مَیں جب خرگوشوں کے جزیرہ سے واپس آیا، تو شام ہوچکی تھی۔ اس لیے سیدھا ہوٹل گیا اور اپنا سامان باندھا۔ کیوں کہ صبح سویرے ہیروشیما سے کیوٹو جانا تھا، جہاں مجھے کیوٹو یونیورسٹی میں گندھارا اور وادئی سندھ کی تہذیب پر کام کرنے والے پروفیسر حضرات سے ملنا تھا۔ میں جلدی سو گیا اور صبح سویرے ناشتہ کرنے کے بعد ریلوے سٹیشن چلا گیا۔ میں نے پہلے ہی سے جاپان کی تیز رفتار بلٹ ٹرین ’’شین کین سن‘‘ میں ٹکٹ لیا تھا۔ اس لیے ٹھیک آٹھ بجے ٹرین میں بیٹھ گیا اور کیوٹو کے لیے روانہ ہوا۔ جب کیوٹو پہنچا، تو اس خوبصورت اور پُرکشش شہر نے مجھے اپنی طرف راغب کیا۔ کیوں کہ یہاں قدیم اور جدید عمارتوں کا حسین امتزاج ہے۔ قدیم عمارتوں میں زیادہ تر شینٹو شرائن ہیں۔ ان میں ہر وقت سیاحوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے۔ چوں کہ کیوٹو یونیورسٹی میں میری ملاقات دن دو بجے رکھی گئی تھی اور اب تقریباً گیارہ بجے تھے، تو مَیں نے سیاحوں کے معلوماتی مرکز سے کیوٹو شہر کا نقشہ لیا اور چند سیاحتی مقامات کی سیر کا فیصلہ کیا۔ کیوٹو شہر میں بس سروس کا منظم اور بہترین نظام موجود ہے جو یہاں کے ہر علاقہ اور مقام سے جڑا ہوا ہے۔ میری پہلی منزلِ مقصود ارشیاما پارک تھی۔ اس لیے میں متعلقہ بس میں بیٹھا اور تقریباً تیس منٹ کی مصافت کے بعد وہاں موجود تھا۔ مَیں جیسے ہی بس سٹاپ سے ارشیاما پارک کے قریب پہنچا، تو یہاں کی خوبصورتی، نفاست اور صفائی دیکھ کر حیران رہ گیا۔ یہ پارک بلامبالغہ جنت نما جگہ تھا، جہاں کا دریا، جھیلیں، جنگل، چیری کے درختوں اور خوشگوار موسم میں فطری حسن اور کشش تھی۔

ارشیاما پارک کا ایک دلفریب منظر۔ (فوٹو: فضل خالق)

یہ پارک سڑک کی دونوں جانب ہے جب کہ دریا کو پار کرنے کے لیے مشہور ’’توگت سوکو‘‘ پُل بنایا گیا ہے، جہاں سیاحوں کی بھیڑ لگی ہوتی ہے۔ پُل پر کھڑے ہوکر اوپر کی جانب دیکھا جائے، تو دلفریب جھیل اور ساتھ ہی پہاڑی پر گھنا جنگل سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔ جھیل اور جنگل کے درمیان پرانا راستہ جاتا ہے اور یہ پورا منظر اتنا دلفریب اور پُرکشش ہے کہ جس پر ایک شاہکار پینٹنگ کا گمان ہوتا ہے۔ اس منظر کو دیکھ کر میرے دل میں بھی جھیل اور جنگل کے درمیانی راستے پر چلنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ اس لیے مَیں اُس طرف چلنے لگا اور جب جھیل کنارے چلنے لگا، تو سکون و طمانیت میرے من کی جوت جگانے لگی۔ جھیل کی خاموشی اور جنگل کی پُراسراریت عجیب تھی۔ جوں جوں میں آگے بڑھتا گیا، یہاں کا سحر مجھے پر طاری ہوتا گیا۔ اس فردوسی ماحول میں دور دور پریمی جوڑے ایک دوجے میں کھوئے نظر آئے، تو دوسرے ہی لمحے مجھے کیکو کی یاد آئی۔ یہ واقعی کیکو کی شان کے مطابق جگہ تھی اور اگر وہ یہاں ہوتی، تو جیسے رہی سہی کسر پوری ہوجاتی۔ کیوں کہ یہاں جو ایک کمی مجھے محسوس ہوئی، وہ جنتی پریوں کی تھی اور کیکو کی شخصیت اور حسن، پریوں سے کم نہ تھا۔ مجھے احساس ہوا کہ میں کسی جنت میں ہوں، مگر جھیل سی آنکھوں والی کیکو کے بغیر۔ اس لیے مجھ پر اُداسی کا غلبہ ہوا اور میں آہستہ آہستہ جھیل کنارے واپس آنے لگا۔

دلفریب جھیل اور ساتھ ہی پہاڑی پر گھنا جنگل سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔ (فوٹو: فضل خالق)

جھیل میں کشتیاں اوپر نیچے چل رہی تھیں جن میں سیاح یہاں کے جادوئی حسن سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ جھیل میں تیرتے ریسٹورنٹ بھی تھے جو دوسری کشتیوں میں سوار سیاحوں کو چائے، کافی یا خوراک مہیا کرتے تھے۔ کسی دوسری کشتی میں سوار سیاح اگر کھانا پینا چاہتا، تو وہ ’’ریسٹورنٹ کشتی‘‘ کو اشارہ کرتا۔ ریسٹورنٹ انتظامیہ تیر کر ان کے قریب آتی، کھانے پینے کی اشیا دیتی اور واپس چلی جاتی۔ میری نظر گھڑی پر گئی، تو دیکھا کہ ایک بج رہا تھا۔ جلدی سے بس سٹاپ گیا، متعلقہ بس پکڑی اور واپس کیوٹو شہر آیا، جہاں مَیں کیوٹو یونیورسٹی جاتی ہوئی بس میں بیٹھ گیا اور چالیس منٹ کے سفر کے بعد یونیورسٹی پہنچا۔

ریسٹورنٹ کشتی جھیل کے پانی میں سیاحوں کی تواضع کی خاطر تیرتی رہتی ہے۔ (فوٹو: فضل خالق)

یونیورسٹی پہنچ کر مجھے پتا چلا کہ اس یونیورسٹی میں اردو زبان کی بیس ہزار سے زائد کتب ہیں جو پاکستان، اسلام، جنوبی ایشیا کی تاریخ، ادب، سماجیات، لسانیات، فلسفہ، صوفی ازم اور بہت سے دوسرے مضامین کا احاطہ کرتی ہیں۔ مذکورہ کتب یہاں ’’عقیل کلیکشن‘‘ کے نام سے موسوم ہیں۔ مجھے اس یونیورسٹی میں موجود چند سکالرز سے بھی ملنے کا اتفاق ہوا، جنہیں پاکستان جانے کا موقع ملا تھا۔ وہ اس حوالہ سے کافی علم رکھتے تھے ۔ وہ اپنی یونیورسٹی میں پاکستان اور اردو زبان کی اتنی زیادہ تعداد پر خوش بھی تھے ۔
’’کینو شیتا ہیدامی‘‘ جوکیوٹو یونیورسٹی میں ایشیا اور افریقہ کے گریجویٹ سکول کی ایشین سٹڈیزکی لائبریرین ہیں، نے کہا کہ اردو زبان اور پاکستان پر کتابوں کا سب سے بڑا ذخیرہ ’’برٹش لائبریری‘‘ میں ہے۔ کیوٹو یونیورسٹی کی ایشیا اور افریقہ سیکشن لائبریری، اردو اور پاکستان پر کتابوں کے لحاظ سے دنیا کی دوسری بڑی لائبریری ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں پاکستان اور اردو زبان کی اتنی زیادہ کتابوں کے ذخیرے پر خوشی ہے۔
اتنی بڑی تعداد میں کتابیں اصل میں کراچی کے مشہور سکالر ڈاکٹر معین الدین عقیل کی ذاتی لائبریری کی ہیں۔ معین الدین عقیل صاحب کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کے پروفیسر اور چیئرمین رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بین الاقوامی اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں بحیثیت ڈین فرائض بھی سرانجام دے چکے ہیں۔

کیوٹو یونیورسٹی جاپان میں بیس ہزار سے زائد اردو کی کتابیں ہیں۔ (فوٹو: فضل خالق)

کیوٹو یونیورسٹی تحقیق کے لیے جانی جاتی ہے اور یہاں تحقیق کو انتہائی اہمیت دی جاتی ہے۔ اسی لیے اس یونیورسٹی کی انتظامیہ نے دنیا کے دوسرے ممالک اور زبانوں میں لکھی گئی کتابوں کا بڑا ذخیرہ اپنی لائبریریوں میں جمع کررکھا ہے، تاکہ یہاں پڑھنے والے طلبہ اور محققین کو تحقیق میں آسانی ہو۔
’’سومیتومیزو ساوا‘‘ جو گورنمنٹ کالج لاہور سے اردو زبان میں ڈپلومہ کرچکے ہیں اور اردو لکھنے اور پڑھنے کے علاوہ روانی سے بو ل بھی سکتے ہیں، یہاں سے پی ایچ ڈ ی کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اردو زبان میں اتنا بڑا ذخیرہ پاکر وہ انتہائی خوش ہیں۔ وہ مجھے خوشی خوشی عقیل کلیکشن لے جاکر کتابیں دکھانے لگا۔ اس نے کہا کہ انہیں منٹو کے افسانے، غالبؔ، فیضؔ اور اقبالؔ کی شاعری پسند ہے۔ اس نے کہا کہ ان کے ادبی کاموں کے جاپانی زبان میں تراجم بھی ہوچکے ہیں۔ اس نے اقبالیات پر اوساکا یونیورسٹی کے پروفیسر ’’سویا مانے یاسر‘‘ کا اردو مقالہ جاپان بھی بھیجا۔
’’آئیومو کونا سوکاوا‘‘جو پی ایچ ڈی سکالر ہیں اور جنوبی ایشیائی سڈیزکے ریسرچ فیلو ہیں، بھی تھوڑی تھوڑی اردو سمجھتے ہیں۔ کیوں کہ انہوں نے ’’انڈس سیولائیزیشن‘‘ کے آثارِ قدیمہ پراپنی تحقیق پشاور یونیورسٹی سے کی ہے۔ وہ پاکستان سے لگاؤ رکھتے ہیں۔ کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا تہذیبی اور ثقافتی ورثہ قابل دید اور یہاں کے لوگ دوستانہ ہیں۔ انہوں نے مستقبل میں پاکستان کے آثار قدیمہ پر کام کرنے کی امید بھی ظاہر کی ہے۔ (جاری ہے)

………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔