وزیرِ اعظم پاکستان شہباز شریف ان دنوں ترکی کے دورے پر ہیں۔ وزیرِ اعظم پاکستان کا حالیہ دورہ برادر اسلامی ملک ترکی سے دو طرفہ تعلقات کی تجدید کے سلسلے کی کڑی ہے جس سے دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تعلقات اور دوطرفہ روابط میں نئے دور کا آغاز ہوگا۔
پاکستان اور برادر دوست ملک ترکی کے مابین تعلقات عرصۂ دراز سے استوار ہیں۔ دونوں ممالک مشترکہ معاشرتی، ثقافتی اور مذہبی اقدار کے حامل ہیں۔ دونوں ممالک کے عوام مشکل وقت میں ہمیشہ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے رہے ہیں۔ ترکی اقتصادی اور معاشی لحا ظ سے ایک مستحکم ملک ہے…… جب کہ دوسری جانب پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے۔ اگلی دہائی میں دونوں ممالک مل کر ہر شعبے میں کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔
پاکستان اور ترکی کی لازوال دوستی و محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ترکی کے تعلیمی اداروں میں پاکستان کی سرکاری زبان اُردو کی تعلیم کا سلسلہ ایک عرصے سے بلاتعطل جاری و ساری ہے…… جس کی وجہ سے ترک عوام اُردو باآسانی سمجھ اور پڑھ سکتے ہیں۔ اس طرح ترک عوام و قیادت کی پاکستان کے اکا برین سے محبت کے اظہار کی ایک اور مثال ترکی کے شہر پونیا کا ایک پارک ہے جس کا نام ’’علامہ اقبال پارک‘‘ رکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ترکی کی ایک مشہور مسجد بھی شاعرِ مشرق علامہ اقبال کے نام سے منصوب کی گئی ہے جو کہ ’’اقبال مسجد‘‘ کہلاتی ہے۔ ترکی میں علامہ اقبال کی عقیدت اور پاکستان سے محبت کے اظہار میں لاہور سے علامہ کے مزار کی مٹی لا کر پونیا میں مولانائے رومی کے مزار کے دائیں طرف احاطہ میں دفن کرکے علامہ اقبال کی علامتی قبر بھی بنائی گئی ہے۔مولانائے روم اور علامہ اقبال کے روحانی رشتے نے دونوں ملکوں کے درمیان ایک ایسا تعلق قایم کیا ہے جو ابدی حیثیت کا حامل ہے۔
اسی طرح پاکستان میں بھی بہت سے مقامات کا نام ترک معاشرے سے دوستی کی علامت ہے۔ اسلام آبا د میں موجود ’’اتا ترک ایونیو‘‘ لاہور گارڈن ٹاؤن میں ’’ اتاترک بلاک‘‘ مال روڈ پر جناح ہال کے سامنے ’’استنبول چوک ‘‘ اس مثالی دوستی کا مظہر ہیں۔ جنوبی پنجاب کے علاقے مظفر گڑھ میں واقع رجب طیب اردگان ہسپتال کو بھی پاک ترک دوستی کی بہترین مثال سمجھا جاتا ہے۔
اگر پاک ترک عسکری تعاون پر نگاہ ڈالی جائے، تو اس میں بھی دونوں ملکوں کا تعاون بے مثال رہا ہے۔ سنہ 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں میں تر کی نے نہ صرف پاکستان کے موقف کی حمایت کی…… بلکہ اسلحہ اور ہتھیاروں سے بھی پاکستانی فوج کی مدد کی۔ 1974ء میں ترکی اور یونان میں جنگ چھڑ گئی، تو پاکستانی فوج ترک فوج کے ساتھ مل کر محاذ جنگ پر سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہوگئی۔ ترکی کے ایک صوبے چوران میں سانحۂ اے پی سی پشاور کے شہید بچوں کی یاد میں 144 درخت لگا کر ان شہید بچوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔ پاک ترک تعلقات کا بنظرِ عمیق جایز ہ لیا جائے، تو اس میں جہاں ترکی نے پاکستان کی مشکل وقتوں میں مدد کی…… وہاں اس کی ایک اور مثال یہ بھی ہے کہ 17 اگست 1999ء کو جب ترکی کو 7.5 کی شدت کے ایک قیامت خیز زلزلے نے نقصان پہنچایا، تو پاکستان وہ واحد ملک تھا جس کے وزیرِ اعظم میاں نواز شریف سب سے پہلے امدادی سامان لے کر ترکی پہنچے…… جب کہ اکتوبر 2005ء میں جب اسی شدت کے زلزلے نے پاکستان میں تباہی برپا کی، تو ترکی ہی وہ واحد ملک تھا جس کے اُس وقت کے وزیرِ اعظم رجب طیب اردگان جو ترکی کے موجودہ صدر بھی ہیں…… امدادی سامان لے کر پاکستان کی مدد کو پہنچے…… جب کہ 2010ء کے سیلاب کی مشکل گھڑی میں بھی ترکی نے پاکستان کی بڑے پیمانے پر مدد کی کی تھی۔
پاک ترک لازوال دوستی کی وجہ سے جہاں دونوں ملکوں نے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے کی مدد کی…… وہاں علاقائی امن و سلامتی کے قیام میں بھی ترکی پاکستان سے کسی صورت پیچھے نہیں رہا۔ یہی وجہ تھی کہ ترکی نے افغانستان میں بیرونی مداخلت پر شدید ردِ عمل ظاہر کیا…… بلکہ افغان بحران کو حل کرنے میں پیش پیش بھی رہا۔ خصوصاً اُس وقت جب افغانستان سے امریکی انخلا کے نتیجے میں اسے سخت مشکلات کا سامنا تھا۔ اس سلسلے میں کابل ائرپورٹ کا چارج سنبھالنے کی ترکی کی خواہش قابلِ ذکر ہے…… جس کا مقصد افغانستان کو ممکنہ بیرونی مصایب و مشکلات سے بچانا تھا، تو دوسرا وہاں کی سیکورٹی کی ذمے داریاں اد ا کرنا بھی مقصود تھا۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف کے دورۂ ترکی کے موقع پر ہمیں اس بات پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح ہم اس برادر دوست ملک سے مضبوط بنیاد پر مثالی تجارتی روابط اور بہترین تعلقات کی ایک عالی شان عمارت تعمیر کرسکتے ہیں!
دونوں ممالک کے پاس ایک دوسرے سے باہمی تعاون اور تجربات سے فایدہ اٹھانے کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ دونوں ممالک کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تعاون کو وسیع کرنا چاہیے۔
……………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔