صحافت کی کتابوں میں جب صحافی کی تعریف کی جاتی ہے، تو اس میں یہ کہتے ہیں کہ
"A journalist is a person who knows something about everything.”
یعنی صحافی کو ہر چیز کے متعلق کچھ نہ کچھ معلوم ہونا چاہیے۔
یہ تمہید اس لیے باندھی کہ میں کوئی ماہرِ معاشیات نہیں ہوں، لیکن تھوڑا بہت جو سمجھتا ہوں، وہ آپ کے ساتھ شیئر کروں گا اور کوشش کروں گا کہ سادہ الفاظ میں اپنی بات کرسکوں۔
معاشی پالیسیاں بنانا حکومت کا کام ہوتا ہے…… جس کا مقصد عوام کو ریلیف دینا اور ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہوتا ہے۔ عام طور پر دو قسم کی معاشی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں…… یعنی قلیل مدتی اور طویل مدتی پالیسیاں، جن کو پنج سالہ منصوبہ بھی کہتے ہیں۔
دونوں میں اس بات کو اہمیت دی جاتی ہے کہ ملکی معیشت کو کس طرح مضبوط کرکے عوام کو مہنگائی سے ریلیف دیاجائے!
آج ہم یہاں قلیل مدتی پالیسی کے حوالے سے بات کریں گے…… جس سے عوام کو جلد از جلد ریلیف مل جائے۔ اس کے لیے کچھ چیزیں ہمیں ماضی سے لینا پڑیں گی…… جن کا تجربہ خاصا حوصلہ افزا رہا تھا…… مگر بدقسمتی سے وہ منصوبے جاری نہ رہ سکے۔ ان میں ایک منصوبہ زیڈ اے بھٹو صاحب نے شروع کیا تھا، جو عوام کو ریلیف دینے میں بہت مددگار ثابت ہوا تھا۔ انہوں نے ہر گھر کے افراد کے حساب سے راشن کارڈ کا اجرا کیا تھا۔ اس نظام میں بھٹو صاحب نے اپنی پارٹی کے ان ورکروں کو راشن ڈپو دیے جن کے پاس اپنی دکانیں تھیں۔ اس کا فایدہ یہ تھا کہ نہ تو سٹور کا کوئی کرایہ دینا پڑتا اور نہ حکومت کو اس کے لیے الگ سے ملازمین ہی رکھنا پڑتے۔ راشن ڈپو کے مالک کو حکومت کی طرف سے کمیشن ملتا۔ ہر خاندان کو راشن کارڈ کے مطابق سستے قیمت پر چینی، آٹا اور گھی ملتا تھا۔ یہ فارمولہ اب بھی کار آمد ہوسکتا ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کس طرح یہ بوجھ اٹھائے…… یعنی عوام کو اشیائے ضروریہ کم قیمت پر کس طرح دی جائیں؟ اس کے لیے ہمیں سوشلسٹ ماڈل سے کچھ چیزیں لینا پڑیں گی۔ سابق سوویت یونین نے ایک آسان فارمولہ بنایا تھا۔ اس نے اشیائے ضروریہ کو دو درجوں میں تقسیم کیا تھا۔ عام ضرورت کی اشیا یعنی روزمرہ استعمال کی اشیا اور سامانِ تعیش۔ جو چیزیں روزمرہ کی ضرورت تھیں، ان کی قیمتیں کم اور جو ضروت نہیں تھیں، ان کی قیمتیں زیادہ رکھی گئی ثھیں۔ کھانے پینے کی چیزیں، بجلی، گیس، علاج، تعلیم، پبلک ٹرانسپورٹ اور دیگر بنیادی ضرورت کی چیزیں یا تو کافی حد تک سستی تھیں یا مفت۔ اس کے مقابلے میں سامانِ تعیش کی قیمتیں بہت اونچی رکھی گئی تھیں، جن سے بجٹ کو متوازن رکھنے میں مدد ملتی۔ یہ کام یہاں بھی ہوسکتا ہے۔ پُرآسائش گاڑیاں، مہنگے ترین موبائل، ٹی وی، کھانے پینے کی ایسی چیزیں جو ملک میں ہوتے ہوئے بھی باہر سے امپورٹ کرنا پڑتی ہیں…… ان پر ٹیکس کی شرح بڑھانے سے عوام کو اشیائے ضروریہ سستی داموں فراہم کی جاسکتی ہیں۔
پاکستان میں ہر ماہ اندازاً ایک ارب ڈالر مالیت کی اشیا جن میں مکھن، مارجرین، چاکلیٹ اور کتوں بلیوں کی خوراک شامل ہے امپورٹ کرنی پڑتی ہیں۔ یہ ساری چیزیں پاکستان میں بنتی ہیں۔ ان پر پابندی لگانے سے ہر ماہ ایک ارب ڈالر کی بچت ممکن ہے۔ اگر پابندی نہیں لگا سکتے، تو پھر ان پر ٹیکس کی شرح بڑھانی چاہیے۔ اس کے علاوہ سالانہ تین ارب ڈالر مالیت کے موبائل فون بھی پاکستان میں آتے ہیں۔ حالاں کہ یہ پاکستان میں بہت کم لاگت میں اسمبل ہوسکتے ہیں۔ اس سے بھی پاکستان کو تین ارب ڈالر سالانہ کی بچت ہوسکتی ہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں پاکستان کے اندر سارک گیمز کا ایونٹ ہونا تھا۔ اُس وقت بھی ملک کے یہی حالات تھے، جو آج ہیں…… یعنی خزانہ خالی تھا۔ اتنے بڑے ایونٹ کے لیے پیسے نہیں تھے۔ حکومت نے اس کے لیے ’’سیور ریفل‘‘ کے نام سے ایک لاٹری ٹکٹ متعارف کروایا جس کی قیمت دس روپیا تھی۔ شروع میں انعامی رقم کم تھی…… لیکن بعد میں کروڑوں ہوگئی۔ اس سکیم سے حکومت کو اچھی خاصی ریوینیو ملی…… اور ساتھ میں ملک کے اندر ہر مہینا کوئی بندہ کروڑ پتی بھی بنتا گیا۔ اس طرح کی سکیمیں اگر دوبارہ شروع کی جائیں، تو اس سے حکومت کو کئی مسایل پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔
یہاں ہم برطانیہ کی لاٹری سکیم کے اعداد و شمار دیتے ہیں جس سے اس طرح کی سکیموں کے فواید سمجھنے میں آسانی ہوگی ۔
31 مارچ 2021ء تک ایک سال کے دوران میں کل 8373.9 ملین پاونڈ کے ٹکٹ بکے۔ جن میں سے 1887.5 ملین لاٹری سکیم کو مزید ترقی دینے کے لیے مختص کیے گئے۔ 4854.7 ملین پاونڈ انعامات کی شکل میں دیے گئے اور 1094.8 ملین حکومت کو ریوینیو مل گئی۔ اس کے علاوہ 275.9 ملین پاونڈ لاٹری ٹکٹ بیچنے والے ریٹیل کے دکان داروں کو کمیشن کی مد میں ملے۔
یہ صرف برطانیہ کے ایک لاٹری کے اعدادوشمار ہیں۔ پوری دنیا میں اس طرح کی سکیموں سے عوام اور حکومتوں کو براہِ راست فایدے ملتے ہیں۔
دنیا کے تمام ممالک میں کھیلوں سے ریوینیو حاصل کرنے کا نظام موجود ہے۔ یہاں ایک کھیل پر توجہ ہے اور وہ ہے کرکٹ۔ پی سی بی اپنی مرضی سے چلتا ہے۔ نہ کوئی آڈٹ ہے اور نہ کوئی حساب کتاب۔ پی ایس ایل سے اربوں روپے کی کمائی ہے…… لیکن کسی کو پتا نہیں کہ پیسے کہاں جا رہے ہیں؟ سب سے پہلے تو کرکٹ کے معاملات کو شفاف طریقے ٹھیک کرنا ضروری ہے اور اس کے بعد لوکل فائنانسرز کے ساتھ مل کر دوسرے کھیلوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ دنیا کے تمام ممالک میں مختلف کھیلوں کا باقاعدگی سے انعقاد ہوتا ہے…… جس کے ڈھیر سارے فواید ہوتے ہیں۔ پہلے نمبر پر ریوینیو کا حصول، دوسرے نمبر پر ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل اور تیسرے نمبر پر بے روزگاری پر قابو پانا۔
اس کے علاوہ کچھ ادارے ایسے ہیں جو حکومت پر بوجھ ہیں اور ان کا کوئی کام بھی نہیں۔ مثلاً ڈاک کا نظام…… یہ نظام اب پوری دنیا میں پرائیویٹ ہوچکا ہے، لیکن یہاں چل رہا ہے۔ کوئی بھی ماہرِ معاشیات اگر پاکستان پوسٹ کا آڈٹ ایمان داری سے کرے، تو وہ یقینا اس محکمے کو ختم کرنے کی سفارش کرے گا۔ اس کو بیچ کر اچھے خاصے پیسے مل سکتے ہیں۔
اس طرح ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی بھی ہیں۔ یہ دونوں ادارے حکم رانوں کی توصیف اور پروپیگنڈے کے علاوہ کوئی اور کام کرتے نہیں۔ ان کو بھی پرائیویٹائز کر کے اچھی خاصی رقم مل سکتی ہے۔
اس طرح سٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن ہے جس میں حکومت اپنے شیئر رکھتی ہے۔ اس کو بھی اگر پرائیوٹ کیا جائے، تو اچھی خاصی رقم ملنے کی امید ہے۔
ایک اور ادارہ پاکستان سٹیل ملز کراچی ہے، جو پچھلے 25 سالوں سے بند پڑا ہے۔ ہزاروں لوگوں کو تنخواہیں حکومتی فنڈز سے جارہی ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس ادارے کو ابھی تک کیوں عوام کے سروں پر بوجھ رکھا گیا ہے؟
پاکستان ریلوے اور پی آئی اے بھی دو ایسے ادارے ہیں جن کے لاکھوں ملازمین تنخواہیں اور مراعات تو لیتے ہیں، مگر کام صفر ہے۔ دونوں نقصان میں ہیں۔ ان کو بھی بیچ کر اچھی خاصی رقم حاصل کی جاسکتی ہے۔
اس کے علاوہ ہمارے پاس ایک اور بھی آپشن ہے اور وہ ہے پاکستانی شہریت ایک معقول رقم یا معقول انویسٹمنٹ کے ذریعے بیچنا۔ امریکہ، کنیڈا اور یورپ کے ڈھیر سارے ممالک سمیت دنیا میں ڈھیر سارے ممالک اپنی شہریت بیچنے کے عوض اچھی خاصی رقم وصول کرتے ہیں۔ پاکستان میں افغانستان کے تیس لاکھ سے زاید شہری تین عشروں سے رہایش پذیر ہیں۔ ایک پوری نسل پاکستان میں پیدا اور جوان ہوئی۔ دو نمبر کاغذات کے حصول کے لیے لاکھوں روپیا رشوت دیتے ہیں۔ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد پوری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح لوگ جہاز کے پہیوں سے لٹک کر ملک سے بھاگنے کی کوشش میں ایک یقینی موت کو گلے لگارہے تھے۔ اگر ان لوگوں کو پاکستان میں ایک معقول رقم کے عوض مستقل رہایش دی جائے، تو اس سے پاکستان کے کافی مسایل حل ہوسکتے ہیں۔
ایک غیر سرکاری سروے کے مطابق صرف کراچی میں ایک ملین سے زیادہ غیر ملکی غیر قانونی طور پر رہایش پذیر ہیں۔ یہ سب کراچی میں مختلف کام یا کاروبار کرتے ہیں، لیکن حکومت کو ان سے کوئی آمدن نہیں۔ ان غیر قانونی باشندوں کو طویل مدتی ویزے بھی دیے جاسکتے ہیں…… جس سے اچھی خاصی آمدنی ہوسکتی ہے۔
بیرونی قرضے کسی منصوبے کی تکمیل میں مدد تو دے سکتی ہیں، لیکن 22 کروڑ آبادی والے ملک کو قرضوں سے نہیں چلا سکتے۔ اس کے لیے تیزی سے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ زرعی اصلاحات اور زراعت کو ترقی دینے سے ہم کم وقت میں اپنی مشکلات کم کرسکتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ اس وقت ہم معاشی تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں…… لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم سنبھل نہیں سکتے۔ زندہ قومیں ہمیشہ مشکلات کا مقابلہ کرتی ہیں۔ اب بھی حالات کو قابو کیا جاسکتا ہے، لیکن اس کے لیے سب سے پہلے نیک نیتی اور سرعت سے کام لینا ہوگا۔ وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔
……………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔