجوں کو مکمل عزت و احترام کے ساتھ وہ سب کچھ کھانے کو دیا جا رہا ہے، جو وہ کھانا چاہیں۔ کھانے کے بعد اگر کوئی ’’بل‘‘ جمع کرانا چاہے، تو بہت خوب، لیکن اگر کوئی تنگ دست ہے، تو اس سے کسی قسم کا کوئی تقاضا نہیں کیا جاتا۔ دعوتِ عام یا لنگر خانے کی اس جدید شکل نے قاضی منان کو پوری دنیا میں مشہور کردیا ہے اور یہ دریا دلی اور شہرت دراصل اس پاکستان کی شہرت ہے جس کو باقی دنیا میں لوگ ایک ناکام اور خوفناک ریاست کے طور پر جانتے ہیں۔ قاضی منان کو ان خدمات کی وجہ سے پانچ اعزازات بھی مل چکے ہیں۔ اب جب کورونا کے باعث ان کا کاروبار ٹھپ ہونے لگا، تو یہ خدشہ بڑھ گیا کہ مفت کھانے کا یہ سلسلہ بھی شائد مزید نہ چل سکے۔ تب انہوں نے اپنے چاہنے والوں سے تقریباً ایک لاکھ ڈالر تعاون کا تقاضا کیا، تو دستیاب معلومات کے مطابق لوگوں نے جلد ہی دو لاکھ ڈالر سے زیادہ عطیات دیے اور یوں دنیا کی ’’سپر پاؤر‘‘ کے مرکز میں غریبوں کو مفت کھانا دینے کا یہ سلسلہ مذکورہ پاکستانی قاضی منان کی وجہ سے چل رہا ہے۔
سندھ پولیس کے محمد بخش ہوں یا ان کی بیٹی اور بیوی جنہوں نے دوسروں کی خاطر خود کو خطرے میں ڈالا، یا پھر قاضی منان ہوں جو محتاجوں کو وہی کھلاتے ہیں جو وہ خود کھاتے ہیں، اور وہ بھی بلامعاوضہ۔ ایسے اور بھی بہت سارے لوگ وہ ’’چنگاریاں‘‘ ہیں جن سے یقیناً امن، بھائی چارے اور انسان دوستی کی روشنی پھیل سکتی ہے۔ ہمیں بس ان چنگاریوں کو زندہ رکھنے کے لیے ان کا ساتھ دینا چاہیے، انہیں شاباش دینی چاہیے۔
میری طرف سے شاباش قبول ہو!
…………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔