ایک کسان کچھ ’’موٹیویشنل وڈیوز‘‘ دیکھنے کے بعد سوچتا ہے کہ اب اُسے دوگنی محنت کرنے اور امیر بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
کسان کھیتوں میں جاتا ہے…… سوچتا ہے کہ وہ دوگنی محنت کرکے جلدی اور بہترین نتایج حاصل کرسکتا ہے۔ کھیتوں کو دوگنا پانی دے کر اور دوگنا پسینا بہا کر وہ جلدی امیر اور کامیاب کسان بن جائے گا…… لیکن افسوس کہ دوگنا پانی کھیتوں کو سر سبز کرنے کی بجائے خراب کردیتا ہے۔
جب بات کامیابی کی یا اپنے مقصد کو پورا کرنے کی آئے، تو ہمارا رویہ بھی اس کسان سے مختلف نہیں ہوتا۔ ہمیں بھی کہا جاتا ہے کہ دوگنی محنت کرو۔ کیوں کہ محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ ہم بھی موٹیویشنل وڈیوز دیکھ کر پُرجوش ہوجاتے ہیں…… لیکن کچھ ہی دنوں میں جب فطرت کے قوانین آڑے آتے ہیں اور حقیقت کے تھپڑ منھ پر لگتے ہیں، تو ساری موٹیویشن ہوا اور وقت ضایع ہوجاتا ہے۔
موٹیویشن بری نہیں ہوتی…… یہ کسی حد تک ضروری ہے…… لیکن اگر موٹیویشن کو حقایق کے ساتھ ملا کر عمل کروایا جائے، تو شاید بہتر نتایج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اگر آپ فطرت کے قوانین کو مدِ نظر نہیں رکھیں گے، تو چاہے ڈبل محنت کرلیں…… نتایج ہمیشہ آپ کی توقع کے مطابق نہیں ہوں گے۔ فطرت کا ہر کام کو کرنے کا اپنا الگ راستہ ہے۔ آپ اس رستے کو جوڑ توڑ (Manipulate) تو سکتے ہیں…… لیکن بدل نہیں سکتے۔
موٹیویشن کو حقایق اور فطرت کے ساتھ سیدھ میں لانے کا عمل ہمیں چائنیز فلسفہ ’’وو- وی‘‘ (Wu-Wei) کی جانب لے کر جاتا ہے۔ یہ فلسفہ پیراڈاکسیکل ہے۔ اس کے کئی لفظی معنی ہیں جن میں غیر کارروائی(Non Action)، بے عمل کارروائی (Actionless Action)، آسان کارروائی (Effortless Action)، اس کے علاوہ اور بھی کئی لفظی معنی شامل ہیں۔
آپ بھی سوچیں گے کہ بنا ایکشن کے کون سی کامیابی ملے گی؟ دراصل تبھی تو یہ فلسفہ متضاد ہے…… اور اس کی کئی پرتیں ہیں۔ ’’ٹاؤ ٹی چِنگ‘‘ (Tao Te Ching) کے لکھاری ’’لاؤ سو‘‘ (Lao Tzu) کہتے ہیں کہ فطرت اپنے قوانین کے حساب سے چلتی ہے۔ فطرت میں ہماری بے جا مداخلت اکثر ہمیں تکلیف دیتی ہے۔ البتہ فطرت/ دنیا کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ’’لاؤ سو‘‘ کا فلسفہ ہمیں ’’وو- وی‘‘ (Wu Wee) کی مختلف پرتوں کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے…… اور یہ بھی بتاتا ہے کہ کس طرح ہم ’’وو- وی‘‘ کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں عملی جامہ پہنا سکتے ہیں۔
’’وو-وی‘‘ کی عام تشریح (پہلی پرت):۔
’’وو-وی‘‘ کی عام تشریح یہی ہے کہ اپنے عمل کو فطرت کے قوانین کے ساتھ ملا کر زندگی گزارنا۔ ایکشن تب لینا جب ضروری ہو اور ایکشن لے کر فطرت کو اس کا کام کرنے دینا۔ جیسا کہ کسان اگر بیج بو کر پانی دے کر فطرت کو اس کا کام کرنے دیتا، بار بار پانی دے کر فطرت کے کام میں مداخلت نہ کرتا، تو اس کو آخر میں بس پھل کاٹنے کا انتظار کرنا پڑتا۔
اس کی ایک اور مثال اچھی عادت بنانے اور بری عادت ختم کرنے کی ہے۔ موٹیویشنل وڈیوز ہمیں جذبہ ضرور دیتی ہیں…… لیکن یہ نہیں بتاتیں کہ ان عادتوں کو بنانے کے لیے ’’انٹیلی یجنٹ اپروچ‘‘ کے ساتھ فطرت کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ نئی عادت بنانا مطلب دماغ میں نئے نیورون (Neuron) کو حرکت میں لاکر نئے راستے بنانا اور پرانی عادت ختم کرنا…… مطلب کہ نیورون کی حرکت کو روکنا۔ نئے راستے بننے اور پرانے راستے ختم ہونے میں وقت لگتا ہے۔ آپ چاہے کچھ بھی کرلیں فطرت نے اپنے مقررہ وقت پر ہی نئے نیورون کو حرکت دینی ہے۔ اسی لیے ہم اکثر ’’ڈی موٹیویٹ‘‘ ہوجاتے ہیں۔ کیوں کہ ہم سے صبر نہیں ہوتا۔ ہم سکون سے اپنا کردار پورا کرکے فطرت کو اس کا کام نہیں کرنے دیتے اور یہی وجہ کہ ہم مایوس ہوجاتے ہیں…… یا بعض اوقات خود پر مزید جبر کرکے نتایج حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں…… لیکن نتیجہ ہماری توقعات کے برعکس نکلتا ہے۔
کبھی کبھار جبر کرنا بھی ضروری ہوتا ہے…… لیکن کہاں فورس کرنا ہے اور کہاں نہیں…… اس کے لیے اس گیم کی معلومات ہونی چاہیے…… جسے کھیلنے کی آپ نے ٹھانی ہے۔ آپ کو ایکٹو (Active) اور پیسو (Passive) دونوں قوتوں کا استعمال آنا چاہیے۔ ہر جگہ بغاوت اور ہر جگہ خاموش رہنے کے لیے نہیں ہوتی۔
’’وو-وی‘‘کی دوسری پرت:۔
اب تھوڑا اور گہرائی میں جائیں، تو ’’وو- وی‘‘ کی آسان کارروائی (Effortless Action) والی تعریف بہت ہی دلچسپ اور غور طلب ہے۔ یوں تصور کریں کہ دریا میں کشتی اُسی سمت میں جا رہی ہے…… جس میں دریا کا بہاو ہے۔ آپ اگر بہاو کے خلاف جانے کی کوشش کریں گے، تو بہت انرجی لگے گی…… اور فرض کریں کہ دریا سے لڑنے کی ہمت آپ میں نہیں، تو ایسے موقعوں پر بہاو کے ساتھ بہنا بہتر فیصلہ رہتا ہے۔ آپ نہیں جانتے کہ منزل کیا ہے، نتیجہ کیا ہوگا، یوں سوچیں آپ نتایج سے بے فکر دریا کی سمت فالو کررہے ہیں۔ کہیں نہ کہیں ضرور پہنچیں گے۔ کافی تصوراتی تعریف ہے، اب اس پر عام زندگی کی مثال کو اپلائی کرکے دیکھتے ہیں۔
اگر آپ کو کسی سے ملنے جانا ہے، یا پھر آپ کی پریزنٹیشن ہے، تو سب سے پہلا خیال جو ذہن میں آئے گا…… وہ یہ ہوگا کہ جس سے ملنا ہے، وہ مجھے پسند کرے…… اور پریزنٹیشن ایسی ہو کہ تالیوں کی گونج ہو پورے ہال میں۔ یقینا پہلے سے تیاری کرنا غلط نہیں…… لیکن اس بات کو ذہن میں رکھنا کہ وہی ہو جو آپ نے سوچا ہے، تو اس سے آپ پر ایک پریشر آئے گا۔ اب آپ کا ایکشن نیچرل نہیں۔ اب آپ پسند کیے جانے کے لیے جبر کررہے ہیں اور اب ذرا سی چوک یا تالیوں میں کمی آپ پر زیادہ گراں گزرے گی۔ ہم سب انسان نیچرل اور اچانک سے پیش آنے والے اتفاق کو پسند کرتے ہیں۔ بناوٹ یا ضرورت سے زیادہ تیاری ہمیں زیادہ عرصہ متاثر کیے نہیں رہتی۔ ہم نیچر کا پراڈکٹ ہیں…… اور لاشعوری طور پر ہماری ترجیح بھی نیچرل رویے ہوتے ہیں۔
سوچیں کسی نے آئن اسٹائن یا بیتھوون سے پوچھا ہو کہ اتنی پیچیدہ سائنس یا اتنا بہترین میوزک کیسے بنا لیتے ہیں؟ ہمیں بھی کوئی طریقہ بتائیں۔ دونوں نے جواب میں کندھے اچکائے ہوں گے۔ یقینا ہمارے وہ دوست جو کسی مشکل کام کو یوں ہی کرلیتے ہیں اور ہمارے پوچھنے پر کہتے ہیں کہ ’’یار! پتا نہیں بس ہوجاتا ہے مجھ سے……!‘‘ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنے اس ٹیلنٹ یا اس خاص حرکت سے اٹیچ نہیں ہوتے، وہ اسے بہت نیچرلی اور بنا زیادہ سوچے اور طاقت لگائے کرلیتے ہیں اور ہم حیرانی میں مبتلا رہتے ہیں کہ ان کے پاس ایسی کون سی طاقت ہے جو ہمارے پاس نہیں……!
’’وو-وی‘‘ کی تیسری پرت:۔
اب مزید گہرائی میں جاکر دیکھتے ہیں، تو ہمارا سامنا خود شناسی (Ego) اور خالی پن (Emptiness) سے ہوتا ہے۔ ہماری شخصیت کا دارومدار ہمارے کلچر، نظریات جو ہمیں پڑھائے گئے، ماحول پر ہوتا ہے۔ ہم اسی خول میں رہ کر اپنے مخصوص نظریات اور تجربات کا چشمہ لگائے دنیا اور اپنے مسایل کا حل ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر محدود نظریات کو تھامے اگر شوہر اپنی بیوی سے گفتگو کررہا ہے، تو اس کی ’’ایگو‘‘ اسے معاملات کا حقیقی جایزہ لینے سے روکے گی۔ کیوں کہ جہاں بیوی نے کچھ ایسا کہا جو شوہر کے نظریات سے ہٹ کر ہے…… وہ مجرم قرار پائے گی۔ وہ لوگ جو اپنی دانشوری کی چار دیواری میں رہتے ہیں…… وہ معاملات کا دوسرا رُخ نہیں دیکھ پاتے۔ جتنی بڑی ’’ایگو‘‘ اتنا ہی اپنے نظریات پر اٹل رہتا ہے انسان۔ اسی لیے ’’لاؤسو‘‘ غیر منبت شدہ بلاک (Uncarved Block) بننے کی تلقین کرتے ہیں۔ ایک ایسا انسان جو اپنے دانشوری اور پختہ نظریات کے بوجھ تلے نہ دبا ہو، تاکہ ایک کلیئر ویژن کے ساتھ دنیا اور معاملات کا حقیقی جایزہ لے سکے۔
اکثرفلسفی ’’ٹاؤ ٹی چنگ‘‘ میں موجود لفظ ’’خلا‘‘ (Emptiness) کو کشادگی (Openness) سے تشبیہ دیتے ہیں…… یعنی قبول کرنے کی صلاحیت۔ یعنی ’’وو-وی‘‘ محض فطرت کے قوانین کو فالو کرنے کا نام نہیں…… بلکہ اس سے کئی بڑھ کر، یعنی اپنے نظریات اور خیالات کو بدلنے کی ہمت کا نام بھی ہے۔ (یقین مانیے اپنے نظریات اور خیالات کو چیلنج کرنا بہت ہمت کا کام ہے۔ )
مزید گہرائی میں جائیں، تو چائنیز فلسفی ’’شونگزی‘‘ ایک قصہ سناتے ہیں کہ کنفیوشس (Confucius) کے پاس ان کا ایک شاگرد آیا اور کہا کہ وہ موجودہ جابر حکم ران کے پاس جاکر اُسے بتانے والا ہے کہ کس طرح اس کی جابرانہ پالیسی سے لوگوں کو تکلیف ہے۔ اسے ریاست چلانے نہیں آتی۔ اس پر کنفیوشس نے جواب دیا کہ: تمہارے مقاصد انا پر مبنی ہیں…… تمہیں کیا لگتا ہے کہ وہ تمہاری سنے گا! ایک عام آدمی اپنے عام معاملات میں دوسروں کا بولنا پسند نہیں کرتا، تو ایک جابر حکم ران سے یہ امید رکھنا کہ وہ آپ سے سنے کہ اسے ریاست کس طرح چلانی چاہیے…… خواب ہے!
البتہ کنفیوشس نے اسے مشورہ دیا کہ وہ حکم ران کو سکھانے کی بجائے خود اس ریاست کے رسم و رواج، پالیسی اور حکم ران کے طریقۂ کار پر غوروفکر کرے…… اور اسے سمجھے اور جب موقع ہاتھ آئے (کیوں کہ حکم ران کی غلط پالیسی کا نتیجہ سامنے غلط ہی آنا ہے) تو وہ مشکل حالات میں بہتر حل نکالنے کے قابل ہوگا…… لیکن اس سے قبل اُسے اپنا سیکھا ہوا اور نظریات جسے وہ سب سے درست مانتا ہے، کو بالائے طاق رکھ کر جابر حکم ران اور اس کی ریاست کو سمجھنا ہوگا۔
یہ کام بہت ہمت کا ہے، کسی ’’سوپر ہیومن‘‘ (Super Human) کے بس کا ہے۔ عام آدمی کو تو خود اپنے آپ کے علاوہ کوئی صحیح نہیں لگتا…… اور جس نے غلطی سے چار کتابیں پڑھ لیں، پھر تو ناممکنات میں شامل ہے ایسی ہمت کا مظاہرہ کرنا…… لیکن جس نے ایسی ہمت کی وہ بنا انرجی ضایع کیے اپنے مسایل کا حل ڈھونڈتا ہے ۔
قارئین! ’’وو-وی‘‘ کا فلسفہ بہت گہرا ہے۔ مَیں نے اس مختصر سی نشست میں آسان الفاظ میں اپنی محدود سمجھ کے ساتھ لکھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے…… لیکن فلسفہ سمجھنے کے لیے اس کی بنیاد رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ کسی کے پاس زیادہ آسان الفاظ میں ’’وو-وی‘‘ کی مثالیں ہیں، تو وہ میرے ساتھ شیئر کرسکتا ہے، راقم)
………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔